[ریکارڈز] اعصاب شکن لیکن بے نتیجہ مقابلے

1 1,095

جنوبی افریقہ کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے ہدف کے کامیاب تعاقب کا ریکارڈ نہ توڑ پایا لیکن 458 رنز کے پیچھے دوڑتے ہوئے مقابلے کو اعصاب شکن حد تک ضرور لے گیا اور بلاشبہ جنوبی افریقہ - بھارت جوہانسبرگ ٹیسٹ تاریخ کے بہترین مقابلوں میں شمار ہوگا۔

یہ منظر شائقین کرکٹ تادیر نہیں بھول پائیں گے، ایک رن آؤٹ اور جیتی ہوئی بازی ہاتھ سے نکل گئی (تصویر: AFP)
یہ منظر شائقین کرکٹ تادیر نہیں بھول پائیں گے، ایک رن آؤٹ اور جیتی ہوئی بازی ہاتھ سے نکل گئی (تصویر: AFP)

بھارت کے خلاف پہلے ٹیسٹ کے آخری روز جنوبی افریقہ کو اپنے آخری مستند بلے باز فف دو پلیسی کی وکٹ اس وقت گنوانا پڑی جب وہ نیا عالمی ریکارڈ قائم کرنے سے محض 16 رنز کے فاصلے پر تھی اور اس کے بعد بقیہ تین اوورز میں ویرنن فلینڈر اور ڈیل اسٹین نے بقیہ وکٹیں اور ساتھ ساتھ مقابلہ بچانے کی کوشش کی۔ جب میچ ختم ہوا تو اسکور بورڈ پر 450 رنز کا ہندسہ جگمگا رہا تھا، یعنی کہ فتح سے صرف 8 رنز کی دوری !

ٹیسٹ کو کرکٹ کا سب سے دھیما و سست روپ سمجھا جاتا ہے، جہاں 5 دن کی تگ و دو بھی لاحاصل ہوجاتی ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ مقابلہ نتیجہ خیز ہو۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے چند مقابلے تو ایسے بھی ہیں جو سنسنی خیزی کے لحاظ سے محدود اوورز کے کسی بھی میچ کی طرح تھے، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ہیجان انگیز مرحلے تک پہنچے کے باوجود وہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے۔

ہم کرک نامہ قارئین کے لیے ایسے ہی چند مقابلوں کا احوال پیش کر رہے ہیں، امید ہے دلچسپی لیں گے۔

بھارت بمقابلہ ویسٹ انڈیز، ممبئی ٹیسٹ، 2011ء

سب سے قریبی معاملہ محض ایک رن کا رہا ہے اور تاریخ میں صرف دو مقابلے اس حال میں بغیر کسی نتیجے تک پہنچے ختم ہوئے کہ بلے بازی کرنے والی ٹیم ہدف سے صرف ایک رن کے فاصلے پر تھی یعنی کہ دونوں ٹیموں کا اسکور برابر۔ ان میں سے ایک مقابلہ تو کرکٹ شائقین کے ذہنوں میں بالکل تازہ ہوگا۔ نومبر 2011ء کے اختتامی ایام میں کھیلا گیا بھارت-ویسٹ انڈیز ممبئی ٹیسٹ، جس میں میزبان بھارت کو آخری گیند پر دو رنز درکار تھے اور روی چندر آشون دوسرا رن لینے کی کوشش میں رن آؤٹ ہوگئے۔ یوں مقابلہ کسی نتیجے تک نہ پہنچا۔ اس مقابلے کو ویسٹ انڈیز کی اخلاقی فتح کہہ سکتے ہیں کیونکہ ابتدائی دونوں مقابلوں میں بدترین شکست کے بعد بھارت جیسے سخت حریف کو اسی کے میدانوں میں اس مقام تک لے جانا بہت بڑی بات ہے۔

