[باؤنسرز] ’’شوبی‘‘ اور’’فوجی‘‘ اچھی بھلی ٹی 20 ٹیم کو اور کتنا مضبوط کریں گے؟؟

0 1,042

شعیب ملک اور عبدالرزاق ٹی ٹوئنٹی طرز کی کرکٹ کے تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ نہ صرف بین الاقوامی بلکہ مقامی و لیگ کرکٹ میں بھی ان کے صلاحیتوں کے جوہر کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ شعیب 134 اور عبد الرزاق 135 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں جبکہ شعیب نے حال ہی میں کیریبیئن پریمیئر لیگ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ عبد الرزاق کینیا میں لیگ کرکٹ کھیلتے ہوئے اپنی ٹیم کی کامیابی کی ضمانت بنے رہے۔

’’شوبی‘‘اور’’فوجی‘‘ کی شمولیت پر اعتراض نہیں، لیکن جس قیمت پر ان کی واپسی ہوئی ہے اس پر سوال ضرور بنتا ہے (تصویر: AFP)
’’شوبی‘‘اور’’فوجی‘‘ کی شمولیت پر اعتراض نہیں، لیکن جس قیمت پر ان کی واپسی ہوئی ہے اس پر سوال ضرور بنتا ہے (تصویر: AFP)

اس لیے قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں ان کی واپسی پر اعتراض بنتا نہیں ہے۔ اسی لیے سلیکشن کمیٹی کے رکن سلیم جعفر کا بھی کہنا ہےکہ’’رزاق اور ملک میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے تجربے اور اس فارمیٹ میں نمایاں کارکردگی کی بدولت ورلڈ ٹی 20 سے قبل پاکستانی ٹیم کی مضبوطی میں اضافہ کرسکیں اور اسی لیے انہیں منتخب کیا گیا ہے۔‘‘ بلاشبہ شعیب ملک اور عبدالرزاق اپنی اہلیت کی بنیاد پر کسی بھی ٹی 20 ٹیم کا لازمی حصہ ہوسکتے ہیں اور ایسے آل راؤنڈر کی موجودگی ٹیم کے لیے سرمائے کی حیثیت بھی رکھتی ہے اور حریف کے لیے پریشانی کا سبب بھی ہوتی ہے۔

مجھے ان دونوں سینئر کھلاڑیوں کی ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں شمولیت پر چنداں اعتراض نہیں بلکہ ان دونوں کو تو ٹیم سے باہر ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ لیکن یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر پرانے کھلاڑیوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے والی قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کو اب ان کھلاڑیوں کی ضرورت دوبارہ کیوں محسوس ہوئی؟ حالانکہ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی کارکردگی بھی بہترین ہے اور وہ عالمی درجہ بندی میں اس وقت بھی دوسرے نمبر پر فائز ہے۔

درحقیقت عبد الرزاق اور شعیب ملک کی واپسی کا سبب ٹیم کی کارکردگی نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے فقدان اور خوف کا نتیجہ ہے۔ اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے سر پر اگلے سال کے اوائل میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء کا خوف سوار ہے۔ پاکستان ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے اولین دونوں ٹورنامنٹس کے فائنل میں پہنچنے کے بعد سے اب تک سیمی فائنل سے آگے نہیں جا پایا۔ خود سلیکٹر کے الفاظ میں کہ "میگا ایونٹ سے قبل ٹیم کو مضبوط بنانے کے لیے ان دونوں کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے،" جس سے واضح ہوتا ہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں اچھی کارکردگی دکھانے کے لیے ٹیم میں سینئر کھلاڑیوں کی بھرمار کی جا رہی ہے، بھلے اس سے ٹیم کمبی نیشن بگڑ جائے۔

اب ذرا یاد کیجیے، گزشتہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھی 'ٹیم مضبوط کرنے کے لیے' ہی عمران نذیر اور عبد الرزاق کو دو سال بعد واپسی کا تحفہ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد 'فوجی' کو صرف ایک میچ کھیلنے کا موقع ملا جس کے بعد وطن واپسی پر جو کچھ ہوا وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ اب عبد الرزاق کی بین الاقوامی کرکٹ سے "لمبی جدائی" بھی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے چند ماہ قبل ختم ہو رہی ہے۔

شعیب ملک ایک وقت میں پاکستان کی طرف سے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی تھے مگر کپتانی جانے کے بعد شعیب ملک اِن اور آؤٹ کا شکار ہوگئے ۔چند ماہ قبل چیمپئنز ٹرافی میں بھی شعیب نے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو اس کی سزا انہیں ون ڈے کے ساتھ ساتھ ٹی ٹوئنٹی سے بھی باہر کرکے دی گئی۔ حالانکہ گزشتہ سال 25دسمبر کو بھارت کے خلاف بنگلور میں 57 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر شعیب نے ہی پاکستان کو فتح دلوائی تھی لیکن جنوبی افریقہ میں صرف ایک میچ میں ناکامی کو بنیاد بناکر انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ اب وہ دورۂ ویسٹ انڈیز اور زمبابوے سے محروم رہنے کے بعد ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں واپس آ رہے ہیں۔

رزاق اور ملک کی واپسی کے ساتھ سلیکشن کمیٹی نے حارث سہیل اور انور علی جیسے نوجوانوں کو ڈراپ کردیا ہے، جو صلاحیت اور تجربے کے اعتبار سے کسی طور پر بھی ان دونوں کھلاڑیوں کے ہم پلہ تو نہیں لیکن ان کھلاڑیوں کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا باقاعدہ حصہ بنایا جانا چاہیے تھا لیکن انہیں مزید مواقع دے کر ان کی صلاحیتوں و نکھارنے کے بجائے انہیں باہر کا دروازہ دکھا دیا گیا ہے۔

ایک سال پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ناکامی کے بعد ہی نئے کھلاڑیوں پر بھروسہ کیا گیا تھا لیکن اب دوبارہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے قریب آتے ہی ٹیم کے دروازے سینئر کھلاڑیوں کے لیے کھل رہے ہیں، اور نوجوان کھلاڑی حسرت سے یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں۔

اگر ان تجربہ کار کھلاڑیوں کی واپسی کا ثمر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء میں مل گیا تو نوجوان کھلاڑیوں کو اپنے چانس کا مزید انتظار کرنا ہوگا لیکن اگر ٹائٹل 'گرین شرٹس' کو نہ مل سکا تو اس عالمی ٹورنامنٹ کے بعد ایک مرتبہ پھر کئی نوجوان کھلاڑیوں کو دوبارہ ٹیم میں شامل کرلیا جائے گا جیسا 2012ء کی شکست کے بعد احمد شہزاد کی واپسی ہوئی تھی۔