[باؤنسرز] 260 کا ماؤنٹ ایورسٹ !

1 1,041

چھ اوورز میں 43 رنز کا آغاز معمولی نہ تھا کہ 50 پر پہلی وکٹ گرنے کے بعد پوری ٹیم 191پر ڈھیر ہوجاتی مگر پاکستانی بیٹسمینوں نے ایک مرتبہ پھر سخت مایوس کیا اور رات گئے 68رنز کی شکست لاکھوں پاکستانی شائقین کرکٹ کا منہ چڑا رہی تھی۔بیٹسمینوں کی اس ناکامی کو غیر ذمہ داری کا نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ پروٹیز باؤلرز کے سامنے وہ بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دیے جو ڈیل اسٹین کے خوف میں بھی مبتلا تھے اور ان کے سر پر عمران طاہر کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا۔ یوں 260رنز کا ہدف پاکستانی ٹیم کیلئے ماؤنٹ ایورسٹ بن گیا جسے گرین شرٹس پچھلے 33 ماہ میں ایک مرتبہ بھی سَر نہیں کرسکی۔

پاکستان پچھلے 33 مہینوں سے 250 رنز سے زیادہ کا ہدف عبور نہیں کرپایا (تصویر: AFP)
پاکستان پچھلے 33 مہینوں سے 250 رنز سے زیادہ کا ہدف عبور نہیں کرپایا (تصویر: AFP)

ابوظہبی میں کھیلے گئے تیسرے ون ڈے میں پاکستانی ٹیم کی ناکامی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست ٹیم سلیکشن ہے۔ ٹیم مینجمنٹ نے دو میچز میں ناکام رہنے والے ناصر جمشید کو باہر بٹھا کر اوپننگ جوڑی ایک مرتبہ پھر تبدیل کردی لیکن پہلے دومیچز میں وہاب ریاض کی کارکردگی کپتان اور کوچ کو دکھائی نہ دی جس کی بیٹنگ کی اضافی صلاحیت کے باعث جنید خان جیسے فاسٹ باؤلر کو مسلسل باہر بٹھایا جارہا ہے۔ جنید رواں سال پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 31وکٹیں لینے والا فاسٹ بالر تھا جسے رواں سیریز میں محمد عرفان نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اوپننگ کمبی نیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے بعد عمر امین کو ون ڈاؤن جیسی پوزیشن پر جھونک دینا بھی عقلمندی نہیں تھی جسے ابھی تک مستقل بیٹنگ پوزیشن نہیں مل سکی۔سیریز کا پہلا ون ڈے ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم جس عزم کے ساتھ دوسرے ون ڈے میں میدان میں اتری تھی ،تیسرے میچ میں اس عزم اور ولولے کا بھی فقدان دکھائی دیا بلکہ یوں محسوس ہوا کہ ہاشم آملہ اور ڈیل اسٹین کی واپسی کے بعد پاکستانی ٹیم نے میچ سے پہلے ہی شکست قبول کرلی تھی جبکہ پروٹیز سائیڈ ہر قیمت پر جیتنے کے عزم کے ساتھ میدان میں آئی جس کیلئے بیٹنگ لائن کی ناکامی درد سر بنی ہوئی تھی مگر اس میچ میں پروٹیز نے اس خامی پر قابو پاکر اگلے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کردیا جس کیلئے اب آخری دونوں میچز جیت کر سیریز اپنے نام کرنا قطعی آسان نہ ہوگا۔

ٹاس ہارنے کے بعد محمد عرفان نے ہاشم آملہ کو پانچویں اوور میں آؤٹ کرکے ایک بڑا خطرہ ٹال دیا تھا جبکہ گریم اسمتھ انجری کے باعث ٹیم میں موجود ہی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود کوئنٹن ڈی کوک، دوپلیسی، دومنی اور ملر جیسے نوجوان کھلاڑیوں نے اپنی عمدہ بیٹنگ سے جنوبی افریقہ کو 259رنز کا مجموعہ دلوادیا جو وکٹ کے لحاظ سے اچھا ٹوٹل ضرور تھا لیکن ایسا بھی نہیں کہ جسے حاصل نہ کیا جاسکے۔

ہاشم آملہ کی صورت میں پہلی وکٹ گرنے کے بعد اگلے پندرہ اوورز تک پاکستانی باؤلرز جنوبی افریقہ کے نوجوان بیٹسمینوں میں سے کسی ایک کو بھی آؤٹ نہ کرسکے۔پہلے دونوں میچز میں شاہد آفریدی نے پاکستان کو اہم بریک تھرو دلوائے ہیں لیکن اس کے باوجود مصباح نے آفریدی کو اٹھارہویں اوور میں طلب کرکے غلطی کی۔ پھر جب آفریدی کو بلایا گیا تو انہوں نے اپنے دوسرے اور تیسرے اوورز میں پاکستان کو کامیابیاں دلوائیں۔ 23ویں سے 38ویں اوور تک پروٹیز بیٹسمینوں نے ایک اور شراکت قائم کی ۔ان پندرہ اوورز میں شاہد آفریدی سے پانچ اوورز کروائے گئے جبکہ محمد عرفان نے چار اوورز کروائے لیکن 16ویں اوور میں چار اوورز کے اسپیل کے ساتھ بالنگ سے دور ہونے والے سعید اجمل کو 20 اوورز گزرنے کے بعد 37ویں اوور میں طلب کیا گیا ۔جن پندرہ اوورز میں پاکستانی بالرز کو کوئی وکٹ نہیں ملی ان اوورز میں مصباح الحق کو سعید اجمل سے بھی باؤلنگ کرواکر بریک تھرو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ محمد حفیظ بالنگ میں بالکل 'آف کلر' دکھائی دیے جبکہ وہاب ریاض کو غیر معیاری کارکردگی کے باوجود مسلسل کیوں کھلایا جارہا ہے اس کا جواب شاید مصباح الحق بھی نہ دے سکیں۔

