سچن تنڈولکر: دنیا کا 29 واں بہترین بلے باز؟

10 1,020

بھارت کے عظیم بلے باز سچن تنذولکر اپنے کیریئر کا اختتام کر چکے۔ اس حوالے سے بھارت میں تو وہ موضوع سخن ہیں ہی لیکن ان ممالک میں بھی خبروں کا مرکز بنے ہوئے ہیں جہاں ان کے 'پجاری' موجود نہیں ہیں۔ ہاں! یہ الگ بات کہ ان کا یہ ذکر کچھ اچھے معنوں میں نہیں ہو رہا جیسا کہ برطانیہ کے نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک مضمون میں کیا ہے. بین کارٹر کے لکھے گئے اس مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ 'سچن فوبیا' کے دن انہیں پسند نہیں آ رہے۔ اس کا ترجمہ ہم یہاں قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں، ملاحظہ کیجیے:

سچن تنڈولکر اپنے آبائی شہر ممبئی میں اس کیریئر کے اختتامی لمحات گزار رہے ہیں، جس نے انہیں ہندوستان میں بھگوان کی حیثیت دے رکھی ہے۔ لیکن کرکٹ تاریخ کے دیگر بہترین کھلاڑیوں کے مقابلے میں سچن کے بیٹنگ اعدادوشمار کتنے اچھے ہيں؟ یہ دیکھنا پڑے گا۔ اگر ہم مجموعی رنز کو دیکھیں تو یہ مضمون بہت ہی مختصر ہو جائے گا کیونکہ جمعرات کو آخری ٹیسٹ کی پہلی اننگز کے اختتام تک سچن رمیش تنڈولکر 15 ہزار 921 رنز جمع کر چکے ہیں، اپنے قریبی ترین حریف کے مقابلے میں بھی تقریباً ڈھائی ہزار زیادہ رنز ہیں۔

"جب سچن بیٹنگ کر رہا ہو توجو گناہ کرنا ہے کرلو۔ اس کو کوئی نہیں دیکھے گا، کیونکہ اس وقت بھگوان بھی سچن کو دیکھتا ہے۔"
"جب سچن بیٹنگ کر رہا ہو توجو گناہ کرنا ہے کرلو۔ اس کو کوئی نہیں دیکھے گا، کیونکہ اس وقت بھگوان بھی سچن کو دیکھتا ہے۔"

چلیے چار ایسے کھلاڑیوں کے ساتھ سچن کا تقابل کرتے ہیں، جن کے نام ہر اس گفتگو کا لازمی حصہ ہوں گے جہاں گزشتہ 20 سالوں کے بہترین بلے بازوں کا ذکر ہوگا۔ آسٹریلیا کے رکی پونٹنگ، جنوبی افریقہ کے ژاک کیلس، ویسٹ انڈیز کے برائن لارا اور سری لنکاکے کمار سنگاکارا۔

رکی پونٹنگ کے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 13 ہزار 378 رنز بنائے جبکہ لارا 12 ہزار رنز سے کچھ فاصلے پر رہ گئے۔ کیلس اور سنگاکارا اب بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں اور بالترتیب 13 ہزار 140 اور 10 ہزار 486 رنز پر کھڑے ہیں۔ مجموعی رنز کے اعتبار سے تنڈولکر ان سب پر غالب ہیں، لیکن انہوں نے مقابلے بھی ان سب سے زیادہ کھیلے ہیں۔

سچن کا آخری ٹیسٹ ان کے کیریئر کا 200 واں ٹیسٹ مقابلہ ہے۔ یہ پونٹنگ سے 32 اور لارا سے 68 زیادہ ٹیسٹ میچز ہیں۔ کیلس 36 اور سنگاکارا تو پورے 83 ٹیسٹ پیچھے ہیں۔

تو ان کھلاڑیوں کے آپسی تقابل کا بہترین طریقہ کون سا ہو سکتا ہے؟ اوسط؟

درحقیقت اوسط کا پیمانہ ان کھلاڑیوں کو بھی دائرے میں لے آتا ہے جو دہائیاں پہلے کرکٹ کھیلتے تھے کیونکہ پہلے زمانے میں کھلاڑیوں کو بہت کم مقابلے کھیلنے کو ملتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جن کھلاڑیوں کا کیریئر 1950ء سے پہلے ختم ہوا ان میں سے ایک بھی سب سے زیادہ رنز بنانے والوں کی فہرست میں 35 ویں نمبر پر بھی موجود نہیں۔

لیکن ۔۔۔ جب آپ اوسط پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں بادشاہی دکھائی دیتی ہے آسٹریلیا کے سر ڈونلڈ بریڈمین کی، جنہوں نے 1928ء سے 1948ء کے درمیان 20 سال تک کرکٹ کھیلی۔ اور اپنے کیریئر کا اختتام 99.94 کےشاندار اوسط کے ساتھ کیا اور دنیا کا کوئی بھی بلے باز اس معاملے میں دور دور تک ان کا ثانی نہیں۔

