[خلق خدا] لنکا کیوں نہ ڈھائی جا سکی؟ آنکھوں دیکھا احوال

3 1,069

ایک زمانہ تھا کہ زمبابوے اور کینیا کے درمیان کھیلا جانے والامقابلہ نہ دیکھنے کا بھی افسوس ہوتا تھا اور اب خود پاکستان کے میچز نہ دیکھنے کادکھ نہیں ہوتا۔ لیکن پاک-سری لنکا سیریز کا دوسرا مقابلہ میدان میں جاکر دیکھنے سے دل میں کرکٹ کا وہی پرانا جنون جاگا اور گزرا زمانہ یاد آ گیا۔

نوجوان کھلاڑی کی آمد سے اب پاکستانی اننگز کے دھڑام سے گرنے کے امکانات کافی کم ہیں (تصویر: AFP)
نوجوان کھلاڑی کی آمد سے اب پاکستانی اننگز کے دھڑام سے گرنے کے امکانات کافی کم ہیں (تصویر: AFP)

ٹیلی وژن سکرین اور سٹیڈیم میں مقابلہ دیکھنے میں بہت فرق ہے، مخص چند زاویوں سے مخصوص نظارہ اور اس پر تبصرہ کاروں کی موجودگی، جبکہ اس کے مقابلے میں میدان میں جاکر دیکھنے سے کرکٹ کی حقیقی سمجھ آتی ہے۔

قومی کرکٹ ٹیم کی کاکردگی میں عدم تسلسل کو دیکھتے ہوئے پاکستانی شائقین کی امید پرستی ختم ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ مقابلے میں 300 سے زیادہ رنز بنانے والی ٹیم سے توقع تھی کہ 150 پر ہی ڈھیر ہوجائے گی لیکن نوجوانوں کی ٹیم میں آمد سے واقعی کھیل میں بہتری آئی ہے اور میری رائے میں ایک سال قبل کے مقابلے میں آج اننگز کے دھڑام سے گرنے کے امکانات کم از کم 70 فیصد تک کم ہو چکے ہیں۔

محمد حفیظ اور احمد شہزاد کے عمدہ کھیل کی بدولت پاکستان کو ایک اچھی بنیاد ملی لیکن مقابلے کے سری لنکا کے حق میں جھکنے کے بعد اکثر شائقین پاکستانی بلے بازوں کی سست روی کی شکایت کرتے نظر آئے۔ جس وکٹ پر سری لنکا باآسانی سعید اجمل اور شاہد آفریدی کے خلاف رنز بٹور رہا تھا، وہاں پاکستانی بلے باز حریف باؤلرز کے سامنے بے بس سے نظر آئے۔

بہرحال، پاکستان نے اچھا مجموعہ تو حاصل کرلیا لیکن فیلڈنگ اور باؤلنگ میں اس کی خامیاں واضح ہوکر سامنے آ گئی۔ سب سے عجیب بات، جو ٹیلی وژن اسکرین پر میچ دیکھنے کے دوران نظر نہیں آتی اور صرف میدان میں موجود تماشائی ہی محسوس کرسکتا ہے، وہ پاکستانی ٹیم کی فیلڈ سیٹنگ تھی۔ ہم مذاقاً کہتے تھے کہ کپتان کی فیلڈ سیٹنگ کی صلاحیت دیکھیں کہ جہاں گیند جاتی ہے اگلی گیند پر وہیں فیلڈر کھڑا کردیا جاتا ہے۔ شاید ہماری قومی نفسیات ہو، جیسا کہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آجانے کے بعد حفاظتی عملے کو چوکس کیا جاتا ہے، پہلے سے کوئی قدم شاذونادر ہی اٹھایا جاتا ہے۔ بہرحال، یہی منظر ہمیں دوسرے مقابلے میں دیکھنے کو ملا۔ کپتان مصباح الحق اتنا وسیع تجربہ رکھنے کے باوجود فیلڈ سیٹنگ میں مکمل بے بس نظر آئی۔ ایک جگہ سے فیلڈر کو نکال کر دوسری جگہ بھیجا گیا اور پھر جیسے ہی گیند اس طرف گئی، کھلاڑی بھی واپس اسی فیلڈ پر بھیج دیا گیا۔