زمبابوے بمقابلہ انگلستان بلاوایو ٹیسٹ، 1996ء

کرکٹ تاریخ کا پہلا مقابلہ جو اسکور برابر ہونے کے ساتھ ڈرا قرار پایا (کیونکہ مقابلہ اسی صورت میں ٹائی ہو سکتا ہے جب اسکور برابر ہونے کی صورت میں آخری یعنی 10 ویں وکٹ بھی گرجائے)۔ 1996ء میں انگلستان اور زمبابوے کے درمیان بلاوایو میں کھیلا گیا۔ ماہ دسمبر کے انہی ایام میں کھیلا جانے والا یہ مقابلہ انگلستان کے موجودہ کوچ اینڈی فلاور کی سنچری کی بدولت زمبابوے کے 376 رنز اور جواب میں انگلستان کی جانب سے ناصر حسین اور جان کرالی کی سنچریوں سے بنائے گئے 406 رنز کے بعد ممکنہ طور پر ڈرا کی جانب جاتا دکھائی دیتا تھا لیکن دوسری اننگز میں زمبابوے کے 234 رنز پر ڈھیر ہوجانے کے بعد انگلستان کو 37 اوورز میں 205 رنز کا ہدف ملا جو نک نائٹ اور ایلک اسٹیورٹ کی شاندار بلے بازی کی بدولت جیت کے بہت قریب پہنچ گیا تھا۔ انگلستان کو آخری اوور میں 11 رنز کی ضرورت تھی اور تیسری ہی گیند کو نک نائٹ نے چھکے کی راہ دکھا دی۔ معاملہ آخری گیند پر تین رنز تک پہنچ گیا لیکن یہاں نک نائٹ چوکا نہ لگا سکے اور دیوانہ وار تیسرا رن دوڑتے ہوئے رن آؤٹ ہوگئے۔ یوں یہ تاریخ کا پہلا مقابلہ بن گیا جو اسکور برابر ہونے کے ساتھ ڈرا تک پہنچا۔

انگلستان بمقابلہ پاکستان، برمنگھم، 1987ء

وسیم اکرم اور عمران خان کی باؤلنگ اور شاندار فیلڈنگ کی بدولت تین رن آؤٹس نے انگلستان کو ہدف کے قریب پہنچنے پر بھی فتح سے محروم رکھا (تصویر: Getty Images)
وسیم اکرم اور عمران خان کی باؤلنگ اور شاندار فیلڈنگ کی بدولت تین رن آؤٹس نے انگلستان کو ہدف کے قریب پہنچنے پر بھی فتح سے محروم رکھا (تصویر: Getty Images)

عمران خان کی زیر قیادت مشہور دورۂ انگلستان کا وہ چوتھا ٹیسٹ، جس میں پاکستان نے فتح انگلستان کے جبڑوں سے نکال لی۔ ایجبسٹن کی بلے بازی کے لیے سازگار وکٹ پر پاکستان نے پہلے بلے بازی کی اور مدثر نذر کی سنچری اور وکٹ کیپر سلیم یوسف کے ناقابل شکست 91 رنز کی بدولت پہلی اننگز میں 439 رنز بنائے۔ انگلستان نے 'نہلے پہ دہلا' پھینکا کپتان مائیک گیٹنگ کی سنچری اور باقی بلے بازوں کے بھرپور ساتھ کی بدولت 521 رنز بنا ڈالے۔ پہلی اننگز میں 82 رنز کے خسارے کے بعد پاکستان کو دوسری باری میں نائیل فوسٹر کے ہاتھوں سخت مشکلات سہنا پڑیں۔ پانچویں روز کھانے کے وقفے تک سکون سے کھیلنے والا پاکستان فوسٹر کے ہاتھوں شعیب محمد، منصور اختر، جاوید میاندان اور عمران خان کی قیمتی وکٹیں گنوا بیٹھا اور پھر صرف 205 تک محدود ہوگیا۔ انگلستان کو آخری 18 اوورز میں 124 رنز کا ہدف ملا ، جس کا تعاقب اس نے بہت تیزی سے شروع کیا۔ کرس براڈ نے 23 گیندوں پر 30 رنز بنائے لیکن وسیم اکرم اور عمران خان کی باؤلنگ اور پاکستانی فیلڈرز کے ہاتھوں تین انگلش کھلاڑیوں کے رن آؤٹ نے انگلستان کو پچھلے قدموں پر دھکیل دیا۔ مقررہ اوورز کے اختتام تک وہ 7 وکٹوں پر109 تک ہی پہنچ پایا۔ پاکستانی باؤلرز نے دوسری اننگز میں بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کو چھپا لیا۔ انگلستان ہدف سے 15 رنز کے فاصلے پر منہ تکتا رہ گیا۔

