’’پروفیسر‘‘ کی ٹیم کا ریکارڈ بھی غرق !!

0 1,165

پاکستانی ٹیم پچھلے دو برسوں سے کوئی ٹی 20 سیریز نہیں ہاری تھی مگر جنوبی افریقہ کیخلاف مسلسل دو شکستوں نے ’’پروفیسر الیون‘‘ کا یہ ریکارڈ بھی غرق کردیا۔دونوں میچز میں پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ لائن ناکام ہوئی اور یہ ’’بیماری‘‘ ون ڈے سیریز سے چلی آرہی ہے جس کا خاتمہ کپتان کی تبدیلی کیساتھ ٹی20سیریز میں بھی نہیں ہوسکا ۔ ون ڈے سیریز میں شکستوں کا ملبہ تو کپتان پر ڈالا گیا کہ دفاعی مزاج رکھنے والا کپتان سیریز میں اپنے کھلاڑیوں کو متحرک نہ کرسکا جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کو شکست ہوئی لیکن ٹی20سیریز میں ناکامی پر یہ ’’الزام‘‘ محمد حفیظ پر نہیں لگایا گیا جو بطور کھلاڑی بھی اس سیریز میں پرفارم کرنے میں ناکام رہا ہے۔

دونوں میچز میں شکست میں میں عجیب و غریب فیصلوں نے ٹیم کو شکست کی جانب دھکیلا (تصویر: AFP)
دونوں میچز میں شکست میں میں عجیب و غریب فیصلوں نے ٹیم کو شکست کی جانب دھکیلا (تصویر: AFP)

پاکستان کی موجودہ ٹیم ٹی20 فارمیٹ کی بہترین ٹیم ہے جو اس سیریز سے پہلے آئی سی سی رینکنگز میں دوسرے نمبر پر موجود تھی اور جس ٹیم نے جنوبی افریقہ کیخلاف سیریز کھیلی شاید یہ پاکستان کی بہترین ٹی 20ٹیم بھی ہے، جس میں شعیب ملک اور عبدالرزاق کا تجربہ بھی شامل ہوگیا تھا مگر اس کے باوجود یہ ٹیم آسانی کیساتھ جنوبی افریقہ کے ہاتھوں دونوں میچز میں ہار گئی جن میں عجیب و غریب فیصلوں نے ٹیم کو شکست کی جانب دھکیلا ۔

پہلے میچ میں غیر ضروری طور پر صہیب مقصود کو اوپننگ پر بھیجا گیا جبکہ کپتان محمد حفیظ چوتھے نمبر پر کھیلنے کیلئے آئے اور شاہد آفریدی کو تیسرے نمبر پر بیٹنگ کیلئے بھیجا گیا جو کافی عرصے سے ٹاپ آرڈر میں نہیں کھیلے۔رزاق اور ملک کی ٹیم میں واپسی آل راؤنڈر کی حیثیت سے ہوئی لیکن ان دونوں تجربہ کار کھلاڑیوں کو باؤلنگ کے قابل نہیں سمجھا گیا حالانکہ 14 اوورز کے بعد 6 پاکستانی بالرز میں سے ایک بھی پاکستانی ٹیم کو دوسری کامیابی نہ دلواسکا ۔ دوسرے میچ میں صہیب مقصود کو اوپن سے اٹھا کر پانچویں نمبر پر ڈال دیا گیا جبکہ پہلے میچ میں باؤلنگ سے محروم رہنے والے رزاق سے بالنگ اوپن کروادی گئی اور جب عرفان ان فٹ ہوئے تو شعیب ملک کو بالنگ کیلئے طلب کرلیا گیا جسے پہلے میچ میں بالنگ نہیں ملی تھی۔

پہلے میچ میں پاکستانی ٹیم میں آل راؤنڈرز اور سینئر کھلاڑیوں کی بھرمار تھی جس کیلئے اسپیشلسٹ اوپنر ناصر جمشید کو باہر بٹھا دیا گیا۔ اسی طرح دوسرے میچ میں عبدالرحمٰن کو ہمیشہ کی طرح قربانی کا بکرا بنا کر ناصر جمشید کی واپسی کروائی گئی ۔دونوں میچز میں سینئر کھلاڑی ناکام رہے،شعیب ملک کیریبیئن لیگ میں اپنی بیٹنگ کی ہلکی سی جھلک بھی انٹرنیشنل کرکٹ میں نہ دکھا سکے ۔ عبدالرزاق بھی دونوں شعبوں میں ناکام رہے۔ ’’پروفیسر‘‘ کو دونوں میچز میں صفر کا تحفہ وصول کرنا پڑا جس میں سے ایک امپائر کی مرہون منت تھا۔شاہد آفریدی نے دوسرے میچ میں بیٹنگ کے دوران ذرا سی مہم جوئی دکھائی مگر باؤلنگ میں بری طرح پٹ گئے جنہیں دوسرے میچ میں چار اوورز کے دوران 43رنز کا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ٹی20 سیریز میں پاکستان کے تجربہ کار آل راؤنڈرز ’’ریلو کٹے‘‘ ہی دکھائی دیے ہیں جو کسی ایک شعبے میں بھی اپنی اہمیت نہیں منوا سکے مگر اس کے باوجود یہی کھلاڑی جنوبی افریقہ بھی جائیں گے اور چند ماہ بعد شاید ورلڈ ٹی20بھی کھیل جائیں کیونکہ پاکستان کرکٹ کے سسٹم نے ان کھلاڑیوں کا متبادل تیار نہیں کیا اس لیے ہمارے یہ سپر اسٹارزناکامیوں کے باوجود ہر دوسری سیریز میں کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور مجبوری کے عالم میں انہی کھلاڑیوں پر ہی بھروسہ کرنا ہوگا۔سابق کھلاڑی قومی ٹیم کے کپتانوں کا میڈیا ٹرائل کرنے کی بجائے ٹیم کی خامیوں کو درست کرنے کیلئے مثبت تجاویز دیں کیونکہ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر چکنے چپڑے انداز میں وہ کرکٹ بورڈ کو جس نئی ٹیم کا خواب دکھا رہے ہیں اس کی تعبیر بہت بھیانک ثابت ہوسکتی ہے۔

ٹی20سیریز کی شکست سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ شکستوں کا ذمہ دار اکیلا کپتان نہیں بلکہ پوری ٹیم ہوتی ہے کیونکہ بیٹنگ لائن مسلسل ناکامی سے دوچار ہورہی ہو اور سینئرکھلاڑیوں نے پرفارم نہ کرنے کی قسم کھائی ہو تو پھر چاہے کپتان مصباح ہو یا حفیظ شکستوں کو کامیابی میں نہیں بدلا نہیں جاسکتا ۔ٹی20سیریز میں ماہرین اور شائقین کو قومی ٹیم سے بہت امیدیں تھیں کہ وہ پروٹیز سے ون ڈے سیریز کا بدلہ ضرور لے گی کیونکہ یہ ٹیم ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی مگر ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ جب تک کھلاڑی ذمہ داری سے نہیں کھیلیں گے اس وقت تک ٹیم نہیں جیت سکتی چاہے کپتان کوئی بھی ہو اور یہ بات ٹی20سیریز کی ناکامی سے ثابت ہوگئی ہے ۔