جنوبی افریقہ نے بھارتی غبارے سے ہوا نکال دی

1 1,049

بھارت بلے بازی میں ایک عالمی قوت ہے، اور یہ کوئی دعویٰ نہیں بلکہ اٹل حقیقت ہے کیونکہ اسی صلاحیت کی بل بوتے پر وہ عالمی درجہ بندی میں نمبر ایک پوزیشن پر قابض ہے۔ اس کی حالیہ تمام فتوحات کا سہرا بلے بازوں کے سر ہے لیکن جنوبی افریقہ پہنچتے ہی ان بیٹسمینوں کی کارکردگی ایسا معمہ بن چکی ہے، جس کو حل کرنے کے لیے کسی شرلاک ہومز کی ضرورت ہے۔ پہلے ون ڈے میں 358 رنز کے تعاقب میں 217 رنز پر اور یہاں ڈربن میں 281 رنز کے سراب کے پیچھے دوڑتے ہوئے صرف 146 رنز پر اننگز تمام! یوں سیریز بھی عالمی چیمپئن کے ہاتھ سے گئی اور اس دعوے کو تقویت دے گئی کہ بھارتی بلے باز بیٹنگ کے لیے سازگار گھریلو وکٹوں پر ہی کھیل پاتے ہیں۔

بیس سالہ کوئنٹن ڈی کوک کی ایک اور سنچری، اور جنوبی افریقہ کی ایک اور کامیابی (تصویر: AFP)
بیس سالہ کوئنٹن ڈی کوک کی ایک اور سنچری، اور جنوبی افریقہ کی ایک اور کامیابی (تصویر: AFP)

بلاشبہ جنوبی افریقہ کی باؤلنگ سیریز میں بہت ہی عمدہ رہی، لیکن ابھی چند روز قبل یہی گیندباز پاکستان جیسی نسبتاً کمزور ٹیم کے خلاف ناکامی کا منہ دیکھ چکے ہیں اور پاکستان کی بیٹنگ "اہلیت" بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس لیے بھارت سے توقع تھی کہ وہ اپنی نمبر ایک پوزیشن کی لاج رکھتے ہوئے کہیں بہتر کارکردگی دکھائے گا اور دنیا بھر کے شائقین ایک انتہائی سنسنی خیز سیریز کی توقعات لگائے بیٹھے لیکن کھودا پہاڑ، نکلا چوہا!

کنگزمیڈ، ڈربن میں ہونے والے سیریز کے دوسرے مقابلے میں بھارت نے سبز مائل وکٹ اور ابر آلود موسم کو دیکھتے ہوئے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا، جو ابتداء ہی میں غلط ثابت ہوگیا۔ ان فارم وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک اور 'مرد درویش' ہاشم آملہ نے ریکارڈ 194 رنز کی شراکت داری قائم کرکے جنوبی افریقی فتح کی بنیاد رکھ دی۔

میدان گیلا ہونے کی وجہ سے فی اننگز 49 اوورز تک محدود مقابلے میں ڈی کوک نے ایک اور سنچری داغ کر مستقبل کے ایک بڑے کھلاڑی کی آمد کا اعلان کیا۔ یہ ان کی مسلسل دوسرے مقابلے میں اور گزشتہ ایک ماہ کے عرصے میں تیسری سنچری تھی۔ 118 گیندوں پر 9 چوکوں سے مزین 106 رنز کی اننگز اس وقت اختتام پذیر ہوئی جب اننگز کے 35 اوورز مکمل ہو چکے تھے اور برقی اسکور بورڈ پر 194 رنز کا ہندسہ جگمگا رہا تھا۔

