[سالنامہ 2013ء] مزاحمت کا سال، پے در پے شکستیں اور پھر یادگار فتوحات

2 1,051

ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے "کارنامے" تو آپ نے ملاحظہ کر ہی لیے ہوں گے کہ قومی ٹیم سال 2013ء میں کیا گل کھلاتی رہی ہے لیکن حیران کن طور پر پاکستان کی محدود طرز کی کرکٹ میں کارکردگی گزشتہ سال کی نسبت کافی بہتر رہی۔ گو کہ سال کے اہم ترین ٹورنامنٹ چیمپئنز ٹرافی میں بدترین شکست اور جنوبی افریقہ کے خلاف سال میں دو مرتبہ ون ڈے سیریز میں شکست نے سب "کارناموں" کو گہنا دیا لیکن پھر بھی ٹیسٹ میں پورا سال فتوحات سے محروم رہنے والی ٹیم کی جانب سے سال میں 7 سیریز جیتنا اور انفرادی سطح پر سال کے بہترین بیٹسمین اور بہترین باؤلرز میں سرفہرست آنا ایک معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے لیے سال کا اس سے بہترین آغاز نہیں ہو سکتا تھا، بھارت کے خلاف بھارت میں تاریخی سیریز فتح (تصویر: BCCI)
پاکستان کے لیے سال کا اس سے بہترین آغاز نہیں ہو سکتا تھا، بھارت کے خلاف بھارت میں تاریخی سیریز فتح (تصویر: BCCI)

ایک روزہ کرکٹ میں پاکستان کے لیے سال کا آغاز ہی بہت یادگار تھا، جب پاکستان نے روایتی حریف بھارت کو اسی کی سرزمین پر تاریخی شکست دی۔ نئے سال کے تیسرے دن یعنی 3 جنوری 2013ء کو کولکتہ میں کھیلا گیا پاک-بھارت دوسرا ون ڈے پاکستان نے باآسانی 85 رنز سے جیت کر سیریز میں 2-0 کی فیصلہ کن برتری حاصل کی۔ اس مقابلے میں پاکستان کے اوپنر ناصر جمشید نے مسلسل دوسری سنچری اسکور کی اور بعد ازاں پاکستان نے جنید خان اور عمر گل کی تباہ کن باؤلنگ کی بدولت 251 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنے والے بھارت کو 165 پر ڈھیر کردیا۔ یوں پاکستان تین سال کے عرصے بھارت کو خود اس کے میدانوں پر شکست دینے والی واحد ٹیم بن گیا۔ گو کہ پاکستان دہلی میں ہونے والا آخری مقابلہ اپنے ہاتھ سے گنوا بیٹھا لیکن 2-1 سے سیریز فتح حاصل کرنا ایک کارنامے سے کم نہ تھا۔

سال کے اس یادگار آغاز کے بعد پاکستان کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنوبی افریقہ پہنچتے ہی ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ شکست نے حوصلوں کو نچلی ترین سطح پر پہنچا دیا۔ ایک روزہ مرحلے کا آغاز بلوم فاؤنٹین میں 125 رنز کی بدترین شکست کے ساتھ ہوا اور پھر پاکستان دو مرتبہ واپس آ کر بھی حتمی و فیصلہ کن مقابلے میں، ہمیشہ کی طرح، ہار گیا اور جنوبی افریقہ 3-2 سے جیت گیا۔

