حواس باختہ انگلستان دوسرا ٹیسٹ بھی ہارگیا، آسٹریلیا کا شاندار کھیل

0 1,019

جب آسٹریلیا کے عظیم بلے باز ڈان بریڈمین اپنے عروج پر تھے تو انگلستان نے آسٹریلیا کے بلے بازوں بالخصوص ڈان سے نمٹنے کا ایک طریقہ ایجاد کیا تھا جو کرکٹ تاریخ میں 'باڈی لائن' کہلاتا ہے۔ یعنی باؤلر کی گیند کا ہدف وکٹ نہیں بلکہ بلے باز کا جسم ہو۔ اس حکمت عملی کی بدولت نہ صرف انگلستان نے آسٹریلیا کے خطرے کا مقابلہ کیا بلکہ 1932ء میں گزشتہ شکستوں کا بدلہ بھی 4-1 کے بھاری مارجن سے لیا۔ اب اسی صورتحال کو موجودہ حالات پر چسپاں کریں۔ طویل عرصے تک دنیائے کرکٹ پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والا آسٹریلیا اس حال کو پہنچ چکا تھا کہ 2010ء میں اپنے ملک میں بھی ایشیز نہ جیت سکابلکہ ایشیز سے ہٹ کر بھی گزشتہ 9 ٹیسٹ میچز میں سے 7 میں اسے شکست کامنہ دیکھنا پڑا۔ ان حالات میں اس نے 'باڈی لائن' کی جگہ 'زبان کی لائن' پکڑی اور انگلستان کو ابتدائی دونوں معرکوں میں چت کرکے سیریز میں حیران کن طور پر دو-صفر کی برتری حاصل کرلی ہے۔ انگلستان الفاظ کے گھن چکر میں اس بری طرح پھنسا ہے کہ اب اسے سیریز کے بھی لالے پڑ چکے ہیں۔ برسبین میں 381 رنز کی شکست کے بعد ایڈیلیڈ میں بھی 218 رنز کی ہار اس کے لیے تازیانہ ثابت ہو رہی ہے۔

آسٹریلیا نے 'باڈی لائن' کے مقابلے میں 'زبان کی لائن' پکڑی اور اب تک کامیابیاں سمیٹ رہا ہے (تصویر: AFP)
آسٹریلیا نے 'باڈی لائن' کے مقابلے میں 'زبان کی لائن' پکڑی اور اب تک کامیابیاں سمیٹ رہا ہے (تصویر: AFP)

آئیے دیکھتے ہیں کہ پانچ دن تک ایڈیلیڈ میں آخر ہوا کیا؟ سیریز میں ایک-صفر کی برتری کے حامل آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور ایک مرتبہ پھر اس کے بلے بازوں نے انگلش باؤلرز کی جم کر دھلائی کرڈالی۔ کپتان مائیکل کلارک اس 'اٹھا پٹخ' میں سب سے آگے رہے جنہوں نے 148 رنز کی شاہکار باری کھیلی۔ آخری لمحات میں بریڈ ہیڈن کی 118 کی اننگز اور راین ہیرس کے ناقابل شکست 55 رنز انگلستان کے بچے کچھے حوصلوں کے خاتمے کے لیے کافی تھے۔ پہلی اننگز کے 570 رنز میں کرس راجرز نے 72، شین واٹسن نے 51 اور جارج بیلی نے 53 رنز کے ساتھ اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ سب سے اہم شراکت داری چھٹی وکٹ پر مائیکل کلارک اور بریڈ ہیڈن کے درمیان ہوئی جنہوں نے 200 رنز جوڑ کر انگلستان کی مقابلے میں واپس آنے کی امیدوں کا خاتمہ کردیا۔

انگلستان کی جانب سے اسٹورٹ براڈ نے 3، گریم سوان اور بین اسٹوکس نے دو، دو جبکہ جیمز اینڈرسن اور مونٹی پنیسر نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

جواب میں انگلستان کی باری ایک ڈراؤنا خواب تھی۔ مائیکل کاربیری کے 60 اور این بیل کے 72 رنز کے علاوہ صرف ایک کھلاڑی کو دہرے ہندسے میں پہنچنے کا "شرف" مل سکا۔ کپتان ایلسٹر کک 3، کیون پیٹرسن 4، بین اسٹوکس 1،گریم سوان7 اور مونٹی پنیسر صرف دو رنز بنا کر پویلین سدھارے جبکہ اسٹورٹ براڈ، میٹ پرائیر اور جیمز اینڈرسن نے صفر کی ہزیمت اٹھائی۔ پوری ٹیم صرف 172 رنز پر ڈھیر ہوگئ۔