کوئنٹن ڈی کوک جنوبی افریقہ کی تاریخ میں ہاشم آملہ اور ہرشل گبز کے بعد محض تیسرے کھلاڑی بنے جنہیں پے در پے دو مقابلوں میں سنچریاں بنانے کا موقع ملا ہو اور اب ان کی نظریں تین مقابلوں میں تین سنچریوں کے عالمی ریکارڈ پر مرکوز ہوں گی۔ دوسرے اینڈ پر ہاشم آملہ نے کیریئر کی بارہویں سنچری کے دوران 4 ہزار ایک روزہ رنز کا سنگ میل بھی عبور کیا بلکہ انہوں نے سب سے کم اننگز میں 4 ہزار رنز بنانے کا 28 سال پرانا ویوین رچرڈز کا ریکارڈ بھی توڑ دیا اور یوں سب سے کم مقابلوں میں 2 ہزار اور 3 ہزار کے بعد اب 4 ہزار رنز کا ریکارڈ بھی اپنے نام کرلیا ہے۔

علاوہ ازیں ڈی کوک اور ہاشم آملہ نے جنوبی افریقی سرزمین پر میزبان ٹیم کی سب سے بڑی اوپننگ شراکت داری کا نیا ریکارڈ بھی بنایا۔

شاندار آغاز میسر آنے کے بعد جنوبی افریقہ کے آنے والے باز ثمرات نہ سمیٹ سکے۔ مضبوط پلیٹ فارم مہیا ہوجانے پر کپتان ابراہم ڈی ولیئرز نے خود آنے کا فیصلہ کیا لیکن نہ صرف خود ناکام ہوئے بلکہ آنے والے کھلاڑی بھی کچھ قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے۔ جنوبی افریقہ آخری دو اوورز میں 20 رنز سمیٹ کر 280 رنز تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔

محمد شامی کے بل بوتے پر جنوبی افریقہ کو 300 کی نفسیاتی حد عبور کرنے سے روکنے میں کامیابی بھی بعد ازاں بھارت کےلیے کافی ثابت نہ ہوئی۔

ڈیل اسٹین اینڈ کمپنی ایک مرتبہ پھر اس کی پیشرفت کی راہ میں آڑے آ گئی۔ بالخصوص اپنے دونوں اہم ترین بلے بازوں شیکھر دھاون اور ویراٹ کوہلی کے صفر پر آؤٹ ہوجانے کےبعد کوئی معجزہ ہی بھارت کو بچا سکتا تھا، جو آخر تک رونما نہ ہوا اور پوری ٹیم 35 اوورز میں 146 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ جنوبی افریقہ کی محض اوپننگ جوڑی ہی 35 اوورز تک کریز پر ٹکی رہی، بھارت کی پوری ٹیم نے ڈھیر ہونے میں بھی اتنا ہی وقت لیا اور رنز بھی صرف 146 ہی بنا پائی۔ "سب سے بڑی اننگز" محض 36 رنز کی تھی جو سریش رینا نے کھیلی۔

جنوبی افریقہ کے باؤلرز نہ صرف بہت عمدہ لائن و لینتھ پر گیندیں پھینکیں اور حواس باختہ بھارتی بلے بازوں کو پریشان کیا بلکہ فیلڈرز نے بھی پھرتی کا کمال مظاہرہ دکھایا۔ بالخصوص روہیت شرما کے پل پر شارٹ مڈوکٹ پر کھڑے ہاشم آملہ کا کیچ اور پھر مہندر سنگھ دھونی کا وکٹوں پیچھے تھاما گیا کیچ اس کی شاندار مثال تھے۔

کوئنٹن ڈی کوک کو سنچری اور وکٹوں کے پیچھے چار کیچز تھامنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

سیریز تو خیر ہاتھ سے نکل گئی لیکن بھارت کے پاس اب آخری موقع ہےکہ وہ 11 دسمبر کو سنچورین میں آخری ون ڈے میں بھرپور کارکردگی دکھا کر نہ صرف کلین سویپ کی ہزیمت سے بچے بلکہ آنے والے مشکل مرحلے یعنی ٹیسٹ مقابلوں سے قبل اپنے حوصلے بھی مجتمع کرلے۔