انگلستان بمقابلہ آسٹریلیا، کارڈف ٹیسٹ، 2009ء

ایشیز سیریز 2009ء کا پہلا ٹیسٹ، جو کارڈف کے صوفیہ گارڈنز میں کھیلا گیا اولین ٹیسٹ مقابلہ بھی تھا، سنسنی خیز مراحل طے کرنے کے بعد برابری پر ختم ہوا۔ میزبان انگلستان کے پہلے اننگز کے 435 رنز کے جواب میں آسٹریلیا نے چار کھلاڑیوں کی سنچریوں کی بدولت 674 رنز کا ہمالیہ کھڑا کردیا۔ کپتان رکی پونٹنگ نے 150 رنز بنائے جبکہ سائمن کیٹچ 122، بریڈ ہیڈن 121 اور مارکوس نارتھ 125 رنز بنانے میں کامیاب رہے۔ 239 رنز کی بھاری بھرکم برتری کے بعد انگلستان شکست کے دہانے پر پہنچ گیا۔ 74 رنز کے ساتھ پال کولنگ ووڈ وہ واحد بلے باز تھے جو پہاڑ کی طرح آسٹریلیا کی باؤلنگ کے سامنے ڈٹے رہے۔ 245 گیندوں پر مشتمل یہ اننگز 344 منٹ تک محدود رہی اور دوسرے اینڈ سے انہیں کسی کا ساتھ میسر نہ آیا۔ سرفہرست تین بلے باز تو دہرے ہندسے میں بھی نہ جا سکے لیکن عین اس وقت جب انگلستان پہلی اننگز کا خسارہ کم کرنے سے صرف 6 رنز کے فاصلے پر تھا پال کولنگ ووڈ آؤٹ ہوگئے۔ اب آسٹریلیا کو صرف ایک ایسی گیند کی ضرورت تھی جو دو غیر مستند بلے بازوں میں سے کسی ایک کی وکٹ حاصل کرجائے۔ لیکن جمی اینڈرسن اور مونٹی پنیسر نے اپنے کرکٹ کیریئر کی یادگار ترین باریاں کھیلیں اور 70 گیندوں تک حملہ آور آسٹریلوی باؤلرز کا سامنا کیا اور وکٹ بچا کر مقابلہ ڈرا کردیا۔ اینڈرسن نے 53 گیندیں کھیلیں اور 21 رنز بنائے اور مونٹی 35 گیندوں پر 7 رنز کے ساتھ ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔

انگلستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز، پورٹ آف اسپین ٹیسٹ ، 2009ء

انگلستان بہت قریب پہنچا لیکن جیت نہ سکا (تصویر: Getty Images)
انگلستان بہت قریب پہنچا لیکن جیت نہ سکا (تصویر: Getty Images)

