آسٹریلیا کا حوصلہ آسمانوں پر، انگلستان معجزوں کا منتظر

1 1,024

ٹھیک ایک سال پہلے انگلستان کے کپتان ایلسٹر کک غالباً اپنے کیریئر کے یادگار ترین ایام گزار رہے تھے، بھارت کے خلاف اسی کی سرزمین پر نہ صرف انفرادی طور پر عمدہ کارکردگی دکھا رہے تھے بلکہ سرزمین ہند پر ایک تاریخی فتح بھی سمیٹی لیکن اب ایشیز میں انگلستان کی جو درگت بنی ہوئی ہے، اس کا تصور کسی نے بھی نہیں کیا ہوگا۔

مچل جانسن انگلستان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہو رہے ہیں، اب تک 17 وکٹیں سمیٹ چکے ہیں (تصویر: Getty Images)
مچل جانسن انگلستان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہو رہے ہیں، اب تک 17 وکٹیں سمیٹ چکے ہیں (تصویر: Getty Images)

گزشتہ ایشیز سیریز میں آسٹریلیا کو بے حال کرنے والا انگلستان کلین سویپ کے دعوؤں کے ساتھ کینگروؤں کی سرزمین پر آیا اور ایسا لگتا ہے کہ بلند و بانگ توقعات کے بوجھ تلے ہی دب گیا۔ اگر انگلستان اور آسٹریلیا کی حالیہ ٹیسٹ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو انگلش ٹیم سے وابستہ توقعات کوئی خام خیالی نہیں تھیں۔ دورۂ بھارت میں تاریخی کامیابی اور اس کے بعد آسٹریلیا کے خلاف ایشیز میں شاندار فتوحات کے بعد انگلستان کی ٹیم بھرپور فارم میں تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ آسٹریلیا کی شروع کردہ 'الفاظ' و 'نفسیات' کی جنگ میں حوصلہ ہار بیٹھا ہے۔

رواں سال کے وسط میں انگلستان میں پے در پے شکستوں کے بعد آسٹریلیا نے کارکردگی کے بجائے زبان کو اپنا ہتھیار بنایا اور اسی وقت اسٹورٹ براڈ تنازع کو ہوا دے کر آنے والی سیریز میں بدلہ لینے کی باتیں کی گئیں۔ انگلستان جیسی پیشہ ورانہ ٹیم کا ان گیدڑ بھبکیوں ہی سے زیر ہوجانا مایوس کن بات ہے۔ وہ جس سطح کی کرکٹ کھیلتے آ رہے ہیں، ایسی باتوں کو انہیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینا چاہیے تھا۔ لیکن برسبین کے بعد اب ایڈیلیڈ میں کارکردگی سے لگتا ہے کہ آسٹریلیا کا جن ان پرسوار ہوچکا ہے۔

پہلے ٹیسٹ میں انگلش بلے باز ایک بار بھی 200 کا ہندسہ تک عبور نہ کرسکے اور 381 رنز کی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے اور اب کچھ ایسی ہی صورتحال ایڈیلیڈ میں بھی ہے۔ پہلی اننگز میں آسٹریلیا کے بلے بازوں کے ہاتھوں 570 رنز کی مار کھانے کے بعد پہلی بار میں انگلش بلے باز صرف 172 رنز پر ڈھیر ہوئے اور اب 531 رنز کے ہدف کے تعاقب میں وہ 247 رنز پر 6 وکٹیں گنوا چکے ہیں۔ جو روٹ کی 87 اور کیون پیٹرسن کی 53 رنز کی باریاں بھی صرف مزاحمت ہی کہلا سکتی ہی کیونکہ ان کے باوجود ٹیم فتح سے اب بھی 284 رنز کے فاصلے پر ہے اور صرف 4 وکٹیں باقی ہیں۔

یوں صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ جو انگلش کرکٹ ماہرین سیریز کے آغاز سے قبل 'کلین سویپ' کی صدائیں بلند کر رہے تھے، اب شرمندگی سے یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ "کچھ تو مزاحمت کرلو!"

حیرتناک بات یہ ہے کہ کافی عرصے سے اوسط درجے کی کارکردگی دکھانے والے مچل جانسن کا کردار اب تک سب سے اہم رہا ہے۔ انگلستان کے خلاف گزشتہ ایشیز مقابلوں کو سامنے رکھیں تو سوائے خوش فہم آسٹریلوی ماہرین کے کسی کو توقع نہ تھی کہ 'مچ' مہمان بلے بازوں کو اتنا حواس باختہ کردیں گے۔ پہلے ٹیسٹ میں 9 اور اب دوسرے ٹیسٹ میں 8 وکٹوں کے ساتھ وہ 11.52 کے اوسط سے اب تک سیریز میں 17 وکٹیں سمیٹ چکے ہیں اور ان کے حوصلے آسمانوں کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔

پھر جتنی بدترین کارکردگی انگلش بلے بازوں نے یہاں دکھائی ہے، آسٹریلیا کے بیٹسمین اتنے ہی پراعتماد ہیں ۔ ایڈیلیڈ میں جاری دوسرے ٹیسٹ میں آسٹریلیا کو مائیکل کلارک کے 148، بریڈ ہیڈن کے 118، کرس راجرز کے 72، شین واٹسن کے 51 اور راین ہیرس کے ناقابل شکست 55 رنز کی بدولت پہلی اننگز میں 570 رنز کا مجموعہ ملا اور پھر دوسری مختصر اننگز میں ڈیوڈ وارنر بھی 83 رنز بنا کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھو گئے۔ جبکہ انگلستان کا حال اس سے عیاں ہے کہ اب تک چار اننگز میں صرف ایک بار وہ 200 کا ہندسہ عبور کر پایا ہے۔

انگلستان کے لیے اب عالمی درجہ بندی میں آگے بڑھنے کا خواب تو چکناچور ہوچکا ہے اور اب وہ اتنا کرسکتا ہے کہ آنے والے مقابلوں میں کارکردگی کو بہتر بنا کر عالمی درجہ بندی میں موجودہ تیسری پوزیشن کو بچائے، جسے کلین سویپ کی صورت میں وہ آسٹریلیا ہی کے ہاتھوں گنوا بیٹھے گا۔ کیونکہ سیریز پانچ مقابلوں پر محیط ہے اس لیے انگلستان کے پاس واپس آنے کے بہت مواقع موجود ہیں۔

سیریز کا تیسرا ٹیسٹ مقابلہ 13 دسمبر سے پرتھ میں شروع ہوگا اور مچل جانسن اور دیگر آسٹریلوی باؤلرز کی حالیہ فارم پر طرّہ یہ کہ واکا پر دنیا کی تیز ترین پچوں میں سے ایک موجود ہے اور یہ انگلش بلے بازوں کے حوصلوں کا سب سے بڑا امتحان ہوگا۔ اگر وہ اس مقام پر بھی نہ اٹھ پایا تو گویا سیریز میں ان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جائے گی۔