مستقبل تاریک نہیں ہے!

2 1,036

کیپ ٹاؤن میں انور علی اور بلاول بھٹی نے ون ڈے ڈیبیو پر آل راؤنڈ کارکردگی دکھاتے ہوئے جس طرح پاکستانی ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کروایا اسے دیکھ کر یہی بات ذہن میں آتی ہے کہ 'آزمائش شرط ہے'۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت یہ واویلا مچایا جارہا ہے کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں ٹیلنٹ نہیں ہے، اس لیے انہی چند ناموں پر ہی بھروسہ کرنا پڑے گا جو کئی برسوں سے پاکستانی ٹیم کے ارد گرد موجود ہیں ۔ کئی کھلاڑیوں کو کئی کئی مرتبہ کم بیک کروایا گیا ۔عمر رسیدہ کھلاڑی بھی پچھلے دروازے سے قومی ٹیم میں گھستے رہے کیونکہ ٹیم میں متبادل نہ ہونے کے باعث پٹے ہوئے مہروں اور چلے ہوئے کارتوسوں کی بارہا حوصلہ افزائی کی گئی ۔اس کے علاوہ یہ بزدلانہ سوچ اور اپروچ تھی جس کے باعث نئے کھلاڑیوں کو قومی ٹیم سے دور رکھا جارہا تھا لیکن جیسے ہی نئے کھلاڑیوں پر قومی ٹیم کا دروازہ کھلا تو نئے ٹیلنٹ کا سیلاب آگیا ۔

واضح ہوچکا کہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل تاریک نہیں بلکہ بہت روشن ہے (تصویر: AFP)
واضح ہوچکا کہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل تاریک نہیں بلکہ بہت روشن ہے (تصویر: AFP)

صہیب مقصود کو بہت عرصے سے غیر ضروری طور پر پاکستان کی گرین کیپ سر پر سجانے کا موقع نہ دیا گیا لیکن جیسے ہی صہیب پر قومی ٹیم کا دروازہ کھلا تو ملتان کا یہ بیٹسمین آتے ہی چھا گیا۔شان مسعود نے بھی ٹیسٹ ڈیبیو پر عمدہ اننگز کھیل کر اپنے انتخاب کو درست ثابت کر دکھایا۔ ذوالفقار بابر نے اگرچہ اپنا ٹیلنٹ کئی برسوں تک صرف ڈومیسٹک کرکٹ کے سپرد کیا مگر انٹرنیشنل کرکٹ میں آتے ہی زلفی نے دھوم مچا دی جو ایک مرتبہ پھر سلیکشن کمیٹی کے عتاب کا شکار ہوکر قومی ٹیم سے باہر ہوچکا ہے۔ کھبا بیٹسمین حارث سہیل بھی بے مثال ٹیلنٹ کا حامل بیٹسمین ہے جسے چند ایک مواقع کے بعد بیرونی دروازہ دکھا دیا گیا ہے۔

جنوبی افریقہ کے دور کے لیے دو نئے کھلاڑیوں انور علی اور بلاول بھٹی کو ٹیم میں شامل کیا گیا تو یہ دونوں کھلاڑی بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارمنس دینے کے بعد قومی ٹیم کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ خاص طور پر انور علی 2006ء کے جونیئر ورلڈ کپ میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے کے بعد 2008ء میں پاکستان کے لیے صرف ایک ٹی20انٹرنیشنل کھیلنے میں ہی کامیاب ہوسکا جس کے بعد اگلے برسوں میں دائیں ہاتھ کے اس سوئنگ بالر نے ڈومیسٹک سیزن میں بالنگ کے شعبے میں شاندار پرفارمنس دکھانے کیساتھ ساتھ بیٹنگ میں بھی اپنے جوہر دکھائے لیکن قسمت کی دیوی انور علی پر مہربان نہ ہوسکی۔

اسی طرح بلاول بھٹی بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی اہلیت ثابت کرچکا ہے جس نے اس سیزن میں سنچری بھی اسکور کی ہے اور گزشتہ سیزن میں بلاول 76فرسٹ کلاس وکٹیں لے کر ٹاپ بالرز میں سے ایک تھا ۔یہ خبریں بھی گردش کررہی تھیں کہ بلاول بھٹی کو مارچ میں جنوبی افریقہ کے دورے کے لیے شامل کیا جانا تھا لیکن اَن فٹ ہونے کے باعث بھٹی کا انتخاب نہ ہوسکا۔بلاول بھٹی 49فرسٹ کلاس میچز میں دو سنچریاں اور دو سو سے زائد وکٹیں لے کر پاکستانی ٹیم میں آیا ہے اور انور علی کے پاس بھی 78فرسٹ کلاس میچز کا تجربہ ہے جو 282وکٹیں لینے کیساتھ ساتھ 17سو سے زائد رنز بھی بنا چکا ہے ۔انور علی اور بلاول بھٹی دونوں ایسے کھلاڑی ہیں جو ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی دکھانے کے بعد پاکستانی ٹیم میں شامل ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ کھلاڑی اعتماد کے ساتھ پرفارم بھی کررہے ہیں جو آنے والے دنوں میں محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کے لیے سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

انور علی اور بلاول بھٹی کے علاوہ ڈومیسٹک کرکٹ میں شرجیل خان، علی وقاص، محمد رضوان، جمال انور،علی خان، زین عباس،سمیع اسلم، عمر وحید، محمد نواز ، ضیاء الحق اور بابر اعظم جیسے کھلاڑیوں کی موجودگی سے یہ بالکل واضح ہے کہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل تاریک نہیں بلکہ بہت روشن ہے اور اگر سلیکشن کمیٹی نے بہادرانہ فیصلے کرنے کی عادت ڈال لی تو پھر پاکستانی ٹیلنٹ پر کوئی بھی بند نہ باندھ سکے گا!!