واٹمورکے بعد...’’واٹ نیکسٹ‘‘؟؟

1 1,025

آج شام کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے پریس ریلیز کے ذریعے میڈیا کو آگاہ کردیا کہ قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ ڈیو واٹمور گھریلو اور نجی مصروفیت کے باعث پاکستانی ٹیم کے ساتھ اپنے معاہدے کی تجدید نہیں چاہتے، اس لیے اگلے برس 28فروری کو وہ اپنا دو سالہ معاہدہ پورا کرنے کے بعد آسٹریلیا روانہ ہو جائیں گے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ بھی واٹمور کے ساتھ معاہدے کی تجدید نہیں کرنا چاہتا اس لیے اگلے برس ورلڈ ٹی20سے چند دن قبل دونوں فریقین کی باہمی رضامندی کے ساتھ ایک اور غیر ملکی کوچ کا پاکستان کرکٹ کے ساتھ سفر اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ واٹمور کے بعد کون پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داریاں سنبھالے گا یعنی واٹمور کے بعد ’’واٹ نیکسٹ‘‘؟؟

ورلڈ ٹی 20 جیسے اہم ٹورنامنٹ سے صرف چند دن قبل رخصتی نئے کوچ کے لیے مسائل کھڑے کردے گی (تصویر: AFP)
ورلڈ ٹی 20 جیسے اہم ٹورنامنٹ سے صرف چند دن قبل رخصتی نئے کوچ کے لیے مسائل کھڑے کردے گی (تصویر: AFP)

ڈیو واٹمور کا پاکستان کرکٹ بورڈ سے معاہدہ ورلڈ ٹی 20 جیسے اہم ترین ایونٹ سے صرف دو ہفتے قبل ختم ہوگا اس لیے نئے کوچ کی پہلی اسائنمنٹ میگا ایونٹ ہی ہوگا، جس میں یقینی طور پر نئے کوچ کو اپنے آئیڈیے آزمانے کا موقع میسر نہیں آئے گا اور اگر پاکستانی ٹیم ورلڈ ٹی20 میں زیادہ بہتر کارکردگی نہ دکھا سکی تو نیا کوچ یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجائے گا کہ اسے ٹیم کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہیں مل سکا اور پاکستانی شائقین کو ورلڈ کپ 2015ء کے ’’ٹرک کی بتی‘‘ کے پیچھے لگا دیا جائے گا۔

پی سی بی جس طرح دیگر ملازمین کے ساتھ سالانہ بنیادوں پر معاہدے کرتا ہے، بالکل اسی طرح کوچ کا تقرر بھی ایک یا دو سالہ معاہدے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور معاہدہ ختم ہونے پر یہ دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی کہ اگلے چند دن بعد کون سی سیریز یا ٹورنامنٹ کھیلا جانا ہے۔واٹمور کیساتھ پی سی بی نے مارچ 2012ء میں دو سالہ معاہدہ کیا تھا، جسے فروری 2014ء میں 24 ماہ پورے ہونے پر ختم کردیا جائے گا۔

ورلڈ ٹی 20 سے چند دن قبل کوچ کی تبدیلی ٹیم کی کارکردگی پرکتنا منفی اثر ڈالے گی اس بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا۔ڈیو واٹمور کیساتھ معاہدہ کرتے ہوئے اس کے اختتام کی مدت ورلڈ ٹی20کو رکھنا چاہیے تھا کہ تاکہ نیا کوچ اہم ٹورنامنٹ کے بعد ذمہ داریاں سنبھالتا جسے اگلے معرکوں کے لیے مناسب وقت ملتا۔ اب کوچ کی تبدیلی کے درمیان ورلڈٹی 20 ایونٹ رگڑا جائے گا جس میں ملنے والے نتائج کی ذمہ داری کسی پر بھی نہ ڈالی جاسکے گی۔