اس تباہی کے ذمہ دار تھے ایک مرتبہ پھر مچل جانسن ۔ جنہوں نے اس مرتبہ انگلستان نے اپنے اگلے پچھلے سارے بدلے چکانے کی ٹھان رکھی ہے۔ صرف 40 رنز دے کر انہوں نے 7 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ بقیہ تین وکٹیں ناتھن لیون، پیٹر سڈل اور شین واٹسن نے آپس میں بانٹیں۔

آسٹریلیا نے انگلستان کو فالو آن پر مجبور کرنے کے بجائے اپنے بلے بازوں کو بیٹنگ کا دوبارہ موقع دیا اور ڈیوڈ وارنر نے ناقابل شکست 83 رنز بنا کر کپتان کے اس فیصلے کو درست ثابت کر دکھایا کیونکہ وارنر پر کافی عرصے سےایک اچھی اننگز ادھار تھی۔ آسٹریلیا نے چوتھے روز کے آغاز پر ہی اپنی دوسری باری 132 رنز 3 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کرنے کا اعلان کردیا اور یوں انگلستان کو 531 رنز کا بھاری بھرکم ہدف حاصل کرنے یا دو پہاڑ جیسے دن گزارنے کا ہدف ملا اور وہ دونوں میں ناکام رہا۔

'آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا' کے مصداق دوسری اننگز میں انگلستان مچل جانسن سے تو بچ گیا لیکن پیٹر سڈل اور راین ہیرس کے ہتھے چڑھ گیا۔ دونوں نے مجموعی طور پر 7 وکٹیں حاصل کیں اور انگلستان کی تمام تر کوششوں کے ناکام بنا ڈالا جس نے گزشتہ مقابلوں کی نسبت بہتر کارکردگی ضرور دکھائی لیکن شکست کو نہ ٹال سکا۔ جو روٹ کے 87، میٹ پرائیر کے 69 اور کیون پیٹرسن کے 53 رنز سب سے نمایاں رہے البتہ کپتان ایک مرتبہ پھر ناکام ثابت ہوئے اور ساتھ میں این بیل بھی اور پوری ٹیم پانچویں دن کی صبح 312 رنز پر آؤٹ ہوکر آسٹریلیا کو ایک اور شاندار فتح تھما گئی۔ آسٹریلیا نے بارش کی وجہ سے تاخیر سے شروع ہونے والی آخری دن 12 اوورز سے بھی کم میں انگلستان کی بقیہ 4 وکٹوں کو ٹھکانے لگایا۔

مچل جانسن کو میچ میں 8 وکٹیں حاصل کرنے پر مرد میدان قرار دیا گیا۔

ابتدائی دونوں مقابلوں میں شاندار کارکردگی کے بعد آسٹریلیا نے ثابت کردیا کہ وہ 2010ء کی سیریز شکست کے بھوت سے چھٹکارہ پاچکا ہے اور اب ایک مرتبہ پھر عالمی ٹیسٹ اکھاڑے میں اپنا مقام حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ میزبان کو یادگار سیریز فتح کے لیے اسے آنے والےتین میں سے صرف ایک ٹیسٹ میں فتح حاصل کرنا ہوگی اور اس کے بلند حوصلوں اور انگلستان کی پستی کو دیکھتے ہوئے ایسا واضح دکھائی دیتاہے۔

انگلستان کے لیے معاملہ اس لیے زیادہ حیران کن ہے کہ اس کی حالیہ کارکردگی بہت ہی شاندار رہی ہے۔ گزشتہ 13 مقابلوں سے وہ ناقابل شکست تھا لیکن آسٹریلیا پہنچتے ہی ایسا لگتا ہے کہ حواس کھو بیٹھا ہے۔ آسٹریلوی سرزمین پر انگلستان کبھی 2-0 کے خسارے کے بعد سیریز میں واپس نہیں آ سکا لیکن پھر بھی اسے اپنا ایشیز اعزاز برقرار رکھنے کے لیے بقیہ تینوں مقابلوں میں جان لڑانی ہوگی اور کم از کم دو مقابلے جیت کر اور ایک کو ڈرا کرکے سیریز برابر کرنا ہوگی۔