اس دورے کے بعد پاکستان نے دنیا کی 8 بہترین ٹیموں کے مقابل سال کا سب سے اہم ٹورنامنٹ کھیلنا تھا یعنی اپنے سلسلے کی آخری چیمپئنز ٹرافی۔ جو جون کے مہینے میں انگلستان میں کھیلی گئی۔ یہاں پاکستان روایتی حریف بھارت، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ گروپ 'بی' میں تھا۔ ٹورنامنٹ سے قبل پاکستان نے اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے دورے کیے اور دو، دو مقابلوں کی سیریز ایک-صفر سے جیتی۔ پاکستان کی ٹیم کی 'مضبوطی' کا اندازہ آئرلینڈ ہی میں ہوگیا تھا جہاں پہلے ون ڈے میں مقابلہ ٹائی ہوا بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ پاکستان شکست سے بال بال بچ گیا۔ پاکستان 276 رنز کے اچھے بھلے ہدف کا دفاع کرنے میں تقریباً ناکام ہوچکا تھا بس ڈک ورتھ لوئس نے پاکستان کو شکست سے بچا لیا اور مقابلہ ٹائی قرار پایا۔ پھینکے گئے آخری اوور میں سعید اجمل نے 14 رنز دیے اور آخری گیند پر چوکے کی وجہ سے مقابلہ برابری کی بنیاد پر ختم ہوا۔ مجموعیطور پر پاکستان نے آخری 47 گیندوں پر 84 رنز کی مار کھائی، جی ہاں! آئرلینڈ کے ہاتھوں۔

اس 'شاندار تیاری' کے بعد پاکستان کا پہلا مقابلہ چیمپئنز ٹرافی کے دوسرے ہی دن 'کالی آندھی' سے تھا اوریہیں انگلش کنڈیشنز میں پاکستانی بیٹنگ صلاحیتوں کی قلعی کھل گئی۔ پہلے مقابلے میں ویسٹ انڈیز جیسے نسبتاً مقابل کے سامنے بھی ٹیم صرف 170 رنز جوڑ سکی۔ جس کے بعد باؤلرز کی جان توڑ محنت بھی پاکستان کو مقابلہ نہ جتوا سکی اور ویسٹ انڈیز 2 وکٹوں سے جیت کر پاکستان کو ان قیمتی پوائنٹس سے محروم کرگیا، جن کے حاصل ہونے کی سب سے زیادہ امید تھی۔

11 جون کو پاکستان کا مقابلہ گروپ کے سخت ترین حریف جنوبی افریقہ سے ہوا اور نتیجہ وہی 'ڈھاک کے تین پات'۔باؤلرز نے جنوبی افریقہ کو 234 رنز تک محدود کردیا لیکن پاکستان کے بلے باز، ایک مرتبہ پھر سوائے مصباح الحق کے، کوئی مزاحمت نہ کرسکے اور ٹیم اس مرتبہ گزشتہ مقابلے سے بھی کم اسکور یعنی 167 رنز پر آؤٹ ہوکر چیمپئنز کی دوڑ سے تقریباً باہر ہوگئی۔ وہ پاکستان جسے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے فیورٹ ترین ٹیموں میں شمار کیا جا رہا تھا، باہر ہونے والی پہلی ٹیم بن گیا۔ وارم اپ میں دکھائی گئی دھواں دار کارکردگی، اصل مقابلے میں نہ دہرائی جا سکی اور برمنگھم میں ہزاروں پاکستانی تماشائی منہ لٹکائے میدان سے لوٹ آئے۔

پاکستانیوں کے لیے سال کا مایوس کن ترین لمحہ، چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کے ہاتھوں شکست اور ٹورنامنٹ سے بغیر کوئی مقابلہ جیتے باہر ہونا (تصویر: ICC)
پاکستانیوں کے لیے سال کا مایوس کن ترین لمحہ، چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کے ہاتھوں شکست اور ٹورنامنٹ سے بغیر کوئی مقابلہ جیتے باہر ہونا (تصویر: ICC)

