[آج کا دن] پاکستان کی بھارت کے خلاف پہلی ٹیسٹ سیریز جیت

0 1,070

سچن تنڈولکر اور انضمام الحق کے درمیان سب سے بڑا فرق کیا ہے؟ جی ہاں، فتح گر سنچریوں کا تناسب۔ سچن تنڈولکر کے ٹیسٹ کیریئر کی 51 میں سے 31 سنچریاں ایسی تھیں جو بھارت کو فتح سے ہمکنار نہ کرسکیں بلکہ 11 میں تو ہندوستان کو شکست کا سامنا تک کرنا پڑا جبکہ اس کے مقابلے میں انضمام الحق کی 25 میں سے 17 ٹیسٹ سنچریاں پاکستان کی فتوحات کا حصہ بنیں اور صرف 2 مقابلے ایسے تھے جہاں ان کی سنچری کے باوجود پاکستان کو شکست ہوئی ہو۔ کچھ یہی کہانی جاوید میانداد اور سنیل گاوسکر کی بھی رہی۔ گاوسکر کی 34 میں سے صرف 6 سنچریاں ہی ایسی تھیں، جن کے نتیجے میں بھارت کو فتح نصیب ہوئی جبکہ جاوید کی 23 میں سے 10 سنچریاں پاکستان کی فتوحات کی ضامن بنیں۔

ایک ٹیسٹ نے اس "میانداد-گاوسکر نظریے" کی تصدیق بھی کی، بھارت کے دورۂ پاکستان 1978ء کا تیسرا و آخری ٹیسٹ جو نومبر کے انہی ایام میں کراچی میں کھیلا گیا۔ اس مقابلے میں میانداد کی ایک سنچری گاوسکر کی دونوں اننگز میں بنائی گئی سنچریوں پر بھاری پڑ گئی اور آج ہی کے دن یعنی 19 نومبر کو پاکستان نے زبردست مقابلے کے بعد 8 وکٹوں سے مقابلہ جیت کر سیریز دو-صفر سے جیت لی۔ میچ کا سب سے دلچسپ دن یہی تھا، جب پاکستان کو صرف 26 اوورز میں 164 رنز کا ہدف ملا اور اننگز کے 25 ویں اوور میں عمران خان نے بشن سنگھ بیدی کو ایک ہی اوور میں دو چھکے اور ایک چوکا لگا کر مقابلے کا اختتام کردیا۔

یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ پاکستان نے بھارت کے خلاف کوئی ٹیسٹ سیریز جیتی ہو اور اس فتح میں سب سے اہم کردار پاکستان کے باؤلرز خصوصاً سرفراز نواز اور عمران خان کا تھا۔

گو کہ 8 وکٹوں سے میچ جیتنے کا نتیجہ آسان سا دکھائی دیتا ہے لیکن پاکستان کے کئی کیچز ضایع کرنے اور مشتاق محمد کے چند کمزور قائدانہ فیصلوں کی وجہ سے مقابلہ تقریباً پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن ایک مشکل ہدف کا تعاقب پاکستان نے جس سرعت کے ساتھ کیا، ایساآجکل کے ٹوئنٹی عہد میں بھی نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی ٹیم 25 اوورز میں 164 رنز کا ہدف حاصل کرلے، وہ بھی ایک ایسی وکٹ پر جو پانچویں دن کے آخری سیشن تک پہنچ چکی ہو اور بلے بازوں کے لیے اتنی سازگار نہ ہو۔

بہرحال، سیریز میں 1-0 کے خسارے کا سامنا کرنے والے بھارت نے پہلی اننگز میں سنیل گاوسکر کی 111 رنز کی باری اور آٹھویں وکٹ پر کپل دیو اور کرسن گھوری کی 84 رنز کی شراکت داری کی بدولت 344 رنز کا مجموعہ اکٹھا کیا البتہ تینوں کے علاوہ باقی بلے بازوں پر پاکستانی باؤلرز نے اپنی بھرپور دھاک بٹھائی، جنہوں نے بھارت کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ کے دیگر مہروں کو زیادہ دیر ٹکنے نہ دیا۔ گنڈاپا وشوناتھ صفر، دلیپ وینگسارکر 11 اور مہندر امرناتھ 14 رنز بنا کر میدان سے لوٹے۔ پاکستان کی جانب سے سرفراز نواز نے 4، عمران خان نے 3، سکندر بخت نے 2 اور اقبال قاسم نے 1 وکٹ حاصل کی۔