باؤلنگ میں کی جانے والی غلطیوں کے باوجود یہ ہدف ناقابل حصول نہیں تھا اور پھر پاکستان کو اچھا آغاز بھی مل گیا تھا لیکن ساتویں اوور میں جیسے ہی ڈیل اسٹین کی آمد ہوئی تو پاکستانی اوپنرز مشکلات کا شکار دکھائی دینے لگے۔احمد شہزاد کا اسٹروک پلے لاجواب تھا مگر ڈیل اسٹین کے سامنے احمد شہزاد قدموں کا استعمال کیے بغیر سلپ میں کیچ ہوگئےجن کے پیچھے محمد حفیظ بھی پویلین واپس آگئے۔ نمبر تین پر کھیلنے والے عمر امین نے عمران طاہر کو دو چوکے رسید کیے لیکن فاسٹ باؤلرز کے خلاف مشکلات کا شکار کبھا بیٹسمین جلد ہی پویلین سدھار گیا جس کے بعد عمران طاہر کا جادو شروع ہوگیا جس نے پہلے مصباح الحق کو گگلی پر ایل بی ڈبلیو کیا اور پھر عمر اکمل کو محض ایک فل ٹاس پر کیچ اینڈ بولڈ کردیا ۔اسد شفیق بھی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے اور شاہد آفریدی بھی چند گیندوں کے مہمان ثابت ہوئے۔ وہاب ریاض نے چھ اووررز میں دیے گئے چالیس رنز کو اپنے بیٹ سے پورا کرنے کی کوشش ضرورکی جن کا ساتھ سہیل تنویر نے آٹھویں وکٹ پر 61رنز کی شراکت قائم کرکے دیا لیکن اس کے باوجود پاکستانی ٹیم شکست سے نہ بچ سکی۔

مصباح الحق نے اس سیریز میں اب تک نصف سنچری اسکور نہیں کی اور تینوں میچز میں پاکستان کی بیٹنگ لائن مشکلات سے دوچار رہی ہے اور مڈل آرڈر میں کھیلنے والا کوئی بھی بیٹسمین نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ اگر مصباح الحق لمبے رنز کردیں تو ان کے ساتھ کھڑا کوئی نوجوان بیٹسمین بھی اچھی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے لیکن مصباح کے جاتے ہی مڈل آرڈر میں کھیلنے والے نوجوان 'سپوتوں' کو کپتان کے پاس جانے کی جلدی پڑ جاتی ہے۔

رواں سال سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمینوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر موجود مصباح الحق ہر میچ میں رنز نہیں بنا سکتا اس لیے دیگر بیٹسمینوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور ٹیم کے سب سے باصلاحیت بیٹسمین کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ بالر کی جانب 'لالی پوپ' کیچ اچھال کر ٹیم کی کوئی مدد نہیں کررہا ہے۔جو لوگ عمران طاہر کو اوسط درجے کا بالر قرار دے رہے تھے انہیں بھی اپنے لب سی لینے چاہیے کیونکہ جنوبی افریقہ کا 'لاہوری' لیگ اسپنر پہلے میچ میں تین اور دوسرے میں چار وکٹیں لے کر پاکستانی ٹیم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا چکا ہے۔

سیریز میں دو ایک کے خسارے میں جانے کے بعد پاکستانی ٹیم کیلئے آخری دونوں میچز جیتنا اب بہت ہی مشکل ہوچکا ہے ۔چوتھے میچ سے قبل کھلاڑیوں کو مصباح الحق کے ایک اور 'لیکچر' کی اشد ضرورت ہے جس میں ڈیو واٹمور مودب انداز میں کھڑا رہے لیکن کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی کپتان کو درست ٹیم کمبی نیشن بھی میدان میں اتارنا ہوگا تاکہ پاکستانی ٹیم بھی ڈھائی سو پلس کا مجموعہ اسکور بورڈ پر سجا سکے اور دوسری بیٹنگ کرتے ہوئے یہ رنز کا یہ ماؤنٹ ایورسٹ سر بھی کرسکے کیونکہ جنوبی افریقہ کی بیٹنگ اب چل پڑی ہے جو اگلے دونوں میچز میں کم اسکور پر اکتفا نہیں کرے گی۔