پھر 15 جون کا وہ دن آیا، جس کا انگلستان میں مقیم پاکستانیوں کو کئی ماہ سے انتظار تھا۔ گو کہ پاکستان کے اگلے مرحلے تک پہنچنے کے امکانات ختم ہوچکے تھے، لیکن روایتی حریف بھارت سے مقابلہ چاہے کسی کام کا نہ ہو، اس کی کشش اپنی ہوتی ہے اور ایسا ہی برمنگھم میں ہوا جہاں ایک مرتبہ پھر ہزاروں تماشائیوں پاک-بھارت مقابلہ دیکھنے آئے لیکن مایوس ہی لوٹے۔ بارش سے متاثرہ مقابلے میں بھارت نے باآسانی 9 وکٹوں سے فتح حاصل کی اور یوں پاکستان ٹورنامنٹ کی واحد ٹیم رہا، جسے کوئی مقابلہ جیتنے کی توفیق نہیں ملی اور 8 ٹیموں میں اس نے آٹھواں نمبر حاصل کیا۔ پاکستان اس میچ ایک مرتبہ پھر 170 تک پہنچنے میں بھی ناکام رہا اور پوری ٹیم 40 اوورز سے بھی پہلے 165 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی ۔ بھارت کو آخر میں 22 اوورز میں 102 رنز کا ہدف ملا جو اس نے 20 ویں اوور ہی میں مکمل کرکے پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔

ایسا لگتا تھا کہ ٹیسٹ کے بعد پاکستان کے لیے ایک روزہ کرکٹ میں بھی یہ ایک بھیانک سال ثابت ہوگا۔ لیکن مصباح الیون بہت ہی شاندار انداز میں واپس آئی۔ دورۂ ویسٹ انڈیز میں اس کے وہ تمام 'پرزے' چلے، جو انگلستان میں ناکام ہوئے تھے۔ جولائی کے وسط میں ہونے والے پاک-ویسٹ انڈیز پہلے ون ڈے میں شاہد آفریدی کے 55 گیندوں پر 76 رنز اور پھر 12 رنز دے کر 7 وکٹوں نے ایک یادگار کامیابی دلائی، اسے ایک روزہ کرکٹ تاریخ کی بہترین آل راؤنڈ کارکردگی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کے بعد پاکستان کو دوسرے ون ڈے میں وہاب ریاض کی بدترین کارکردگی کی وجہ سے جیتا ہوا مقابلہ گنوانا پڑا، گو کہ پاکستان ہارا نہيں لیکن جیتا بھی نہیں کیونکہ میچ ٹائی ہوگیا تھا۔ تین میچز گزرجانے کے بعد بھی سیریز 1-1 سے برابر تھی اور اس موقع پر پاکستان نے اپنے اوسان بحال کرتے ہوئے آخری دونوں مقابلے میں شاندار انداز میں کامیابی حاصل کی۔ بالخصوص چوتھے ون ڈے میں جس طرح پاکستان نے دن کے ابتدائی نصف حصے میں جدوجہد کی اور بعد ازاں آخری 14 اوورز میں درکار 121 رنز کا کامیابی سے تعاقب کیا، وہ پاکستان کے دلیرانہ مزاج کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا۔ سیریز کے آخری مقابلے میں اعصاب شکن معرکہ آرائی دیکھنے میں آئی اور بالآخر پاکستان نے 4 وکٹوں سے فتح حاصل کرکے سیریز 3-1 کے واضح مارجن سے جیت لی۔

شاندار فتوحات کے نشے میں چور پاکستان کو اس کے بعد دو زبردست دھچکے لگے۔ زمبابوے کے خلاف ایک روزہ سیریز میں کلین سویپ کرنے میں ناکامی اور پھر جنوبی افریقہ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں 4-1 کے بدترین مارجن کی شکست، قومی ٹیم ایک مرتبہ پھر عرش سے فرش پر پہنچ گئی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ تھی، کیونکہ اس میں دو مرتبہ قومی ٹیم جیت کے بہت نزدیک پہنچی لیکن ہمت و حوصلہ ہار بیٹھی یہاں تک کہ آخری ون ڈے میں 117 رنز کی بھاری بھرکم شکست سے دوچار ہوئی۔

پاکستان نے دورۂ ویسٹ انڈیز میں ایک روزہ سیریز شاندار انداز میں جیتی (تصویر: WICB)
پاکستان نے دورۂ ویسٹ انڈیز میں ایک روزہ سیریز شاندار انداز میں جیتی (تصویر: WICB)

