آسٹریلیا 3-0 انگلستان، ایشیز واپس آسٹریلیا پہنچ گئی

0 1,024

لد گئے وہ زمانے جب مضبوط اعصاب کے حامل کھلاڑی اپنی ٹیموں کو شکست کے دہانے سے کھینچ لاتے تھے۔ اب تو وہ زمانہ ہے ایک سیریز میں "شیر" تو دوسری میں "ڈھیر"۔ ذرا سا 'توازن' بگڑا اور پہاڑی سے لڑھکتے ہوئے پتھر کی طرح ٹیم کی کارکردگی نیچے کی سمت آ رہی، بالکل ویسے ہی جیسے انگلستان سرزمین آسٹریلیا پر پے در پے شکستوں کے بعد ایشیز کا اعزاز گنوا بیٹھا ہے۔

انگلش کپتان ایلسٹر کک بلاشبہ آسٹریلیا میں اپنے کیریئر کے بدترین لمحات گزار رہے ہیں (تصویر: Getty Images)
انگلش کپتان ایلسٹر کک بلاشبہ آسٹریلیا میں اپنے کیریئر کے بدترین لمحات گزار رہے ہیں (تصویر: Getty Images)

واکا، پرتھ میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میں آسٹریلیا نے فتح سمیٹتے ہوئے انگلستان سے ایشیز کا اعزاز چھین لیا ہے۔ چند ماہ قبل آسٹریلیا کو اپنے ملک میں چاروں شانے چت کرنے والی انگلش ٹیم کے لیے کوئی جائے پناہ نظر نہیں آتی اور پہلا ٹیسٹ 381، دوسرا 218 اور تیسرا 150 رنز کے بھاری بھرکم مارجن سے ہار گئی اور آسٹریلیا نے گزشتہ ایشیز جیتنے کے بعد فتح کے نشے میں بدمست اوول کی پچ کو 'سیراب' کرنے والے انگلش کھلاڑیوں کو چند ہی دنوں میں عرش سے فرش پر لاپھینکا۔

سیریز کے دو ٹیسٹ مقابلے ابھی باقی ہیں اور آسٹریلیا 4 سال بعد اپنا کھویا ہوا ایشیز اعزاز دوبارہ حاصل کرچکا ہے جس میں نہ صرف اس کے گیندباز شاباش کے مستحق ہیں بلکہ ان کے بلے بازوں کی کاوشوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جنہوں نے 'دنیا کی تیز ترین پچ' پر پہلی اننگز میں 385 رنز کا مجموعہ جوڑ کر آسٹریلیا کو فتح کے لیے بہترین بنیاد فراہم کی۔

ٹاس جیت کے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے آسٹریلیا نے 143 رنز پر 5 کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کے باوجود اسٹیون اسمتھ کے 111، ڈیوڈ وارنر کے 60 اور بریڈ ہیڈن کے 55 رنز کی بدولت بہترین مجموعہ حاصل کیا۔ اسمتھ اور ہیڈن کے درمیان چھٹی وکٹ پر 124 اور پھر ساتویں وکٹ پر اسمتھ کی مچل جانسن کے ساتھ 59 رنز کی رفاقت نے مقابلے کو انگلستان کی گرفت میں جانے سے بچا لیا۔

انگلستان کو پہلی باری میں 85 رنز کا مستحکم آغاز ضرور ملا لیکن پھر آسٹریلیا کے باؤلر مقابلے پر چھا گئے۔ ایک کے بعد ایک بلے باز آسٹریلوی گیندبازوں کے ہتھے چڑھتا رہا۔ کپتان ایلسٹر کک کے 72 اور ساتھی اوپنر مائیکل کاربیری کے 43 رنز کے بعد آنے والے تمام ہی بلے باز ناکام ہوئے اور ان میں سے سب سے زیادہ رنز ٹم بریسنن نے بنائے جو کہ 21 تھے۔ یعنی باقی کسی بلے باز کو 20 رنز تک پہنچنے کی توفیق بھی حاصل نہ ہوئی اور پوری ٹیم 251 رنز تک پہنچتے پہنچتے میدان بدر ہوچکی تھی۔

