اسکول کرکٹ وقت کی ضرورت

4 1,025

بھارت کے ایک اسکول بوائے پرتھوی شا کا آج کل دنیا بھر میں چرچا ہورہا ہے جس کی وجہ ممبئی کے 14سالہ بیٹسمین کی ہیرس شیلڈ میں ریکارڈ ساز اننگز ہے ۔پرتھوی نے اسکول کرکٹ کے اس قدیم ٹورنامنٹ میں 546 رنز بنا کر نیا ریکارڈ قائم کیا اور رضوی اسپرنگ فیلڈ اسکول کے طالبعلم کی اس ریکارڈ ساز اننگز میں 85 چوکے اور 5 چھکے شامل ہیں۔ یاد رہے کہ کئی برس پہلے سچن تنڈولکر نے اسی ہیرس شیلڈ میں ونود کامبلی کے ساتھ ریکارڈ شراکت قائم کرکے شہرت پائی تھی مگر کم سن پرتھوی نے اسکول سطح پر سچن تنڈولکر جیسے بیٹسمین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور پرتھوی شا کیلئے سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ ایک مرتبہ سچن تنڈولکر اس نوجوان کو بیٹنگ کرتا ہوا دیکھ کر رک گئے تھےجو پچھلے تین برسوں میں اسکول اور جونیئر سطح پر 4 ہزار سے زائد رنز بنا چکا ہے۔

85 چوکوں اور 5 چھکوں پر مشتمل اننگز میں پرتھوی نے 546 رنز بنائے، وہ بھی صرف 330 گیندوں پر (تصویر: Facebook)
85 چوکوں اور 5 چھکوں پر مشتمل اننگز میں پرتھوی نے 546 رنز بنائے، وہ بھی صرف 330 گیندوں پر (تصویر: Facebook)

بھارت نے ہر دور میں بہترین بیٹسمین پیدا کیے ہیں اورخاص طور پر ممبئی کی مٹی اس حوالے سے بہت زیادہ زرخیز رہی ہے جس کی بنیادی وجہ اسکول کرکٹ ہے جہاں بارہ سے پندرہ سال کی عمر کے بچے طویل دورانیے کی کرکٹ کھیل کر خود کو بڑی کرکٹ کے لیے تیار کرتے ہیں جو فرسٹ کلاس کرکٹ سے ہوتے ہوئے بھارتی ٹیم تک آتے ہیں اور اکثر اوقات انہیں انٹرنیشنل لیول پر کھیلتے ہوئے کامیابی ملتی ہے۔ذرا تصور کیجیے کہ ایک اننگز میں 85 چوکے لگانا کسی 14 برس کے بچے کے لیے کس قدر مشکل ہوگا بلکہ اتنی بڑی تعداد میں باؤنڈیرز لگانا کسی بھی سطح کی کرکٹ میں آسان نہیں ہے۔کئی برس پہلے تک پاکستان میں بھی اسکول کرکٹ کو بہت اہمیت حاصل تھی جس کے بعد کالج کی سطح پر کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملتے تھے جہاں عمدہ کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی قومی ٹیم کے دروازے پر دستک دے رہے ہوتے تھے۔ اس کے بعد یونیورسٹی کرکٹ کا مرحلہ تھا اور یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی ٹیم فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی شریک ہوتی تھی مگر آج پاکستان میں کالج اور یونیورسٹی کرکٹ آخری سانسیں لے چکی ہے جبکہ اسکول کرکٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔پاکستان میں اب کرکٹ کا ٹیلنٹ کم ہوتا جارہا ہے اور کسی بچے میں صلاحیت موجود بھی ہے تو اسے پہچاننے والی آنکھ موجود نہیں ہے اس لیے ماضی کے برعکس اب جونیئر سطح پر ایسا غیر معمولی ٹیلنٹ دکھائی نہیں دیتا جسے پاکستان کرکٹ کا مستقبل کہا جائے۔ پاکستان میں کرکٹ کا ٹیلنٹ کم ہونے کی بنیادی وجہ اسکول کرکٹ کا فقدان ہے کیونکہ پی سی بی ملک کے چند سو لڑکوں کے درمیان انڈر16ٹورنامنٹ کرواکر اپنے فرض سےسبکدوش ہوجاتا ہے جبکہ اسی ٹورنامنٹ میں اچھا کھیلنے والے انڈر 19کرکٹ تک پہنچ جاتے ہیں۔

پہلے اسکول کرکٹ سرکاری تعلیمی اداروں کے بڑے بڑے میدانوں پر کھیلی جاتی تھی مگر ان اداروں میں تعلیم کا معیار کرنے کے باعث پرائیویٹ اسکولز میں طلباکی بھرمار ہے جہاں بچوں کو کھیلنے کے مواقع میسر نہیں آتے۔دس مرلے کے گھروں میں قائم ہونے والے اسکولز میں بچے اگر ٹھیک سے پڑھ لیں تو یہی بڑی بات ہے ایسی جگہوں پر کھیلوں کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے علاوہ ماضی میں بچوں کو گھر سے باہر جو کھیلنے کے مواقع میسر تھے وہ ملکی حالات نظر ہوگئے ہیں جبکہ رہی سہی کسر ہاؤسنگ اسکیمز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ختم کردی ہے جس کے باعث بچوں کو اب میدان بھی میسر نہیں ہیں اس لیے وہ کھیلوں کا شوق گھر میں ویڈیوز گیمز کھیل کر اور انٹرنیٹ سے شغل کرکے پورا کرلیتے ہیں۔ملکی حالات کو ٹھیک کرنا کسی فرد واحد کے ہاتھ میں نہیں ہے اور نہ ہی ہاؤسنگ اسکیمز کی بڑھتی ہوئی تعداد کوروکا جاسکتا ہے لیکن اتنا ضرور کیا جاسکتا ہے کہ اسکول کرکٹ کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے کیونکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کو ماضی کی طرح اب وافر مقدار میں ٹیلنٹ نہیں مل رہا جس کا اثر قومی ٹیم کی کارکردگی میں بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔اس لیے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اسکول کرکٹ کو دوبارہ زندگی کیا جائے اور سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اسکولز بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ بچوں کو کھیل کے بھی بھرپور مواقع فراہم کریں۔