پاکستان کو پہلی اننگز میں اوپنرز ماجد خان اور مدثر نذر نے 84 رنز کی افتتاحی شراکت داری فراہم کی جس کے بعد میانداد نے 8 چوکوں اور ایک چھکے سے مزین شاندار سنچری داغی۔ 187 رنز پر 5 وکٹیں گرجانے کے بعد یہ میانداد اور کپتان مشتاق محمد کی چھٹی وکٹ پر 154 رنز کی رفاقت تھی جو پاکستان کو زبردست انداز میں میچ میں واپس لائی۔

پاکستان نے اپنی پہلی اننگز 481 رنز 9 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کی اور بھارت کو ایک مرتبہ پھر بلے بازی کے لیے میدان میں اترنا پڑا۔ یہ کھیل کا چوتھا دن تھا اور گاوسکر اپنی بہترین فارم میں تھے۔ گاوسکر نے ایک مرتبہ پھر تہرے ہندسے کی اننگز کھیل ڈالی اور 240 گیندوں پر 20 چوکوں کی مدد سے 137 شاندار رنز بنائے لیکن دوسرے اینڈ سے انہیں کوئی خاص مدد نہ مل سکی۔ مہندر امرناتھ نے نصف سنچری ضرور بنائی لیکن چیتن چوہان صفر، سید کرمانی 4، گنڈاپا وشوناتھ 1، سریندر امرناتھ 14 اور دلیپ وینگسارکر کے 1 رنز پر آؤٹ ہوجانے سے بھارت شکست کے دہانے پر پہنچ گیا۔ جب وینگسارکر آؤٹ ہوئے تو اس وقت بھارت کا اسکور محض 173 رنز تھا یعنی صرف 36 رنز کی برتری حاصل تھی۔

اس موقع پر گاوسکر اور گھوری کی ساتويں وکٹ پر 73 رنز اور پھر گھوری اور کپل دیو کی آٹھویں وکٹ پر 51 رنز کی شراکت داری نے بھارت کو سکھ کا سانس فراہم کیا اور جب پوری ٹیم 300 رنز پر آل آؤٹ ہوئی تو بھارت پرسکون اور پاکستان نسبتاً پریشا ن تھا۔ اسے سیریزمیں 1-0 کی فیصلہ کن برتری بھی حاصل تھی اور مقابلہ ڈرا کرکے سیریز جیت بھی سکتا تھا، لیکن اس وقت پاکستان جیت کے لیے کھیلتا تھا۔ ٹیم میں جارحانہ مزاج پایا جاتا تھا اور پاکستان نے26 اوورز میں 164 رنز کے بھاری ہدف کے تعاقب کا فیصلہ کیا۔

ابتداء ہی میں ماجد خان کو کھو بیٹھنے کے بعد یہ جاوید میانداد اور آصف اقبال کے درمیان 97 رنز کی بہترین ساجھے داری تھی جس نے پاکستان کو امید کی کرن دکھائی۔ ان دونوں کھلاڑیوں نے صرف 9 اوورز میں یہ 97 رنز جوڑے تھے۔ تصور کیجیے 1978ء میں کوئی ٹیم ٹیسٹ مقابلے میں تقریباً 10 کے اوسط سے ہدف کا تعاقب کر رہی ہو۔ آصف اقبال کے آؤٹ ہو جانے کے بعد عمران خان کو بھیجا گیا جنہوں نے حریف قائد بشن سنگھ بیدی کے ایک ہی اوور میں دو چھکے اور ایک چوکا رسید کرکے پاکستان کی کامیابی پر مہر ثبت کردی۔

یہ پاک-بھارت کرکٹ رقابت کے یادگار ترین مقابلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جہاں پاکستان کی شاندار بیٹنگ اور باؤلنگ نے اس تاریخی فتح سے ہمکنار کیا۔