پاک-جنوبی افریقہ سیریز میں پاکستان کو دو مرتبہ موقع ملا کہ وہ جیت کر سیریز میں برتری حاصل کرے جیسا کہ پہلے اور چوتھے مقابلے میں لیکن دونوں مرتبہ پاکستان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ سیریز کے پہلے مقابلے میں تو پاکستان نے حد ہی کردی۔ 184 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 165 رنز پر اس کے صرف 4 کھلاڑی آؤٹ تھے لیکن 19 رنز پاکستان کے لیے ہمالیہ ثابت ہوئے اور بالآخر جنوبی افریقہ 1 رن سے مقابلہ جیت کر سیریز میں برتری حاصل کرگیا۔ اس مایوس کن کارکردگی کا ازالہ دوسرے ون ڈے میں پاکستانی باؤلرز نے بخوبی کیا جب 209 رنز کے دفاع میں انہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف 66 رنز کی شاندار فتح حاصل کی۔ جنوبی افریقہ 210 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 143 رنز پر ڈھیر ہوا۔ لیکن تیسرے ون ڈے میں بلے بازوں کی نااہلی نے پاکستان کو 68 رنز کی شکست سے دوچار کیا اور یہیں سے سیریز جنوبی افریقہ کے حق میں ایسی پلٹی کہ پاکستان کو بقیہ مقابلوں میں سے ایک بھی جیتنے کو نہ ملا۔ پاکستان کو چوتھے ون ڈے میں ایک مرتبہ پھر سیریز برابر کرنے کا موقع ملا لیکن ڈیل اسٹین نے ایک ہی اوور میں تین وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو مقابلے سے باہر کردیا اور یوں پاکستان ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر جنوبی افریقہ سے ون ڈے سیریز ہار گیا۔

پاکستان جنوبی افریقہ کے ہاتھوں اس صدمے سے ابھی باہر ہی نہیں نکلا تھا کہ کرکٹ بورڈ نے جنوبی افریقہ کا ایک اور دورہ طے کرلیا یعنی سال میں تیسری مرتبہ پاکستان پروٹیز کا سامنا کرے گا۔

یہ دورہ پاکستان کے لیےایک بڑی آزمائش تھا، وہ بھی ایسی جس میں لازماً فتح درکار تھی۔ پروٹیز کے خلاف سال کے اوائل میں انہی میدانوں پر ملنے والی 3-2 کی شکست کے گھاؤ عرب امارات کے "گھریلو" میدانوں میں 4-1 کی ہار سے مزید گہرے ہوچکے تھے۔ اب اگر اس مقام پاکستان مسلسل تیسری بار جنوبی افریقہ سے شکست کھاتا تو شاید ٹیم کا شیرازہ ہی بکھر جاتا لیکن پاکستان نے بھرپور جوابی وار کے ذریعے کسی حدتک گزشتہ دونوں شکستوں کی کسر پوری کردی اور تاریخ میں پہلی بار جنوبی افریقہ کے خلاف ایک روزہ سیریز اپنے نام کی۔

اس یادگار فتح کے معمار کوئی جانے پہچانے چہرے نہ تھے بلکہ دو ایسے نوجوان کھلاڑی تھے، جو اپنا پہلا ون ڈے کھیلنے کے لیے میدان میں اترے۔ انور علی اور بلاول بھٹی۔ جنہوں نے کیپ ٹاؤن میں کھیلے گئے پہلے ون ڈے میچ میں اپنی شاندار آل راؤنڈ کارکردگی کی بدولت پاکستان کو سیریز میں برتری دلائی۔ دونوں کی آٹھویں وکٹ پر 74 رنز کی شراکت داری اور پھر فیصلہ کن مرحلے پر جنوبی افریقہ کی 5 وکٹیں گرانے سے پاکستان 218 رنز کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوا اور سیریز میں ایک-صفر کی برتری بھی حاصل کی۔ یہی وہ برتری تھی جس نے پاکستان کو یہ حوصلہ عطا کیا کہ وہ سیریز جیت سکتا ہے۔