اگر کم از کم 20 ٹیسٹ مقابلے کھیلنے کو معیار مانا جائے تو سب سے زیادہ اوسط رکھنے والوں کی فہرست میں سچن 53.78 کے اوسط کے ساتھ 17 ویں نمبر پر ہیں۔ گو کہ یہاں بھی وہ پونٹنگ اور لارا سے تھوڑا سا آگے ہیں (جو 24 ویں اور 18 ویں نمبر پر ہیں) البتہ 55.44 کا اوسط رکھنے والے کیلس اور 56.98 کے حامل سنگاکارا سے پھر بھی پیچھے ہیں جو اس فہرست میں بالترتیب 14 ویں اور 10 ویں نمبر پر براجمان ہیں۔

سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے پانچ کھلاڑی
سچن پونٹنگ کیلس لارا سنگاکارا
ٹیسٹ مقابلے 200 168 164 131 117
رنز 15,921 13,378 13,140 11,953 10,486
اوسط 51.85 51.85 55.44 52.14 56.98
سنچریاں 51 41 44 34 33
ایک روزہ مقابلے 463 375 321 299 356
رنز 18,426 13,704 11,498 10,405 11,932
اوسط 44.83 42.03 45.26 40.48 40.31
سنچریاں 49 30 17 19 16

کئی عظیم بلے بازوں کی طرح ڈھلتے ہوئے ایام میں سچن کا اوسط بھی گرا۔ اس لیے کسی کھلاڑی کی عظمت کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اپنے عروج کے ایام میں اس کی کارکردگی کیسی تھی؟

بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی کھلاڑیوں کی درجہ بندی آپ کو سہولت دیتی ہے کہ ماضی میں کسی کھلاڑی کے عالمی درجہ بندی میں بہترین مقام کو دیکھ سکیں۔ آئی سی سی نے 2002ء میں تنڈولکر کو سب سے زیادہ درجہ دیا، جب انہیں زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ میچ کے بعد 898 کا "اسکور" ملا۔ لیکن یہ فہرست میں 29 واں سب سے بہتر درجہ ہے۔
بریڈمین، ایک مرتبہ پھر، 961 کے ساتھ سب سے آگے ہیں جنہیں 1948ء میں اپنے کیریئر کے اختتامی ایام میں بھارت کے خلاف ایک ٹیسٹ کے بعد یہ درجہ ملا۔ اور پونٹنگ، سنگاکارا، کیلس اور لارا سب نے 900 سے زیادہ کی ریٹنگ حاصل کی ہے – ایک ایسا مقام جس کے بارے میں خود آئی سی سی کہتا ہے کہ "یہ غیر معمولی اور عالمی معیار کی کارکردگی کی علامت ہے۔" لیکن سچن کبھی 900 ریٹنگ پوائنٹس کے ہندسے کو نہ چھو سکے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہیں کہ اپنے عروج کے ایام میں بھی تنڈولکر دوسرے بلے بازوں کے مقابلے میں اتنے متاثر کن نہیں تھے۔

البتہ سچن نے اپنے کیریئر کے دوران پانچ مرتبہ عالمی درجہ بندی میں سرفہرست مقام حاصل کیا ہے۔ وہ پہلی بار 1994ء میں اور آخری مرتبہ 2010ء میں دنیا کے نمبر ایک بلے باز بنے یعنی کہ یہ 16 سال کا عرصہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے ایک طویل عرصے تک کس تسلسل کے ساتھ کارکردگی دکھائی ہے۔

لیکن بلے بازوں کے کیریئر کو جانچنے کے لیے دیگر بھی کئی پیمانے ہیں۔ کرکٹ کے کئی باریک بیں محقق اعدادوشمار سے ہٹ کر دیگر پہلوؤں کو بھی اہمیت دیتے ہیں جیسا کہ کوئی بڑی باری کھیلتے ہوئے مہارت، انداز اور جراتمندی و ہمت۔ کتاب "ماسٹرلی بیٹنگ: 100 گریٹ ٹیسٹ سنچریز" کے مصنف پیٹرک فیریڈے اور ڈیو ولسن نے مختلف معیارات کو بنیاد بناتے ہوئے ٹیسٹ کرکٹ کی بہترین اننگز کی ایک فہرست تخلیق کی ہے جنہیں رنز کی تعداد، درپیش حالات، حریف باؤلنگ کی مضبوطی، ٹیم کے کل رنز میں حصہ داری، مواقع ملنے، اننگز کی رفتار اور سیریز اور میچ پر پڑنے والے اثرات شامل ہیں، جنہیں یہ مصنفین 'غیر محسوس' پیمانے قرار دیتے ہیں۔

تنڈولکر اس پوری فہرست میں صرف ایک بار موجود ہیں، وہ بھی 100 ویں نمبر پر، 1998ء میں چنئی میں آسٹریلیا کے خلاف 155 رنز کی باری کھیلنے پر۔