واٹمور جیسے ہائی پروفائل کوچ کو جس مقصد کے لیے لایا گیا تھا وہ مقصد بھی پورا نہیں ہوسکا یعنی عالمی شہرت یافتہ کوچ پاکستانی ٹیم کو نہ جیت کی راہ پر ڈال سکا اور نہ اس نے ذہنی طور پر گرین شرٹس کو مضبوط کیا بلکہ غیر ملکی کوچ پاکستان میں دوسالہ ’’ہنی مون پیریڈ‘‘ گزار کر نئی ملازمت کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ہے۔واٹمور کی کوچنگ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بہتر نہیں رہی لیکن اس کے باوجود پی سی بی واٹمور کومعاہدہ پورا کرنے کا موقع دے رہا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی مزید خراب ہوسکتی ہے۔ ماضی میں تبدیلی کا عمل جلدی پورا کرنے کے لیے جیف لاسن کو بقیہ ’’تنخواہیں‘‘ یکمشت ادا کرکے معاہدہ ختم ہونے سے پہلے فارغ کردیا گیا تھا۔ یہ عمل اب بھی دہرایا جاسکتاتھا تاکہ سری لنکا کی سیریز سے قبل نیا کوچ ذمہ داریاں سنبھال لیتا جسے ورلڈ ٹی 20 کی تیاریوں کا پورا موقع ملتا ۔

ڈیو واٹمور کی رخصتی کا باقاعدہ اعلان ہونے سے قبل نئے کوچ کے حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں بھی سنائی دے رہی تھیں۔پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ سیریز میں کمنٹری کے فرائض انجام دینے والے وقار یونس کوچ کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار تصور کیے جارہے ہیں، جو ماضی میں بیماری کا بہانہ بنا کر گرین شرٹس کی کوچنگ سے منہ موڑ چکے ہیں لیکن ایک مرتبہ پھر وہ ورلڈ کپ سے پہلے واپسی کے لیے پرتول رہے ہیں ۔سابق کپتان راشد لطیف نے اپنے پرانے ساتھی وقار یونس کو کوچنگ کے حوالے سے مسترد کردیا ہے کہ جن کا ماننا ہے کہ وقار یونس بڑے کھلاڑی ضرورتھے لیکن ان کی کوچنگ میں قومی ٹیم کی کارکردگی مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے جو پہلے بھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔

سابق کپتان محمد یوسف اپنے ’’گرو‘‘ انضمام الحق کو پاکستانی ٹیم کے مسائل کا حل قرار دیتے ہیں کہ سابق عظیم بیٹسمین کو کوچ کا عہدہ ملتے ہی بیٹنگ کے مسائل چٹکی بجاتے ہی حل ہوجائیں گے اور ممکن ہے کہ انضمام کی موجودگی سے یوسف کو بھی واپسی کا راستہ مل جائے جس کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔ پاکستانی ٹیم کے نئے ’’باس‘‘معین خان بھی کوچ کی دوڑ میں شامل بلکہ مضبوط ترین امیدوار ہیں کیونکہ پی سی بی کے موجودہ سربراہ سابق وکٹ کیپر کو کسی نہ کسی طرح ٹیم کے ساتھ منسلک رکھنا چاہتے ہیں اس لیے ہیڈ کوچ کا عہدہ معین خان کے لیے آئیڈیل ہوگا۔

غیر ملکی کوچز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ٹیم کی سیاست کا حصہ نہیں بنتے یہ الگ بات ہے کہ وہ کپتان کی رائے سے اختلاف بھی نہیں کرتے لیکن پاکستانی کوچ کے آنے سے یقینی طور پر ہمدردیوں کے دروازے بھی کھل جائیں گے ،ایک شہر کے کھلاڑیوں کو میرٹ کے بغیر ٹیم میں جگہ ملنا بھی شروع ہوجائے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ماضی میں ایک ساتھ کھیلے ہوئے کوچ اور کھلاڑیوںکے درمیان انا کی جنگ کا بھی آغاز ہوجائے گا جس میں طاقتور فریق دوسرے سے ’’پرانا حساب‘‘ برابر کرنے میں دیر نہیں لگائے گا اس لیے واٹمور کے جانے سے مسائل کم نہیں ہونگے بلکہ ان میں اضافے کا امکان ہے اس لیے پی سی بی کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ واٹمور کے بعد ’’واٹ نیکسٹ‘‘ ؟؟