سنسنی خیز مقابلہ، 'ناقابل یقین' پاکستان نے افغانستان پر قابو پالیا

2 1,045

پاکستان کو غالباً مقابلوں کو سنسنی خیز مرحلے میں پہنچانے اور اپنے اعصاب کو آزمانے کا بہت شوق ہے۔ چاہے حریف جنوبی افریقہ ہو یا افغانستان، قومی کھلاڑی یہ سوچ کر میدان میں اترتے ہیں کہ مقابلہ آخری لمحات تک پہنچنا چاہیے، پھر چاہے نتیجہ خلاف ہی کیوں نہ نکل جائے۔ کچھ یہی صورتحال پاک-افغان واحد ٹی ٹوئنٹی میں پیش آئی، جہاں قومی ٹیم کا دفاعی انداز افغانستان کو ایک تاریخی فتح کے کنارے تک پہنچا گیا تھا، بس جب آخری گیند پر ایک رن کی ضرورت تھی تو افغان گیندباز نے نو بال پھینک کر پاکستان کو 6 وکٹوں کی فتح دے دی، ورنہ معاملہ سپر اوور میں بھی جا سکتا تھا۔

افغانستان کی حوصلہ افزائی کے لیے شارجہ میں ہزاروں افغان تماشائی موجود تھے (تصویر: ICC)
افغانستان کی حوصلہ افزائی کے لیے شارجہ میں ہزاروں افغان تماشائی موجود تھے (تصویر: ICC)

ایک ایسا مقابلہ جو بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے منعقدہ کسی ٹورنامنٹ کے علاوہ افغانستان کا آئی سی سی کے کسی مکمل رکن کے خلاف پہلا ٹی ٹوئنٹی مقابلہ تھا، اگر سپر اوور میں جاتا تو ویسے ہی افغانستان کی اخلاقی فتح پر منتج ہوتا۔ پھر پاکستان کے 'ناقابل یقین' ہونے پر بھی مہر ثبت کرجاتا جو ابھی چند روز پہلے جنوبی افریقہ جیسے حریف کو اسی کی سرزمین پر شکست دے کر آیا ہے۔

شارجہ کے تاریخی میدان میں ہونے پاک-افغان ٹی ٹوئںٹی مقابلے میں افغانستان کی حوصلہ مندی کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ صرف 29 رنز پر تین وکٹیں گنوانے کے باوجود وہ پاکستان کی طرح 'اپنے خول میں بند' نہ ہوئے بلکہ جراتمندی و دلیری کے ساتھ آخر تک پاکستانی باؤلرز کا سامنا کیا اور تمام 20 اوورز کھیل کر اسکور کو 137 رنز کے قابل ذکر مجموعے تک پہنچایا۔

ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ ابتداء میں افغانستان کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا جب جارح مزاج وکٹ کیپر بیٹسمین محمد شہزاد اور ان کے بعد تجربہ کار نوروز منگل بالترتیب سہیل تنویر اور ذوالفقار بابر کو اپنی پہلی، پہلی گیندوں پر وکٹ تھما گئے۔ اسکوربورڈ گھونگھے کی سی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا کہ آٹھویں اوور کی پہلی گیند پر بلاول بھٹی نے اصغر ستانکزئی کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ محض 29 رنز پر تین وکٹیں کھو بیٹھنے کے بعد افغانستان نے پاکستانی باؤلرز کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ہر گیند کو تماشائیوں میں پہنچانے کی نیم کامیاب کوششوں نے رنز بنانے کی رفتار کو بہت تیزی سے آگے بڑھایا۔

رنز کی تیز رفتاری کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی 5 اوورز میں صرف 8 رنز بنانے والا افغانستان 10 اوورز کی تکمیل تک مزید 51 رنز سمیٹ چکا تھا۔ اس مقام پر وقفے وقفے سے وکٹیں گرنا بھی رنز بننے کی رفتار میں قابل ذکر حد تک کمی نہ کرسکا۔ افغان بلے باز اپنے چوکوں اور چھکوں کے ذریعے میدان میں موجود ہزاروں ہم وطن تماشائیوں کو آخر تک محظوظ کرتے رہے۔

افغانستان کی اننگز کے سب سے نمایاں بلے باز نجیب اللہ زدران رہے، جنہوں نے صرف 30 گیندوں پر 2 چھکوں اور 3 چوکوں کی مدد سے 38 رنز بنائے جبکہ اختتامی لمحات میں میرواعظ اشرف کے 28 رنز بھی افغانستان کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے۔

اس مجموعے کو حاصل کرنے کے باوجود افغانستان کے بلے بازوں میں جس چیز کی واضح کمی محسوس ہوئی، وہ ان کا احساس ذمہ داری تھا۔ 'گیند دیکھتے ہی شاٹ مارنے' کی حکمت عملی نچلی سطح پر تو شاید کارگر ہو لیکن بین الاقوامی کرکٹ میں قدم جمانے اور حریف ٹیموں سے برابری کی سطح پر پنجہ آزمائی کے لیے انہیں ہر گیند پر آنکھیں بند کرکے بلّا گھمانے کی عادت سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا، بصورت دیگر نتیجہ یہی نکلے گا جو آج ظاہر ہوا ہے۔

