[باؤنسرز] باؤلرز کی عزت ختم ہوگئی ہے!!

1 1,044

ایک عشرہ پہلے جب ہم اپنی کلب کرکٹ کے زیادہ تر میچز ’’بھٹے والے اسکول‘‘ کی سیمنٹ وکٹ پر کھیلا کرتے تھے تو وہاں 20 اوورز کے میچز میں 250رنز کا مجموعہ اسکور بورڈ پر سجانا ایک عام سی بات تھی جبکہ بعض اوقات 300 کا جادوئی ہندسہ بھی ہماری خستہ اسکور بُکس کی زینت بن جایا کرتا تھا۔ سیمنٹ وکٹ پر باؤلنگ کروانے کو ‘باؤلرز کی موت’ کہا جاتا تھا،اگر چھ گیندوں پر چھ سنگلز بنتے تو ایسے اوور کو ’’میڈن اوور‘‘ کہا جاتا تھا۔ سیمنٹ وکٹ پر گیند سوئنگ یا اسپن ہوئے بغیر یکساں اچھال کے ساتھ آتی، جسے اٹھا کر باؤنڈری سے باہر پھینکنا بیٹسمینوں کیلئے زیادہ مشکل کام نہ ہوتا تھا ۔ جس بیٹسمین کے بازوؤں میں زیادہ قوت ہوتی وہ گیند کو اسکول کی بلڈنگ کے اندر پھینکنے کا ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل کرلیتا جبکہ جو بیٹسمین چھکا لگائے بغیر چھ سات گیندیں ’’ضائع‘‘ کرتا اُس پر ’’ٹُک ٹُک‘‘ کا ٹیگ لگ جاتا ۔ ’’پکی‘‘ یعنی سیمنٹ وکٹ کے ہیرو جب ’’کچی ‘‘ یعنی ٹرف وکٹ پر کھیلتے تو اُن کی جارحانہ بیٹنگ کا پول کھل جاتا اور سیمنٹ وکٹ پر ترنوالہ بننے والے باؤلرز ٹرف وکٹ پر ایسے بیٹسمینوں پر چڑھ دوڑتے۔

نئے قوانین اور مردہ وکٹوں نے بین الاقوامی کرکٹ بھی "کچی" اور "پکی" وکٹ کی کرکٹ میں تقسیم ہوگئی ہے (تصویر: BCCI)
نئے قوانین اور مردہ وکٹوں نے بین الاقوامی کرکٹ بھی "کچی" اور "پکی" وکٹ کی کرکٹ میں تقسیم ہوگئی ہے (تصویر: BCCI)

ماضی میں باؤلرز کی رسوائی کا یہ سامان صرف کلب کرکٹ میں سیمنٹ وکٹ پر کھیل کر ہوا کرتا تھا لیکن ان کے پاس ٹرف وکٹ پر کھیل کر اس رسوائی کا ازالہ کرنے کا پورا موقع موجود ہوتا تھا لیکن اب کلب کرکٹ سے لے کر ٹی20 اور ون ڈے انٹرنیشنلز تک باؤلرز کیلئے اپنی جان بچانی مشکل ہوگئی ہے جہاں بیٹسمین ہاتھ میں بیٹ کی بجائے تلوار تھامے باؤلرز کی اکانومی ریٹ کا قتل عام کے درپے ہیں۔

بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان ون ڈے سیریز کے آخری میچ میں بھارتی ٹیم نے روہیت شرما کی ڈبل سنچری کی بدولت اسکور بورڈ پر 383کا ہندسہ سجایا اور اس سیریز میں 10 اننگز میں سے نویں مرتبہ 300 کا ہندسہ عبور ہوا۔ صرف ایک مرتبہ بھارتی ٹیم نے 232 رنز بنائے جبکہ بارش سے متاثرہ چوتھے ون ڈے میں آسٹریلین ٹیم نے 295 رنز بنائے تھے۔ اس سیریز میں روہیت شرمااور جارج بیلی نے 6،6 اننگز میں بالترتیب 491اور 478رنز 108 اور 116کے اسٹرائیک ریٹ سے بنائے اس کے علاوہ کوہلی اور دھونی کا اسٹرائیک ریٹ بھی 100 سے زائد رنز رہا۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ چار مکمل میچز کے دوران تین مرتبہ 300 سے زائد رنز کا ہدف عبور ہوچکا ہے جس میں بھارتی ٹیم نے ایک مرتبہ 360اور دوسری مرتبہ 351 رنز کے ہدف کا تعاقب کامیابی اور نہایت آسانی کے ساتھ کیا۔اس سیریز میں متعدد باؤلرز کا اکانومی ریٹ 7 سے زائد رہا جبکہ 50 سے زائد اوورز کروانے والے باؤلرز میں سے صرف روی چندر آشون اور رویندر جدیجا کا اکانومی ریٹ ہی 6سے کم رہا ۔ ایشانت شرما جیسا حقیقی رفتار کا حامل فاسٹ باؤلر ایک میچ میں 9اوورز کے دوران 70رنز دے کر لٹ گیا جبکہ ونے کمار کو آخری ون ڈے میں 9 اوورز میں 102 رنز کی ریکارڈ مار پڑ گئی۔ ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی بھارتی باؤلر کو اپنے اسپیل میں 100 سے زیادہ رنز پڑے ہوں۔ اس کے علاوہ کلنٹ میک کے، کالٹر-نائل ،امیت مشرا اور جیمز فالکنر نے 10 اوورز کے اسپیل میں بالترتیب 89، 80 ، 78اور 75رنز کا جرمانہ دیاجبکہ شین واٹسن کے 8اوورز میں 74رنز بن گئے۔

یہ اعدادوشمار ظاہر کررہے ہیں بیٹنگ کیلئے بنائی گئی مردہ وکٹیں اور ون ڈے کرکٹ کے نئے قوانین نے باؤلرز کی عزت خاک میں ملا دی ہے اور ون ڈے کرکٹ میں اب کوئی بھی ہدف محفوظ نہیں رہا۔ بھارتی کپتان مہندر سنگھ دھونی کے الفاظ میں کہ نئے قوانین کے بعد رنز کی رفتار روکنا باؤلرز کے لیے چیلنج بن گیا ہے ۔کلب کرکٹ میں سیمنٹ وکٹ پر کھیلتے ہوئے کم خراب گیندیں کرنے والے باؤلرز کو اچھا سمجھا جاتا تھا اور اب اس فارمولے کا اطلاق ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی ہونے لگا ہے۔

مردہ وکٹوں پر دونوں اینڈ سے نئے گیند کا استعمال اور 36ویں اوور میں بیٹنگ پاور پلے نے باؤلرز کی دہشت کا خاتمہ کر دیا ہے، جن کی گیندوں کو بیٹسمین بے دردی سے باؤنڈری کی راہ دکھاتے ہیں ۔ بھارت-آسٹریلیا معرکوں کے برعکس متحدہ عرب امارات کی اسپورٹنگ وکٹوں پر انہی قوانین کے باوجود بیٹسمین دو نئی گیندوں پر بھی جدوجہد کرتے ہوئے دکھائی دیے اور 50اوورز میں 200رنز بنانا بھی ان کے لیے 'جوئے شیر لانے' کے مترادف ہوگیا ہے ۔

درحقیقت نئے قوانین اور بلے بازوں کے لیے سازگار وکٹیں بنانے کے بعد ون ڈے انٹرنیشنلز بھی ہماری کلب کرکٹ کی طرح ’’پکی‘‘ اور ’’کچی‘‘ وکٹ میں تقسیم ہوگئی ہے جس کے بارے میں آئی سی سی کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا ورنہ باؤلرز کی جگہ باؤلنگ مشینوں کے استعمال کی ازراہ مذاق پیش کی گئی رائے سنجیدہ روپ اختیار کر سکتی ہے!