ماضی قریب میں ایسا شاذونادر ہی ہوا ہے کہ ویسٹ انڈیز کو عالمی درجہ بندی میں خود سے اوپر کسی حریف کے مقابلے میں سیریز میں برتری حاصل ہوئی ہو لیکن مارچ 2009ء میں انگلستان کے خلاف سیریز کا پانچواں اور آخری ٹیسٹ اس عالم میں شروع ہوا کہ ویسٹ انڈیز کی برتری 1-0 کی تھی۔ پہلی اننگز میں انگلستان کے 546 رنز کے جواب میں ویسٹ انڈیز نے کرس گیل، برینڈن ناش اور شیونرائن چندرپال کی سنچریوں کی بدولت 544 رنز اکٹھے کر دیے ۔ انگلستان کو سیریز شکست واضح نظر آ رہی تھی اور اس نے آخری کوشش کے طور پر تیز رفتار بلے بازی کا مظاہرہ کرکے مقابلہ بچانے کی کوشش کی۔ کیون پیٹرسن کی 92 گیندوں پر سنچری اور میٹ پرائیر کی 49 گیندوں پر 61 رنز کی اننگز نے انگلستان کو کچھ ہی دیر میں 237 رنز تک پہنچا دیا۔ انگلستان نے فوری طور پر اننگز ڈکلیئر کی اور ویسٹ انڈیز کو بقیہ دو سیشنز میں 240 رنز کا ہدف دے ڈالا۔ 80 رنز پر 3 کھلاڑی آؤٹ ہونا میزبان کے لیے اتنا متاثر کن اسکور تو نہیں تھا لیکن انگلستان کے لیے تشویشناک ضرور تھا۔ اس کی آخری کوشش کامیاب ہوئی اور ویسٹ انڈین مڈل آرڈر کی دھجیاں بکھیر دیں۔ 109 رنز تک پہنچتے پہنچتے ویسٹ انڈیز اپنی 8 وکٹوں سے محروم ہو چکا تھا۔ اس مقام پر فیڈل ایڈورڈز اور دنیش رام دین نے 25 گیندوں تک مزید کوئی وکٹ نہ گرنے دی اور انگلستان صرف دو وکٹیں حاصل نہ کرنے کی وجہ سے سیریز ہار گیا۔

انگلستان بمقابلہ بھارت، اوول ٹیسٹ، 1979ء

سنیل گاوسکر کی یادگار ترین اننگز میں سے ایک، لیکن بھارت نے 'نہ جیتیں گے، نہ جیتنے دیں گے' والا کام کیا۔ انگلستان کے 305 رنز کے جواب میں بھارت پہلی اننگز میں این بوتھم اور باب ولس کی تباہ کن باؤلنگ کی تاب نہ لا سکا اور 202 رنز پر ڈھیر ہوگیا ۔پھر انگلستان نے اگلی باری میں 334 رنز جڑ کر مہمان ٹیم کے لیے سخت مشکلات کھڑی کردیں۔انگلش کپتان مائیک بریئرلے نے چوتھے روز کے اختتامی سیشن میں بھارت کو 438 رنز کا ہدف حاصل کرنے کی دعوت دی۔

سنیل گاوسکر کی اننگز بھارت کو ریکارڈ ہدف کے تعاقب کے بہت قریب لے گئی لیکن آخر میں میچ بچانے کے بھی لالے پڑ گئے (تصویر: Getty Images)
سنیل گاوسکر کی اننگز بھارت کو ریکارڈ ہدف کے تعاقب کے بہت قریب لے گئی لیکن آخر میں میچ بچانے کے بھی لالے پڑ گئے (تصویر: Getty Images)