پاکستان کی جانب سے جنید خان نے سب سے زیادہ یعنی 3 وکٹیں حاصل کیں البتہ 4 اوورز میں 24 رنز بھی کھائے۔ شاہد آفریدی نے اوورز میں 24 رنز دیے جبکہ ذوالفقار بابر اور بلاول بھٹی کو تین، تین اوورز میں بالترتیب 27 اور 25 رنز کی مار سہنا پڑی۔ ان تینوں کو ایک ایک وکٹ ملی جبکہ سب سے اچھی باؤلنگ سہیل تنویر نے کی جن کے 4 اوورز میں 2 میڈنز تھے اور بقیہ میں انہوں نے 11 رنز دیے اور دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ کپتان محمد حفیظ نے بھی اپنے 4 اوورز میں صرف 13 رنز بننے دیے البتہ کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے۔

پاکستان نے ہدف کا تعاقب بہت عمدگی کے ساتھ شروع کیا جب اوپنرز احمد شہزاد اور اپنا پہلا بین الاقوامی مقابلہ کھیلنے والے شرجیل خان نے 49 رنز کی افتتاحی شراکت داری قائم کی۔ احمد شہزاد اپنی فارم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے دکھائی دیے لیکن جب وہ مکمل طور پر جم گئے تو عین اسی وقت اپنی وکٹ مایوس کن انداز میں دےگئے ۔ 35 رنز بنانے کے بعد وہ سمیع اللہ شنواری کی ایک ناقص گیند پر ڈیپ مڈ وکٹ پر کیچ آؤٹ ہوگئے جبکہ شرجیل خان ایک چھکے اور دو چوکوں کی مدد سے 18 رنز بنانے کے بعد ایک بہت باہر جاتی ہوئی گیند کو چھیڑنے کی پاداش میں پوائنٹ پر دھر لیے گئے۔

64 رنز پر دو وکٹیں گنوا بیٹھنے کے بعد عمر اکمل اور محمد حفیظ نے اننگز کو سنبھالا۔ لیکن دونوں نے مقابلے پر فوری گرفت مضبوط کرنے اور اسے حتمی اوورز میں پہنچانے کی کوشش ہی نہ کی۔ کئی گیندیں ضایع کرنے یا ایک، دو رنز دوڑ لینے کے بعد کسی مخصوص گیند پر فیصلہ کرکے اسی پر چھکا یا چوکا لگانے کی کوشش نے بالآخر مقابلہ پھنسا دیا۔ ایسا لگتا تھا یا تو پاکستان نے حریف ٹیم کو بہت زیادہ کمزور سمجھ رکھا ہے یا پھر ہدف کے تعاقب کے لیے کوئی حکمت عملی سرے سے متعین ہی نہیں کی گئی۔ کم از کم عمر اکمل کے آؤٹ ہونے سے تو ایسا ہی محسوس ہوا۔ وہ دولت زدران کو ایک شاندار چھکا لگانے کے بعد اسی شاٹ کو دہرانے کی کوشش میں اپنی وکٹیں بکھیر گئے۔ گیند ان کے بلے کا اندرونی کنارہ لیتی ہوئی بیلز اڑا گئی۔ 23 گیندوں پر دو چھکوں سے مزین 28 رنز کی اننگز کا خاتمہ ہوا اور یہیں سے افغانستان نے مقابلے میں واپسی کی۔ 19 ویں اوور میں صہیب مقصود کا رن آؤٹ میچ کو ڈرامائی روپ دے گیا۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ قومی ٹیم کے ہاتھ پیر کیوں پھولتے جا رہے ہیں؟ اگر اسی مرحلے پر افغانستان بھی ہوتا تو اتنا پریشان نہ ہوتا جتنا کہ پاکستان کے سینکڑوں مقابلوں کا تجربہ رکھنے والے کھلاڑیوں کو دیکھا جا رہا تھا۔ بہرحال، انیسویں اوور کی آخری گیند پر خوش قسمتی سے ملنے والے چوکے نے معاملے کو آخری اوور میں 6 رنز درکار تک پہنچا دیا۔ جہاں شاہد آفریدی اور محمد حفیظ ایک بار بھی گیند کو باؤنڈری کی جانب نہ پھینک سکے بلکہ جس وقت پاکستان کو دو گیندوں پر دو رنز کی ضرورت تھی، اس وقت بھی محمد حفیظ نے گیند کو قریب ہی روک کر ایک رن دوڑا۔ خوش قسمت سے آخری گیند جس پر پاکستان کو ایک رن درکار تھا، نو بال ہوگیا اور پاکستان کو 6 وکٹوں سے فتح حاصل ہوگئی ورنہ جس طرح آفریدی نے چوتھی گیند پر ہوا میں بلّا گھمایا تھا، اگر آخری گیند پر بھی ایسا ہوجاتا تو نتیجہ افغانستان کے حق میں بھی نکل سکتا تھا۔

افغانستان کی جانب سے سیمع اللہ شنواری، دولت زدران اور کپتان محمد نبی نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

اب پاکستان کا اگلا امتحان ٹی ٹوئنٹی کی عالمی نمبر ایک ٹیم سری لنکا کے خلاف ہوگا جو دو ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 11 اور 13 دسمبر کو آمنے سامنے ہوں گی۔