[آج کا دن] پاکستان کا امتیاز!

3 1,106

ٹیسٹ کرکٹ کے ابتدائی 78 سال تک کوئی ایسا وکٹ کیپر نہیں گزرا تھا، جس نے اپنی بیٹنگ صلاحیتوں کا اظہار ڈبل سنچری کی صورت میں کیا ہو اور یہ کارنامہ آج ہی کے دن پیدا ہونے والے پاکستان کے امتیاز احمد نے 1955ء میں انجام دیا جب انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں ڈبل سنچری بنا کراپنا نام تاریخ میں امر کرلیا۔

کسی بھی وکٹ کیپر کی پہلی ڈبل سنچری، پاکستان کے کسی بھی بلے باز کی پہلی ڈبل سنچری اور کسی بھی وکٹ پر پاکستان کی سب سے بڑی شراکت داری کے ریکارڈ امتیاز احمد نے ایک ہی اننگز میں بنائے (تصویر: Getty Images)
کسی بھی وکٹ کیپر کی پہلی ڈبل سنچری، پاکستان کے کسی بھی بلے باز کی پہلی ڈبل سنچری اور کسی بھی وکٹ پر پاکستان کی سب سے بڑی شراکت داری کے ریکارڈ امتیاز احمد نے ایک ہی اننگز میں بنائے (تصویر: Getty Images)

قبل از تقسیم ہند کے لاہور میں جنم لینے والے امتیاز احمد ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے پاکستان کرکٹ کو اس وقت سنبھالا جب وہ اپنے عہد طفلی میں تھی اور اس عہد میں بھی کئی یادگار فتوحات سمیٹیں۔ آپ 1952ء میں بھارت کے خلاف لکھنؤ اور 1954ء میں انگلستان کے خلاف اوول میں حاصل کردہ یادگار فتوحات کا حصہ تھے اور ساتھ ساتھ 1958ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف برج ٹاؤن میں ٹیسٹ کھیلنے والی اس ٹیم کا بھی حصہ تھے جس نے فالو آن کے بعد یقینی شکست کا منہ موڑا تھا اور حنیف محمد کو ان کی ٹرپل سنچری نے لافانی حیثیت بخشی تھی۔

امتیاز احمد کو حقیقی شہرت اس ڈبل سنچری اننگز نے بخشی جو 1955ء کے اواخر میں ہونے والے لاہور ٹیسٹ میں بنائی۔ 111 رنز پر پاکستان کے 6 کھلاڑیوں کے آؤٹ ہوجانے کے بعد وکٹ کیپر امتیاز احمد 380 منٹوں تک کریز پر موجود رہے اور نہ صرف وقار حسن کے ساتھ 308 رنز کی ریکارڈ شراکت داری قائم کرکے پاکستان کو مقابلہ جتوایا بلکہ کئی ریکارڈز بھی پیروں تلے روند ڈالے۔

امتیاز احمد کی 209 رنز کی اننگز عالمی کرکٹ تاریخ میں کسی بھی وکٹ کیپر بیٹسمین کی پہلی اور پاکستان کے کسی بھی بلے باز کی اولین ڈبل سنچری تھی۔ اس کے علاوہ آٹھویں وکٹ پر کسی بھی بلے باز کی طویل ترین اننگز کا نیا ریکارڈ بھی تھی۔ وقار حسن کے ساتھ ساتویں وکٹ پر شراکت داری ٹرپل سنچری شراکت داری بھی کسی بھی وکٹ پر پاکستان کی سب سے بڑی ساجھے داری کا اعزاز پانے میں کامیاب ہوئی۔

مجموعی طور پر امتیاز احمد نے 41 ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 29.28 کے کارآمد اوسط کے ساتھ 2079 رنز بنائے اور آخر تک ان کے بلّا خوب رنز اگلتا تھا جیسا کہ انگلستان کے خلاف 1962ء کے اوول میں اپنے کیریئر کے آخری ٹیسٹ میں بھی انہوں نے 98 رنز بنائے۔ مجموعی طور پر ان کے کیریئر میں تین سنچری اور 11 نصف سنچری اننگز شامل تھیں۔

امتیاز احمد تقسیم ہند سے قبل متحدہ ہندوستان کی نمائندگی تو نہیں کرپائے لیکن آپ شمالی ہند کی جانب سے رنجی ٹرافی میں ضرور کھیلے۔ لیکن ان ایام میں کہ جب پاکستان کو ٹیسٹ رکنیت نہيں ملی تھی، امتیاز احمد نے ایک یادگار اننگز ممبئی میں کھیل۔ مارچ 1951ء میں ہندوستان کے دورے پر آئی کامن ویلتھ الیون کے خلاف ہندوستان، پاکستان اور سیلون (سری لنکا) کی مشترکہ ٹیم انڈیا پرائم منسٹرز الیون کے نام سے کھیلی۔ برابورن اسٹیڈیم میں ہونے والے مقابلے میں مہمان ٹیم کے 505 رنز کے جواب میں پرائم منسٹرز الیون پہلی اننگز میں صرف 173 رنز پر ڈھیر ہوکر فالو آن کا شکار ہوگئی۔ اس مقام پر امتیاز نے وہ تاریخی اننگز تراشی جو بعد ازاں ان کے کیریئر کے لیے بہت اہم ثابت ہوئی۔ انہوں نے دوسری اننگز میں ناقابل شکست ٹرپل سنچری بنا کر ٹیم کو یقینی شکست سے بچایا اور یوں فرسٹ کلاس کرکٹ تاریخ کے ان چند کھلاڑیوں میں اپنا نام لکھوایا جنہوں نے فالو آن میں ٹرپل سنچری بنائی ہو۔ انہی بیٹنگ صلاحیتوں کی بدولت امتیاز کو 1952ء میں دورۂ بھارت کے لیے وکٹ کیپر نہیں بلکہ مستند بلے باز کی حیثیت سے پاکستانی ٹیم میں شامل کیا گیا۔

اپنی کرکٹ کے ابتدائی ایام میں آنکھ پر چوٹ لگنے کی وجہ سے امتیاز احمد نے وکٹ کیپنگ چھوڑ دی تھی لیکن کیونکہ ٹیم کے واحد مستند وکٹ کیپر یہی تھے، اس لیے بہت جلد حنیف محمد کے بجائے ان کو دستانے تھمائے گئے۔ اس ذمہ داری کو بھی انہوں نے بخوبی انجام دیا۔ مجموعی طور پر آپ نے وکٹوں کے پیچھے 93 بلے بازوں کو شکار کیا جن میں سے 77 کیچ اور 17 اسٹمپنگ کا شکار ہوئے۔

حکومت پاکستان نے 1960ء میں امتیاز احمد کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور بعد ازاں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