[فل لینتھ] ٹیسٹ کرکٹر شبیر احمد کرک نامہ کے نئے تجزیہ کار

8 1,088

2005ء میں انگلستان نے آسٹریلیا پر تاریخی فتح پاتے ہوئے عرصے کے بعد کوئی ایشیز سیریز جیتی۔ مائیکل وان سے لے کر اینڈریو فلنٹوف تک، ٹیم کے ہر رکن کا دماغ ساتویں آسمان پر تھا لیکن صرف ایک ہی سیریز انہیں عرش پر فرش سے واپس لانے کے لیے کافی ثابت ہوئی، 2005ء کا دورۂ پاکستان۔ جس میں ملتان میں کھیلے یادگار ٹیسٹ مقابلے میں ایک پاکستانی باؤلر نے سب سے کم ٹیسٹ میچز میں 50 وکٹیں حاصل کرنے کا قومی ریکارڈ برابر کیا اور اس کا نام لیجنڈری گیندباز وقار یونس کے ساتھ جگمگایا، وہ باؤلر تھا شبیر احمد!

شبیر احمد وقتاً فوقتاً کرک نامہ کے لیے "فل لینتھ" کے عنوان سے کالمز لکھیں گے (تصویر: AFP)
شبیر احمد وقتاً فوقتاً کرک نامہ کے لیے "فل لینتھ" کے عنوان سے کالمز لکھیں گے (تصویر: AFP)

خانیوال سے تعلق رکھنے والا ساڑھے چھ فٹ قد کا حامل شبیر ایک برق رفتار اور لائن و لینتھ پر قابو رکھنے والا باؤلر تھا لیکن بدقسمتی سے یہی ملتان ٹیسٹ اس کے کیریئر کا آخری مقابلہ ثابت ہوا۔ انگلستان کو ہرانے کا بدلہ شبیر احمد کے ایکشن کو رپورٹ کرکے لیا گیا اور پھر بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے اس نوجوان پر ایک سال کی سخت پابندی عائد کردی۔

وسیم اکرم، وقار یونس، ثقلین مشتاق اور شعیب اختر جیسے باؤلرز کی موجودگی میں کسی نئے باؤلر کا ٹیم میں مقام بنانا اور کارکردگی دکھانا ویسے ہی بڑی بات تھی لیکن اس پابندی نے شبیر کے کیریئر کو سخت دھچکا پہنچایا۔ ایک سال بعد پابندی کا خاتمہ تو ضرور ہوا لیکن وہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کے لیے ویسے ہی خدمات انجام نہ دے سکے۔

البتہ انہوں نے انڈین کرکٹ لیگ میں حیدرآباد کو چیمپئن بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور ڈومیسٹک سرکٹ میں بھی کافی عرصہ متحرک رہے۔ آجکل وہ لیول II کوچنگ کورس کر رہے ہیں اور مستقبل میں ایک عمدہ کوچ ثابت ہوسکتے ہیں۔

کرک نامہ نے شبیر احمد سے رابطہ کیا کہ وہ کرکٹ کے حوالے سے اپنے تجربات اور یادوں کو قارئین سے شیئر کریں۔ انہوں نے حامی بھری ہے۔ "فل لینتھ" کے عنوان سے ان کی تحاریر وقتاً فوقتاً کرک نامہ کی زینت بنیں گی اور اس سلسلے میں وہ پاک-جنوبی افریقہ ون ڈے سیریز کے حوالے سے اپنا تجزیہ بھی پیش کریں گے۔ کرک نامہ کے لیے پیش کردہ ان کے تعارفی کلمات یہ ہیں:

تعارفی کلمات

کرکٹ میرے خون میں رچی بسی ہے، میں اس کھیل سے جنون کی حد تک وابستہ ہوں۔ اللہ کا کرم اور والدین کی دعاؤں کی بدولت کرکٹ کی وجہ ہی سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہوں۔ مقامی ہو یا بین الاقوامی، کاؤنٹی یا لیگ کرکٹ، سب جگہ مجھے جو عزت ملی اس پر میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ میں آجکل لیول II کوچنگ کورس کی تیاریاں کر رہا ہوں۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی سنہری یادیں پیش کرنے اور کرکٹ سے اپنی محبت کے اظہار کے لیے کچھ لکھوں۔ حامی تو بھرلی لیکن اندازہ ہوا کہ یہ واقعی بہت مشکل کام ہے۔ ابتداء میں تو یہی سوچ رہا تھا کہ جس طرح گیند کو اپنی مرضی کے مطابق سوئنگ کرلیتے تھے، اس طرح الفاظوں کو بھی سمت دے دیں گے لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں۔ خیر، چیلنجز سے نمٹنا میری فطرت ہے اور اس لیے میں نے کرک نامہ کے لیے لکھنے کی شروعات کی ہے۔ امید ہے کہ کرکٹ کے چاہنے والے ان الفاظ کو پسند کریں گے اور اپنی آراء سے بھی نوازیں گے۔