بیرون ملک ٹیم انڈیا کی متواتر شکست، کیا ذمہ داران سنجیدہ ہیں؟

3 1,033

سلمان غنی (پٹنہ، بھارت)

تواتر کے ساتھ اچھا مظاہرہ اور کھیل میں یکساں کارکردگی جس طرح ایک عظیم کھلاڑی کی پہچان ہوتی ہے، اسی طرح ایک اچھی ٹیم کہلانے کے لئے بھی ان خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔بہترین کھلاڑی وہی ہوتے ہیں جو تمام حالات میں عمدہ کھیل پیش کرتے ہیں یا کم از کم مشکل حالات میں اپنی مزاحمت سے حریف کو پریشان کر دیتے ہیں۔ بہترین ٹیم بھی وہی کہلائے گی جن کی کارگزاری میں تسلسل ہو اور مضبوط ترین حریف کے ہاتھوں زیر ہونے کے باوجود سرخرو رہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ باتیں نہ قومی ٹیم کے بیشتر کھلاڑیوں پر صادق آتی ہیں اور نہ خود ٹیم انڈیا پر۔

جنوبی افریقہ میں شکست نے 2011ء کے دورۂ انگلستان اور 2012ء کے دورۂ آسٹریلیا کی تلخ یادیں تازہ کردی ہیں (تصویر: Getty Images)
جنوبی افریقہ میں شکست نے 2011ء کے دورۂ انگلستان اور 2012ء کے دورۂ آسٹریلیا کی تلخ یادیں تازہ کردی ہیں (تصویر: Getty Images)

بھارت کا غیر ملکی سرزمین پر ایک مرتبہ پھر سرنگوں ہونا اس کی اہلیت پر بڑا سوالیہ نشان کھڑا کرگیا ہے۔ جوہانسبرگ میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کے اختتامی دنوں سے ہی اس بات کا اندازہ ہونے لگا تھا کہ بھارتی ٹیم اپنی پرانی روایات پر ابھی تک قائم ہے۔ اس میچ کے چوتھے دن کا کھیل ختم ہونے پر بھارتی اخبارات کی سرخیاں جذباتی انداز میں مزین کی گئی تھیں کیونکہ بھارت اس مقابلے میں ایسے مقام پر پہنچ چکا تھا جہاں ایک تاریخی فتح محض چند وکٹوں کے فاصلے پر تھی لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اگلے دن کے اختتامی لمحات تک حالات کچھ اس طرح تبدیل ہوجائیں گے کہ میزبان ٹیم بھارت کو اس مقام سے بے دخل کرکے خود ایک تاریخی فتح رقم کرنے کے قریب پہنچ جائے گی لیکن قسمت نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ کھیل کے ڈرا ہونے پر یقینی طور پر جنوبی افریقہ کو زیادہ افسوس ہوا ہوگا۔ لیکن کھیل کے آخری دن ان کے بلے بازوں نے جس دلیری اور جواں مردی سے ہواؤں کا رخ بدلا وہ نہ صرف بھارتی گیندبازوں بلکہ پوری ٹیم کے لیے لمحہ فکریہ تھا۔ درحقیقت، جوہانسبرگ میں جیت کا نوالہ بھارت سے منہ سے کھینچا گیا۔ اس میچ میں بھارت کی مجموعی کارکردگی دوسرے ٹیسٹ کے حوالے سے اسے خوش فہمی میں مبتلا کرگئی لیکن دوسرے و آخری ٹیسٹ کے بعد ٹیم انڈیا نے 2011ء کے دورۂ انگلستان اور 2012-13ء کے دورۂ آسٹریلیا کی تلخ یادیں تازہ کردیں۔

غیر ملکی دوروں کی اگر بات کی جائے تو مضبوط ٹیموں کے خلاف بھارت نے اپنی بدترین تصویر پیش کی ہے۔ بھارت جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی گئی 6 اور آسٹریلیا کے خلاف کھیلی گئی 10 سیریزوں میں سے ایک بھی اپنے نام نہیں کرسکا۔ عالمی چیمپئن کے چہرے پر یہ ایک بدنما داغ ہے۔