ایسا لگ رہا تھا کہ مصباح پوری ٹیم کو خوش رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہر چوکے اور ہر چھکے کے بعد کبھی شاہد آفریدی، کبھی حفیظ اور کبھی عمر اکمل اپنے مشوروں کی پنڈاری لے کر مصباح کے پاس پہنچ جاتے اور ان کے مشوروں سے فیلڈ میں پھر تبدیلیاں کی جاتیں، کبھی باؤلنگ بدلی جاتی۔ بارہا ہونے والی مشوروں کی انہی نشستوں کی وجہ سے قومی ٹیم کو سلو اوور ریٹ پر جرمانہ لگایا گیا ہے۔ شاید مصباح بڑے کھلاڑیوں کو خوش رکھنا چاہتے ہیں، لیکن اس چکر میں کہیں شائقین ان سے خفا نہ ہوجائیں۔

پھر مصباح کی اپنی فیلڈنگ پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بڑھتی عمر کی وجہ سے ان کی پھرتی تو ختم ہوچکی ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ فیلڈ میں کوئی حصہ ڈالنے سے بھی قاصر نظر آئے اور ایک مرتبہ پھر بیک کے لیے یا تھرو پکڑنے کو نہیں دوڑے۔ شاہد انہی کا اثر ہےکہ ایک بار وکٹوں پر ماری گئی تھرو پکڑنے میں ناکامی کے بعد عمر اکمل کھلاڑی سے خفا ہونے لگے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر کھلاڑی کا وکٹ پر تھرو کرنا درست فعل سمجھا جاتا ہے جبکہ وکٹ کیپرکا کام اس تھرو کو پکڑنا ہوتا ہے، لیکن پارٹ ٹائم وکٹ کیپر کی کوئی قیمت تو چکانا ہوگی۔

باؤلنگ کے حوالے سے مصباح کا معاملہ عجیب و غریب تھا۔ اگر جنید آٹھویں اوور میں زخمی ہوکر میدان سے باہر نہ چلے جاتے تو شاید اگلے اوور میں وہ مزید ایک وکٹ گرا کر مقابلے کو پاکستان کو حق میں جھکا دیتے اور تمام باتیں کامیابی کی گرد میں چھپ جاتیں۔ لیکن بدقسمتی سے جنید کو میدان سے باہر جانا پڑا اور پاکستانی ٹیم کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ بلاول بھٹی کے پہلا اسپیل، جس میں دو میڈن اوورز شامل تھے، جس اینڈ سے کروایا گیا، انہیں دوسرے اسپیل میں مخالف اینڈ سے لایا گیا اور یہیں وہ پٹ گئے۔ جنید نے 9 اوور توایک اینڈ سے کیے لیکن دسواں اور آخری اوور،جو میچ کا 49 واں اوور بھی تھا، انہیں دوسرے اینڈ سے دیا گیا۔ شاہد آفریدی جو پٹ رہے تھے کو باؤلنگ کے لیے دوبارہ بلایا گیا، لیکن حفیظ جو رنز روکنے میں کامیاب ہو رہے تھے، کے اوورز مکمل نہ کروائے گئے۔

جہاں تک سہیل تنویر کی بات ہے تو نجانے کیوں قومی ٹیم کے کرتا دھرتا نئے کھلاڑیوں کو مواقع دینےمیں بخیل ہوجاتے ہیں۔ کتنا ہی عرصہ عمر امین کو ساتھ لیے لیے پھرے اور جب صہیب مقصود اور شرجیل خان آ گئے تو دھڑا دھڑ عمر امین کو مواقع دینے لگے لیکن شاید تب تک وہ اعتماد کھو چکےتھے اور ناکام ہوکر باہر ہی ہوگئے۔ اب یہی معاملہ باؤلرز کے ساتھ ہے کہ اب سہیل تنویر کو ساتھ لیے پھرتے ہیں جبکہ انو رعلی باہر بیٹھے ہیں۔ ذوالفقار بابر اور رضا حسن کو چھوڑ کر عبد الرحمٰن کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ نجانے کب سیکھیں گے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، بس آزمائش شرط ہے۔

بحیثیت مجموعی قومی کرکٹ ٹیم کا مائنڈ سیٹ نظر نہیں آتا،وہ کیا سوچتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں، معلوم نہیں لیکن اگر مصباح کو کسی دباؤ کو سامنا ہے تو بہتر یہی ہے کہ وہ باہر بیٹھ جائیں لیکن یاد رہے کہ مصباح کی عدم موجودگی میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو قیادت سنبھال سکے۔