نوجوان کھلاڑیوں کی آل راؤنڈ کارکردگی نے جنوبی افریقہ کے خلاف پہلی سیریز فتح میں کلیدی کردار ادا کیا(تصویر: AFP)
نوجوان کھلاڑیوں کی آل راؤنڈ کارکردگی نے جنوبی افریقہ کے خلاف پہلی سیریز فتح میں کلیدی کردار ادا کیا(تصویر: AFP)

پھر پورٹ ایلزبتھ میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے میں جنوبی افریقہ 'پاکستان' بن گیا اور میچ ایک رن سے ہار کر پاکستان کو تاریخی لمحہ طشتری میں رکھ کر پیش کردیا۔ جنوبی افریقہ کو آخری دو اوورز میں 11 رنز کی ضرورت تھی اور سعید اجمل نے اس موقع پر نہ صرف 49 ویں اوور میں ہاشم آملہ کی قیمتی وکٹ حاصل کی بلکہ اوور میں صرف دو رنز بھی دیے۔ اس کے بعد جنید خان نے کمال مہارت سے باؤلنگ کرتے ہوئے پاکستان کو ایک رن کی فتح تک پہنچا دیا۔

گو کہ آخری ون ڈے میں مصباح اور باؤلرز کی جان توڑ کوشش بھی پاکستان کو کلین سویپ تک نہ پہنچا سکی بہرحال قومی ٹیم فتوحات کی راہ پر ضرور گامزن ہوئی۔

یہ آخری دورۂ جنوبی افریقہ سے حاصل کردہ اعتماد ہی تھا جس کی بدولت پاکستان نےسال کے آخری ایام میں سری لنکا کے خلاف عرب امارات کے میدانوں میں 3-2 سے ون ڈے سیریز جیتی۔اس سیریز میں محمد حفیظ کی شاندار بیٹنگ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے 3 سنچریوں کی مدد سے 5 مقابلوں میں149.33 کے شاندار اوسط کے ساتھ 448 رنز بنائے۔

پاک-لنکا سیریز سال کا بہت ہی شاندار اختتام تھا۔ سیریز کے تین مقابلے بہت سنسنی خیز ثابت ہوئے جن میں سے دو سری لنکا نے اور ایک پاکستان نے جیتا جبکہ دو مقابلوں میں پاکستان نے حریف کو باآسانی 113 رنز اور 8 وکٹوں سے چت کرکے سیریز اپنے نام کی۔

مجموعی طور پر پاکستان نے سال 2013ء میں 34 ایک روزہ مقابلے کھیلے، 16 میں فتوحات حاصل کیں، 16 میں شکست کھائی جبکہ دو مقابلے برابری کی بنیاد پر ختم ہوئے۔

مقابلے فتوحات شکستیں برابر بے نتیجہ بہترین اسکور کمترین اسکور
پاکستان 34 16 16 2 0 326 151

اگر انفرادی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے کھلاڑیوں نے اس سال دنیا بھر کے کھلاڑیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مصباح الحق اب تک1373 رنز کے ساتھ سال کے سب سے زیادہ بنانے والے بلے باز رہے جبکہ محمد حفیظ 1301 رنز کے ساتھ فہرست میں دوسرے نمبر پر آئے۔ بدترین بیٹنگ لائن اپ سمجھے جانے والے پاکستان کا یہ ایک انوکھا کارنامہ ہے۔ سال میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے دیگر پاکستانی بلے باز یہ ہیں:

بلے باز مقابلے رنز بہترین اسکور اوسط سنچریاں نصف سنچریاں چوکے چھکے
مصباح الحق 34 1373 96* 54.92 0 15 87 28
محمد حفیظ 33 1301 140* 46.46 5 4 122 25
احمد شہزاد 21 809 124 38.52 2 5 74 7
ناصر جمشید 23 568 106 24.69 1 2 54 7
شاہد آفریدی 24 441 88 23.21 0 2 31 25

