شاباش…مصباح!

3 1,034

چالیس رنز کا ہدف ایسا تو نہ تھا کہ اس تک رسائی کے لیے کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا، جبکہ پہلی اننگزمیں اوپنرز کی جوڑی ہی ایسی تھی کہ جنوبی افریقہ کو 10وکٹوں سے زیر کرنا چنداں مشکل نہ تھا، لیکن ایک معمولی ہدف کے تعاقب میں پاکستان کے پہلے تین کھلاڑی صرف 7کے اسکور پر پویلین لوٹ چکے تھے۔پہلی اننگز میں ناکامی کا شکار یونس خان دوسری باری میں بھی جدوجہد کرتے دکھائی دے رہے تھے اور ایک مرتبہ پھر امیدوں کا محور و مرکز 'مرد بحران' کپتان مصباح الحق ہی تھے، جنہیں اننگز کی محض 22ویں گیند پر میدان میں قدم رکھنا پڑا۔ اس صورتحال میں بھی مصباح کی اننگز کی آغاز پراعتماد تھا جنہوں نے چھٹے اوور میں دو وکٹیں لینے والے ویرنن فلینڈر کو پوائنٹ پر چوکالگایا۔پھر رابن پیٹرسن کو پہلے ہی اوور میں لانگ آف پر چھکا رسید کیا اگلے اوور میں کھبے اسپنر کی گیند کو ایک اور چھکے کے لیے روانہ کرتے ہوئے پاکستان کی یادگار فتح کا اعلان کردیا!

مصباح کو کبھی ہوم گراؤنڈ پر کپتانی کرنے کا موقع نہیں ملا اور ان کی تمام فتوحات غیر ملکی سرزمین پر ہیں (تصویر: AFP)
مصباح کو کبھی ہوم گراؤنڈ پر کپتانی کرنے کا موقع نہیں ملا اور ان کی تمام فتوحات غیر ملکی سرزمین پر ہیں (تصویر: AFP)

جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کی یہ کامیابی بلاشبہ یادگار فتوحات میں سے ایک ہے جس نے گرتی ہوئی ٹیم کو ایک مرتبہ پھر سنبھال لیا ہے ورنہ زمبابوے کے خلاف شکست کے بعد ہر کوئی پاکستانی ٹیم کے لتے لے رہا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شکست کے اسباب ڈھونڈنے کی بجائے ماہرین کی اکثریت کے پاس ہر مسئلے کا حل صرف کپتان کی تبدیلی میں پنہاں تھا۔

رواں سال کے اوائل میں جنوبی افریقہ میں قومی ٹیم کو وائٹ واش کی خفت کا سامنا کرنا پڑا تو کپتان کی تبدیلی کا مطالبہ سامنے آیا ،چیمپئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم تینوں میچز میں ناکام رہی تو مورد الزام کپتان کو ٹھہرایا گیا جو شکست خوردہ ٹیم کا واحد کامیاب کھلاڑی تھا اور ایک ماہ قبل زمبابوے کے ہاتھوں آخری ٹیسٹ میں پاکستان کو اَپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ایک مرتبہ پھر تنقید کی تمام تر توپوں کا رخ مصباح الحق کی جانب ہوگیا حالانکہ اس دورے پر مصباح پاکستان کا کامیاب ترین بیٹسمین تھا لیکن جب بھی پاکستانی ٹیم مصباح الحق کی قیادت میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو کپتان کے لیے 'ستائش' کا ایک لفظ بھی ان 'ماہرین' کے منہ سے نہیں نکلتا۔

مصباح الحق کی ٹیم دو سال کے عرصے میں دوسری مرتبہ عالمی رینکنگز کی سرفہرست ٹیم کو ٹھکانے لگاتی ہے تو کپتان کے ناقدین کی زبانوں کو تالے لگ جاتے ہیں، جن کی کوشش ہوتی ہے کہ جیت میں مصباح کے کردار کو کم سے کم ثابت کیا جائے ۔جنوبی افریقہ کے خلاف بلاشبہ 'مین آف دی میچ' کا اعزاز حاصل کرنے والے خرم منظور کی کارکردگی قابل ستائش ہے جبکہ دیگر کھلاڑیوں نے بھی اس فتح میں اپنا اپنا حصہ ڈالامگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کپتان اور کھلاڑی کی حیثیت سے مصباح الحق کی کارکردگی کو نظر انداز کردیا جائے۔ بلکہ یہ تاثر دیا جائے کہ اس فتح میں مصباح کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔اگر پاکستانی ٹیم نے پہلی اننگز میں 200 کے لگ بھگ رنز کی برتری حاصل کی تو اس میں مصباح الحق کا کردار بھی نمایاں تھا جس نے ایک عمدہ سنچری اسکور کرتے ہوئے پاکستان کو 400 سے زیادہ کا مجموعہ دلوایا جبکہ دوسری باری میں جب پاکستانی بیٹنگ کی عمارت میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں تو مصباح الحق نے ہی اس عمارت کو گرنے سے بچایا۔

پروٹیز کے خلاف سنچری اسکور کرکے مصباح الحق رواں سال انٹرنیشنل کرکٹ میں 1441 رنز کے ساتھ سرفہرست بلے باز بن گئے ہیں جو ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی تسلسل کے ساتھ پرفارمنس کا ثبوت ہے۔بطور کپتان مصباح الحق نے ابوظہبی میں اپنے کیرئیر کی گیارہویں ٹیسٹ کامیابی حاصل کی ہے اور یوں وہ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچز جیتنے والے کپتانوں میں تیسرے نمبر آ گئے ہیں اور ممکن ہے کہ سری لنکا کے خلاف سیریز میں مصباح عمران خان کی14 فتوحات کا ریکارڈ بھی برابر کردیں۔

پھر مصباح کے 'بدخواہ' جان بوجھ کر اس حقیقت کو سامنے نہیں لاتے کہ انہیں کبھی بھی ہوم گراؤنڈ پر کپتانی کرنے کا موقع نہیں ملا، ان کے پاس دستیاب ٹیم بھی صلاحیتوں کے اعتبار سے ماضی کی پاکستانی ٹیموں کے مقابلے میں قدرے کم ہے ، نہ ہی ان کے پاس تیز باؤلرز کی ایسی کھیپ ہے جو مخالف بیٹنگ لائن اپ کے پرخچے اڑا سکے اور نہ ہی ایسے بلے باز جو نازک صورتحال کو کجا عام حالات میں بھی ڈٹ کر کھیلیں۔ ایسے حالات میں مصباح کا بڑی ٹیموں کے خلاف فتوحات کشید کرنا کچھ معمولی کامیابی نہیں ہے کہ اس پر مصباح اور ان کی ٹیم کو سراہنے میں بخل سے کام لیا جائے۔

مصباح الحق کی ذاتی کارکردگی اگر خراب ہے تو اس پر ضرور تنقید کی جائے ،اگر وہ ناقص کپتانی کررہا ہے تو پھر بھی تنقید کے نشتر چلائے جائیں لیکن محض ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت مصباح کو ایک ناکام کپتان اور خود غرض کھلاڑی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرنے والوں کو صرف یہ جان لینا چاہیے کہ مصباح قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان ہے، وہ پاکستان کی کامیابی کا عزم لیے میدان میں اترتا ہے۔ اس لیے بحیثیت کھلاڑی اور کپتان پر ان پر بے جا اور بلاجواز تنقید دراصل کرکٹ سے وابستہ قوم کے جذبات کو سرد کرنے کی کوشش ہے ۔