ٹیسٹ کیريئر میں 51 سنچریاں بنانے والے تنڈولکر کے لیے تو یہ بہت معیوب بات ہوگی کیونکہ فیریڈے اور ولسن کی ٹاپ 100 میں برائن لارا 5 مرتبہ موجود ہیں، جن میں سے ان کی تین سنچریاں تو سرفہرست 20 میں شامل ہیں۔

فیریڈے نے کہا کہ "تنڈولکر کی ساکھ ان کی کیریئر کی طوالت اور تسلسل کے ساتھ کارکردگی کے علاوہ اس بات پر ہےکہ انہوں نے اپنا پورا کیریئر اس دباؤ میں کھیلا ہے کہ وہ ہندوستان کی ایسی شخصیت ہیں، جس کی پوجا کی جاتی ہے۔ "لیکن میرا نہیں خیال کہ انہوں نے برائن لارا سے زیادہ شاندار اننگز کھیلی ہیں۔ لارا کی بیشتر سنچریاں وہ ہیں جن میں وہ اپنی ٹیم کو شکست کے دہانے سے کھینچ لائے یا فتح سے ہمکنار کیا۔ لیکن اس معاملے میں تنڈولکر اپنے ساتھی بلے بازوں کی کارکردگی تلے دبے ہوئے ہیں۔"

کھلاڑیوں کی کارکردگی جانچنے کا ایک اور پیمانہ 2010ء میں متعارف کیا گیا۔ 'امپیکٹ انڈیکس' کسی بھی کھلاڑی کا اسی میچ کے دوران دوسرے کھلاڑیوں کی کارکردگی سے تقابل کرتا ہے ۔

اس کے خالق جے دیپ ورما ایک کھلاڑی کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جن کے بارے میں ورما کا کہنا ہے کہ "گزشتہ 20 سالوں میں انہوں نے بھارت کی کامیابیوں میں بہترین حصہ ڈالا ہے"، اور وہ تنڈولکر نہیں ہیں ۔۔۔۔ وہ ہیں راہول ڈریوڈ!

ورما کہتے ہیں کہ "ڈریوڈ تنڈولکر (چھ) کے مقابلے میں سیریز کا فیصلہ کرنے والے زیادہ لمحات (آٹھ) رکھتے ہیں، وہ بھی کم میچز میں۔"

"عظیم کھلاڑی آگے بڑھ کر قیادت کرتے ہیں، وہ غلبہ اختیار کرتے ہیں، اور تنڈولکر نے اپنے پورے کیریئر میں بڑے مقابلوں میں ایسا نہيں کیا۔ ملک میں کرکٹ کی تاریخ بدلنے کے حوالے سے راہول ڈریوڈ ایک بہتر ٹیسٹ کھلاڑی ہیں ۔"

لیکن ایک ایسا غیر محسوس پہلو ضرور ہے جو تنڈولکر کے کیریئر کو دیگر تقریباً تمام کھلاڑیوں سے ممتاز کرتا ہے، وہ ہے توقعات کا دباؤ!

تنڈولکر 24 سالوں تک اربوں بھارتی تماشائیوں کی توقعات کا مرکز رہے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف ان حالات میں ڈٹے رہے بلکہ ان تماشائیوں کو مسرت کے لمحات بھی عطا کیے اور تمام اعدادوشمار سے بڑھ کر صرف یہ بات ان کی عظمت کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

ایک مرتبہ شین وارن نے کہا تھا کہ "میدان سے باہر لوگ انتظار کرتے ہیں کہ سچن اندر داخل ہوں تو ہم بھی جائیں۔ وہ اپنی ہی ٹیم کی وکٹ گرتے دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ سچن کھیلنے آئیں۔ یہ ہے وہ کرکٹ جو 16 سال کی عمر سے سچن کے سامنے ہے۔ وہ توقعات کے زبردست بوجھ تلے آگے بڑھے اور کبھی مایوس نہیں کیا۔"

جمعرات کو جب وہ اپنے ہوم گراؤنڈ ممبئی میں داخل ہوئے تو تماشائیوں نے سینکڑوں تصاویر اور بینروں کے ذریعے لٹل ماسٹر سے محبت کا اظہار کیا۔

لیکن ان میں سے کوئی بھی ہندوستانیوں کے رویے کا درست عکاس نہیں، سوائے اس سائن کے جو عالمی کپ 2011ء میں بھارت اور انگلستان کے درمیان بنگلور میں کھیلے گئے میچ کے دوران نظر آیا، جہاں سچن نے 120 رنز بنائے تھے۔ اس پر لکھا تھا:

"جب سچن بیٹنگ کر رہا ہو توجو گناہ کرنا ہے کرلو۔ اس کو کوئی نہیں دیکھے گا، کیونکہ اس وقت بھگوان بھی سچن کو دیکھتا ہے۔"