ان کے علاوہ سال میں سب سے زیادہ یعنی 5 سنچریاں محمد حفیظ نے بنائیں، جن میں سے تین انہوں نے سری لنکا کے خلاف حالیہ سیریز میں بنائیں اور اس کارکردگی کی بدولت سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

محمد حفیظ کی آل راؤنڈ کارکردگی کی بدولت پاکستان نے سال کااختتام سری لنکا کے خلاف شاندار فتوحات کے ساتھ کیا  (تصویر: AFP)
محمد حفیظ کی آل راؤنڈ کارکردگی کی بدولت پاکستان نے سال کااختتام سری لنکا کے خلاف شاندار فتوحات کے ساتھ کیا (تصویر: AFP)

مصباح الحق نے سال 2013ء میں 15 نصف سنچریاں بنا کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ گو کہ وہ اب تک ایک روزہ کیریئر کی پہلی سنچری سے محروم ہیں، اور رواں سال بھی 96 رنز کی ناقابل شکست اننگز تک پہنچنے کے باوجود تہرے ہندسے میں داخل نہیں ہو سکے، لیکن تواتر کے ساتھ اچھی اننگز کھیلنا اب مصباح کا خاصہ ہوچکا ہے اور ان کی یہی انفرادی کارکردگی ان کو ٹیم میں برقرار رکھے ہوئے ہے، ورنہ پے در پے ناکامیوں کے بعد سب سے پہلے ان کو باہر کا دروازہ دکھایا جاتا۔

باؤلرز میں سعید اجمل دنیا کے تمام باؤلرز سے آگے رہے، جنہوں نے سال بھر میں کھیلے گئے 33 مقابلوں میں 62 وکٹیں سمیٹیں جبکہ یہاں بھی دوسرے نمبر پر پاکستانی رہے۔ جنید خان نے 28 مقابلوں میں 52 وکٹیں حاصل کیں۔ سال میں سب سے زیادہ وکٹیں سمیٹنے والے دیگر پاکستانی باؤلرز درج ذیل ہیں:

گیندباز ملک مقابلے اوورز میڈنز رنز وکٹیں بہترین باؤلنگ اوسط
سعید اجمل 33 306.3 15 1268 62 5/24 20.45
جنید خان 28 228.3 17 1116 52 4/15 21.46
محمد عرفان 24 205.2 12 923 38 4/33 24.28
شاہد آفریدی 24 178.2 5 862 27 7/12 31.92
محمد حفیظ 33 254.1 5 1061 23 2/34 46.13

شاہد آفریدی نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پروویڈنس، گیانا میں ہونے والے مقابلے میں سال کی بہترین انفرادی باؤلنگ کارکردگی دکھائی جب انہوں نے صرف 12 رنز دے کر ویسٹ انڈیز کے 7 کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔یہ کسی بھی پاکستانی باؤلرز کی تاریخ کی بہترین ون ڈے باؤلنگ بھی تھی ۔

پاکستان سے سال 2013ء کا اختتام تو جنوبی افریقہ اور سری لنکا جیسے مضبوط حریفوں کے خلاف فتوحات کے ذریعے کیا ہے لیکن ٹیم اگلے سال کے پہلے امتحان یعنی ایشیا کپ کے دفاع میں کامیاب ہوپاتی ہے یا نہیں، اس کا تمام انحصار کارکردگی کے تسلسل پر ہوگا۔ 'غیر یقینی' کیفیت سے دوچار ہونے کی صورت میں ٹیم کبھی مسلسل کارکردگی نہیں دکھا پائے گی اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے رواں سال مصباح الحق کو 2015ء کے عالمی کپ تک کپتان مقرر کرکے ٹیم کو یہ تسلسل بخشنے میں اہم کردار اداکیا ہے جیسا کہ اس اعلان کے بعد قومی ٹیم کی کارکردگی ہی سے اندازہ ہو رہا ہے۔