تعجب خیز بات یہ ہے کہ بھارت کے پاس نہ اچھے کھلاڑیوں کی کمی ہے اور نہ وسائل کی۔ اس کے باوجود ملک سےباہر ٹیم کے گلے میں ہمت ذلت و ہزیمت کا طوق لٹک جاتا ہے اور چہار جانب بھارت کی اہلیت پر سوالات کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ تسلسل کے ساتھ ملنے والی اس رسوائی کے داغ کو دھونے کے لیے بورڈ کے عہدیداران بالکل فکرمند نظر نہیں آتے۔ جس کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دورۂ جنوبی افریقہ کا پروگرام اتنی عجلت میں طے کیا گیا کہ ٹیم انڈيا کو افریقی سرزمین کی نئی آب و ہوا سے مانوس ہونے کا موقع بھی نہ مل سکا اور اس کے سر پر ایک روزہ بین الاقوامی اور ٹیسٹ مقابلے مسلط کردیے گئے۔ نیز ٹیسٹ کی نمبر ایک ٹیم کے خلاف ایک ایسے وقت میں بھارت کو ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے روانہ کیا گیا جب ٹیم کے بیشتر کھلاڑی ناتجربہ کار تھے اور غیر ملکی دوروں خصوصاً دورۂ جنوبی افریقہ سے بالکل ناآشنا تھے۔

عالمی کپ2011کے عین بعد انگلستان کی سرزمین پر ملنے والی بدترین ہزیمت کے پیچھے بھی یہی اسباب کارفرما تھے۔ انڈین پریمیئر لیگ میں اپنی خدمات پیش کرنے والے ان تھکے ہارے کھلاڑیوں پر مشتمل دستے کا جو حشر ملک سے باہر ہوا تھا وہ ابھی تک ذہنوں میں تازہ ہے۔ لیکن شاید ٹیم کے ذمہ داران یا تو مرض نسیان میں مبتلا ہو چکے ہیں یا انہیں اس کی فکر ہی لاحق نہیں ہوتی کہ بھارتی ٹیم کو پئے در پئے ملنے والی غیر ملکی رسوائیوں سے کس طرح محفوظ کیا جائے۔ ورنہ یہ ان کے سامنے ایک سنگین ترین مسئلہ ہوتا اور اس پر وہ سر جوڑ کر بیٹھتے اور لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش کرتے۔

1999ء میں عالمی چیمپئن بننے والی آسٹریلوی ٹیم کے سامنے سب سے بڑا ہدف یہ تھا کہ بھارتی سرزمین پر کس طرح ٹیسٹ سیریز جیتی جائے۔ حالانکہ ان کا یہ ہدف اسٹیو واہ کی قیادت میں پورا نہیں ہو سکا او ر وہ 2001ء کی تاریخی سیریز میں اس کے بہت قریب آ کر رہ گئے۔ لیکن اس خواب کو انہوں نے آخر کار پورا کر کے ہی دم لیا۔ رکی پونٹنگ کی قیادت میں 2004-05ء میں آسٹریلیا نے بھارت کو بھارت میں ہی2-1سے شکست دے کر ناقدین کے منہ بند کر ڈالے۔ جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونئے نے بھی بھارت کو اس کے ہوم گراؤنڈ پر ہرانے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا اور 1999-2000ء میں وہ اس مقصد میں کامیاب ہوئے۔ انگلستان نے بھی یہی خواب سجاکر 2012ء میں بھارتی سرزمین پر قدم رکھا اور پہلے ٹیسٹ میں شکست کے باوجود شاندار اور حیرت انگیز طریقہ سے بھارت کو2-1 سے شکست دے ڈالی ۔ اس طرح کپتان ایلسٹر کک بھی بھارتی سرزمین پر ایک بڑی تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

بھارت کو اس کی سرزمین پر زیر کرناایک مشکل ترین چیلنج تصور کیا جاتا ہے، لیکن یہ ٹیمیں اسے پورا کرنے میں کس طرح کامیاب ہوئیں۔ جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہوں نے اسے اپنی ترجیحات میں شامل کیا، اسے اپنا ہدف بنایا اور اس کے لئے مسلسل جدو جہد کرتی رہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کے بھارت کے سامنے ایسی کوئی ترجیحات نہیں اور نہ ملک سے باہر ملنے والی رسوائیوں کے داغ کو مٹانے کی کوئی فکر ہے۔