یوں آسٹریلیا کو 134 رنز کی شاندار برتری ملی اور اس نے دوسری اننگز میں پہلی ہی وکٹ پر اس برتری کو دوگنا بھی کردیا۔ کرس راجرز اور ڈیوڈ وارنر کی اوپننگ جوڑی نے 157 رنز کا شاندار آغاز فراہم کرکے انگلستان ہی رہی سہی امیدوں کا چراغ بھی گل کردیا۔ راجرز 54 رنز بنانے کے بعد میدان سے لوٹے تو پہلے وارنر اور پھر شین واٹسن نے شاندار سنچریاں جڑ ڈالیں۔ وارنر نے 112 رنز بنائے جبکہ واٹسن 103 کے بعد رن آؤٹ ہوئے۔

مچل جانسن محض تین ٹیسٹ میچز میں 23 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں (تصویر: Getty Images)
مچل جانسن محض تین ٹیسٹ میچز میں 23 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں (تصویر: Getty Images)

آسٹریلیا کی مجموعی برتری جب 500 کا ہندسہ بھی عبور کرگئی تو اس نے 369 رنز پر اپنی دوسری باری ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا اور یوں انگلستان کو میچ اور سیریز بچانے کے لیے 504 رنز کا ہدف دیا یعنی کہ چیونٹی کو ہاتھی اٹھانے کا ہدف ملا!

آسٹریلیا کی دوسری اننگز کی سب سے خاص بات آخری لمحات میں تیز رفتار کھیل تھا۔ آسٹریلوی باری کے آخری اوور میں جارج بیلی نے جیمز اینڈرسن کے ایک اوور میں 28 رنز لوٹ کر ٹیسٹ میں ایک اوور میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا عالمی ریکارڈ برابر کیا اور انگلستان کے حوصلوں کی چٹنی بنادی۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ برائن لارا نے بھی ٹھیک 10 سال پہلے یعنی 16 دسمبر ہی کو یہ عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا جس کے دوران انہوں نے جنوبی افریقہ کے رابن پیٹرسن کے اوورز سے 28 رنز لوٹے تھے۔

اس شاندار اوور اور اس کے بعد ہمالیہ جیسے ہدف کے تعاقب میں پہلی ہی گیند پر ایلسٹر کک کا کلین بولڈ ہونا بلاشبہ میچ کے بہترین لمحات تھے۔ گو کہ این بیل اور بین اسٹوکس نے پانچویں وکٹ پر 99 رنز جوڑ کے 'قربت مرگ میں کلمہ پڑھنے کی کوشش' ضرور کی اور اس کے بعد نوجوان اسٹوکس اپنے کیریئر کی پہلی سنچری تک بھی پہنچے، لیکن میدان میں موجود بارمی آرمی شائقین کے لیے مسرور کن لمحہ فراہم نہ ہوسکا اور پوری ٹیم 104 ویں اوور میں 353 رنز پر آؤٹ ہوکر مقابلہ اور ایشیز اعزاز آسٹریلیا کو تھما گئی۔

سیریز میں انگلستان کے بلے بازوں کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہونے والے مچل جانسن نے دوسری اننگز میں 4 وکٹیں اور مجموعی طور پر 6 وکٹیں حاصل کیں۔

اسٹیون اسمتھ کو پہلی اننگز میں شاندار سنچری اننگز کھیلنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

یہ تاریخ میں محض تیسرا موقع ہے کہ کسی ٹیم نے مسلسل تین فتوحات کے ذریعے ایشیز جیت لی ہے۔ اس سے قبل دونوں مرتبہ یہ کارنامہ بھی آسٹریلیا ہی نے انجام دیا جنہوں نے آخری مرتبہ 2006ء میں سیریز کے ابتدائی تینوں ٹیسٹ مقابلے جیت کر ایشیز اپنے نام کی تھی اور 1920ء کی تاریخ دہرائی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ دونوں مرتبہ آسٹریلیا نے انگلستان کو 'وائٹ واش' کیا، کیا اب ایک مرتبہ پھر ایسا ہی ہوگا؟ انتظار کیجیے 26 دسمبر سے ملبورن میں شروع ہونے والے 'باکسنگ ڈے' ٹیسٹ کا جہاں فتح کی صورت میں آسٹریلیا وائٹ واش سے محض ایک 'قدم' کے فاصلے پر رہ جائے گا۔