بھارت نے پچھلی اننگز کے بالکل برعکس کارکردگی دکھائی بالخصوص سنیل گاوسکر نے۔ انہوں نے چیتن چوہان کے ساتھ چوتھے دن مزید کوئی وکٹ نہ گرنے دی اور اگلے یعنی آخری دن پہلی وکٹ پر اسکور کو 213 رنز تک پہنچا دیا جبکہ دوسری وکٹ پر مزید دلیپ وینگسارکر کے ساتھ مل کر مزید 153 رنز جوڑ کر انگلستان کے چھکے چھڑا دیے۔
جب آخری روز چائے کا وقفہ ہوا تو بھارت کا اسکور 304 رنز تھا، وہ بھی صرف ایک وکٹ کے نقصان پر۔ اسے آخری سیشن میں مزید 134 رنز کی ضرورت تھی اور 9 وکٹیں باقی تھیں اور معاملہ آخری 20 اوورز میں 110 رنز درکار تک پہنچ گیا۔ بھارت کو 366 کے مجموعے پر نہ صرف وشوناتھ بلکہ پے در پے کپل دیو اور گاوسکر کی قیمتی وکٹیں بھی گنوانی پڑیں لیکن پھر بھی ہدف حاصل کیا جا سکتا تھا اور اس کی جانب پیشقدمی جاری بھی رہی یہاں تک کہ اسکور 410 رنز پر پہنچ گیا لیکن گنڈاپاوشوناتھ کے آؤٹ ہونے کے بعد این بوتھم نے اپنا جادو جگایا اور باؤلنگ اور فیلڈنگ کے ذریعے یاجروندرا سنگھ، وینکٹ راگھون اور یشپال شرما کو آؤٹ کرکے بھارت کو پچھلے قدموں پر دھکیل دیا۔ آخری اوور میں بھارت کو 15 رنز کی ضرورت تھی لیکن 8 گرنے سے اس کا حال ویسا ہی ہوگیا تھا جیسا کہ گزشتہ روز کھیلے گئے بھارت – جنوبی افریقہ مقابلے کا تھا۔ بہرحال، مقابلہ کسی نتیجے تک پہنچے بغیر ختم ہوا اور بھارت ہدف سے صرف 8 رنز کے فاصلے پر کھڑا رہ گیا۔

انگلستان بمقابلہ آسٹریلیا، اولڈ ٹریفرڈ ، 2005ء

2005ء کی تاریخی ایشیز سیریز کا وہ مقابلہ جسے آسٹریلیا کے سابق کپتان رکی پونٹنگ نے اپنے کیریئرکا یادگار ترین میچ قرار دیا تھا۔ 1-1 کی برابری کے ساتھ شروع ہونے والے اس تیسرے ٹیسٹ میں انگلستان بہت مضبوط پوزیشن آ گیا تھا۔ پہلی اننگز میں کپتان مائیکل وان کی سنچری کی بدولت 444 رنز اور جواب میں سائمن جونز کے ہاتھوں آسٹریلیا کے صرف 302 پر ڈھیر ہوجانے کے بعد انگلستان نے اینڈریو اسٹراس کی سنچری اور این بیل کی نصف سنچریوں کے ساتھ 280 رنز 6 کھلاڑی آؤٹ پر اننگز ڈکلیئر کردی اور آسٹریلیا کو جیتنے کے لیے 423 رنز کا ناممکن ہدف دیا۔

یہ ہدف انگلستان کی شاندار باؤلنگ کی بدولت ناممکن ہی دکھائی دیتا تھا لیکن آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ ڈٹ گئے۔ انہوں نے تن تنہا مقابلہ جتوانے کی کوشش کی، وہ بھی اس صورت میں کہ آسٹریلیا 182 رنز پر 5 وکٹیں گنوا چکا تھا۔ لیکن مائیکل کلارک اور شین وارن کے مختصر ساتھ کی بدولت وہ اسکور کو 354 تک لے جانے میں کامیاب ہوگئے جہاں اسٹیو ہارمیسن کے ہاتھوں رکی کی اننگز کا خاتمہ ہوگیا۔ 275 گیندوں پر 156 رنز کی اننگز تمام ہوئی تو انگلستان سیریز میں برتری سے صرف ایک وکٹ کے فاصلے پر آ گیا۔ اب تمام تر انحصار بریٹ لی اور گلین میک گرا کی آخری جوڑی پر تھا کہ وہ مقابلہ بچائیں اور انہوں نے آخری 4 اوورز کھیل کر ایسا کر دکھایا۔

جنوبی افریقہ بمقابلہ انگلستان، جوہانسبرگ ٹیسٹ، 1995ء

مائیک ایتھرٹن کی 492 گیندوں پر 185 رنز کی ناقابل شکست اننگز اور جیک رسل کے بھرپور ساتھ نے انگلستان کو یقینی شکست سے بچا لیا (تصویر: Getty Images)
مائیک ایتھرٹن کی 492 گیندوں پر 185 رنز کی ناقابل شکست اننگز اور جیک رسل کے بھرپور ساتھ نے انگلستان کو یقینی شکست سے بچا لیا (تصویر: Getty Images)

اب انگلستان کے کپتان مائیکل ایتھرٹن کے کیریئر کی بہترین اننگز کا احوال۔ نومبر اور دسمبر 1995ء میں جوہانسبرگ کے نیو وینڈررز اسٹیڈیم میں ہونے والے مقابلے میں 479 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انگلستان نے تہیہ کرلیا تھا کہ اس نے ہدف کے بچائے میچ کو بچانے پر ترجیح دینی ہے۔ 165 اوورز کھیلنا مذاق نہیں تھا اور ایتھرٹن سے زیادہ یہ بات کون جانتا ہوگا؟ 643 منٹوں تک وہ ایلن ڈونلڈ، شان پولاک، میرک پرنگل، برائن میک ملن اور دیگر باؤلرز کے سامنے ڈٹے رہے۔ اس صورتحال میں کہ انگلستان 232 رنز پر آدھی ٹیم گنوا چکا تھا۔ انہوں نے وکٹ کیپر جیک رسل کے ساتھ چھٹی وکٹ پر 119 ناقابل شکست رنز جوڑ کر بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم سینکڑوں گیندیں ضایع کرکے جنوبی افریقہ کو سیریز میں برتری لینے سے روک دیا۔

ایتھرٹن نے 492 گیندوں پر 29 چوکوں کی مدد سے 185 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی جبکہ جیک رسل نے صرف 29 رنز بنانے کے لیے 235 گیندوں کا سامنا کیا ۔

آسٹریلیا بمقابلہ انگلستان، سڈنی ٹیسٹ، 1995ء

عظیم اسپنر شین وارن اپنے کیریئر میں کئی مرتبہ آسٹریلیا کو اپنی باؤلنگ کے ذریعے جتوا چکے ہیں لیکن سال 1995ء کے آغاز کے ساتھ شروع ہونے والے ٹیسٹ میں انہوں نے اپنی بیٹنگ کے ذریعے انگلستان کو ایک یقینی فتح سے محروم کردیا۔

انگلستان کے 309 رنز کے جواب میں ڈیرن گف کی عمدہ باؤلنگ کے سامنے 116 رنز پر ڈھیر ہونے والے آسٹریلیا کو انگلستان نے دوسری اننگز میں 255 رنز جوڑنے کے بعد جیتنے کے لیے 449 رنز کا ہدف دیا۔ ایک ادھڑی ہوئی پچ پر پانچ سیشنز تک کھیلنا بڑے دل گردے کا کام تھا اور اوپنرز مارک ٹیلر اور مائیکل سلیٹر نے 139 رنز بنا کر ظاہر کردیا کہ آسٹریلیا کے ارادے مقابلے کو برابر کرنے کے نہیں بلکہ ریکارڈ ہدف کو عبور کرنے کے ہیں۔

دونوں سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے لیکن مطلع ابر آلود ہونے کے بعد یکدم کنڈیشنز انگلستان کے حق میں چل گئیں جس کے تیز باؤلر اینگس فریزر نے آسٹریلیا کے مڈل آرڈر پر ہاتھ صاف کردیا۔ ابتدا میں مائیکل سلیٹر کی وکٹ لینے والے فریزر نے بعد ازاں مائیکل بیون، اسٹیو واہ، مارک واہ اور این ہیلی کو ٹھکانے لگا کر آسٹریلیا کو لب گور تک پہنچا دیا۔ 7 وکٹیں گنوا بیٹھنے کے بعد اب آخری سیشن کا مقابلہ جاری تھا اور کریز پر دو اسپنرز شین وارن اور ٹم مے موجود تھے جنہوں نے آٹھویں وکٹ پر 52 رنز بھی جوڑے اور مزید کوئی وکٹ گرنے سے بھی روکے رکھی۔مزیدار بات یہ ہے کہ جب امپائروں نے مقابلے کے خاتمے کا ایک اعلان کیا تو درحقیقت ایک اوورابھی باقی تھا 🙂