[آج کا دن] جب پاکستان کا دیرینہ خواب کامران اکمل کے ہاتھوں چکناچور ہوا

7 1,029

15 سال کے طویل عرصے سے پاکستان آسٹریلوی سرزمین پر کوئی ٹیسٹ مقابلہ جیتنے سے محروم تھا اور جب 2010ء میں یہ موقع ہاتھ آیا تو دستانے پہنے کامران اکمل کی گرفت کمزور پڑ گئی اور آسٹریلیا ناقابل یقین انداز میں صرف 36 رنز سے سڈنی ٹیسٹ جیت گیا۔

یہ نظارہ لاکھوں پاکستانیوں کو تاعمر نہیں بھولے گا (تصویر: Getty Images)
یہ نظارہ لاکھوں پاکستانیوں کو تاعمر نہیں بھولے گا (تصویر: Getty Images)

جب پاکستان 2009ء کے اواخر میں آسٹریلیا پہنچا تو ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک دنیائے کرکٹ پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والے میزبان کے زوال کے ایام شروع ہو چکے تھے۔ ایشیز 2009ء میں بری طرح شکست اس کا پیش خیمہ تھی لیکن پاکستان نے دورۂ آسٹریلیا میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اس زوال کو مزید کچھ عرصے کے لیے ٹال دیا۔

پہنچتے ہی ملبورن میں بدترین شکست کے بعد پاکستان نے سڈنی میں سال نو کے پہلے ٹیسٹ میں بہت عمدہ آغاز کیا۔ آسٹریلیا کا ٹاس جیت کر بلے بازی کا فیصلہ اس وقت بہت غلط ثابت ہوا جب محمد آصف اور محمد سمیع کے سامنے اس کی پہلی اننگز صرف 127رنز پر تمام ہوئی۔ خود کپتان رکی پونٹنگ پہلی ہی گیند پر میدان بدر ہوئے جبکہ مچل جانسن کے 38 رنز کے علاوہ کوئی قابل ذکر مزاحمت نہ تھی۔ محمد آصف نے اپنے عروج پر دکھائی دیتے تھے بالخصوص انہوں نے جس گیند پر مائیکل کلارک کو کلین بولڈ کیا، ایسی گیندیں جدید کرکٹ میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ 41 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کرکے انہوں نے کیریئر کی بہترین کارکردگی دکھائی جبکہ ساتھی باؤلر محمد سمیع نے تین بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔

اس شاندار کارکردگی کے بعد پاکستان مقابلے پر اس وقت مکمل طور پر حاوی ہوگیا جب اس نے اوپنرز عمران فرحت اور سلمان بٹ کے درمیان 109 رنز کی ابتدائی شراکت داری اور دیگر بلے بازوں کے حصے کی بدولت اسکور بورڈ پر 333 رنز جوڑ دیے۔ یعنی پہلی اننگز میں 206 رنز کی زبردست برتری!

آسٹریلیا نے اس برتری تلے اپنی دوسری باری شروع کی تو تمام تر کوشش کے باوجود حالات سنبھلنے میں نہیں آ رہے تھے۔ گو کہ پہلی اننگز کے مقابلے میں ٹاپ آرڈر نے کافی بہتر انداز سے کھیلا اور 5 وکٹوں تک اسکور 226 رنز تک پہنچا دیا لیکن جو چیزآسٹریلیا کو ڈرا رہی تھی، وہ یہ کہ اس وقت برتری محض 20 رنز کی تھی۔ اس مقام پر جب پاکستان کے لیے 'سب اچھا تھا' کامران اکمل پر کیریئر کا بدترین لمحہ آن پڑا۔ انہوں نے اس بلے باز کے تین کیچ چھوڑے جو بعد ازاں سنچری بنا گیا، آسٹریلیا کا مرد بحران مائیکل ہسی!

'مسٹر کرکٹ' نے آخری 5 وکٹوں کے ساتھ مل کر اسکور کو 381 رنز تک پہنچا دیا۔ ہسی 134 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر میدان سے لوٹے اور وہ اس باری کے لیے کامران اکمل کے تاعمر شکرگزار ہوں گے جنہوں نے دانش کنیریا کی گیند پر ان کے تین کیچ چھوڑے ۔ نہ صرف ہسی بلکہ دوسرے اینڈ پر کھڑے پیٹر سڈل کا بھی ایک کیچ کامران کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ ان دونوں کھلاڑیوں نے اس فیاضی کی بدولت نویں وکٹ پر 123 رنز کی شراکت داری جوڑی۔

بہرحال، آسٹریلیا کے اتنا بڑا مجموعہ کھڑا کرنے کے باوجود پاکستان کے سامنے ہدف محض 176 رنز کا تھا۔ ڈیڑھ دہائی پرانے خواب کی تعبیر صرف 176 رنز کے فاصلے پر تھی۔ لیکن اب کامران کی جگہ باری بلے بازوں کی تھی۔ دوسری اننگز میں کارکردگی دیکھ کر ایک لمحے کے لیے بھی یہ شائبہ تک نہ ہوتا تھا کہ یہ وہی ٹیم ہے جس نے اسی میدان پر گزشتہ اننگز میں 333 رنز جوڑے تھے۔ 50 رنز تک پاکستان کا محض ایک آؤٹ تھا لیکن پھر 89 رنز کے اضافے پر 9 وکٹیں گرگئیں اور آسٹریلیا معمولی مارجن سے مقابلہ جیت گیا۔

ایک جانب پاکستان مواقع اپنے ہاتھوں سے ضایع کررہا تھا تو دوسری جانب آسٹریلیا نے ثابت کیا کہ فیلڈنگ میں اس کا کوئی جواب نہیں۔ دوسری اننگز میں سلمان بٹ کا وکٹوں کے پیچھے پکڑا گیا کیچ اور پھر ناتھن ہارٹز کا اپنی ہی گیند پر محمد یوسف کا بھرپور شاٹ پکڑنا اس کی مثالیں ہیں۔ ہارٹز نے اپنا انگوٹھا تو تڑوا لیا لیکن یوسف سمیت پانچ کھلاڑیوں کو میدان بدر کرکے آسٹریلیا کو فتح سے ضرور ہمکنار کیا اور یقیناً جیت کے بعد ان کے انگوٹھے کی تکلیف ختم ہوگئی ہوگی۔

یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں محض چھٹا موقع تھا کہ کوئی ٹیم پہلی اننگز میں 200 رنز کے خسارے میں جانے کے باوجود مقابلہ جیت جائے جبکہ پاکستان کی آسٹریلیا کے خلاف مسلسل گیارہویں ٹیسٹ شکست بھی تھی۔

اس شکست سے پاکستان پر کتنی گہری ضرب پڑی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد باوجود سر توڑ کوشش کے پورے دورے میں پاکستان کوئی مقابلہ نہیں جیت پایا۔ ٹیسٹ سیریز تین-صفر، ایک روزہ سیریز پانچ-صفر اور ٹی ٹوئنٹی سیریز ایک-صفر! ان بھیانک نتائج کے بعد قومی ٹیم کا نیا آپریشن کیا گیا۔ متعدد کھلاڑی پابندیوں کا نشانہ بنے، اکھاڑ پچھاڑ مچی لیکن سب سے بڑا دھماکہ ابھی باقی تھا، جس نے قومی کرکٹ کا شیرازہ بکھیر دیا۔ اسی سال اگست کے مہینے میں دورۂ انگلستان میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل منظر عام پر آیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی!

پاکستان کی آسٹریلیا کو خود اسی کی سرزمین پر ٹیسٹ مقابلے میں ہرانے کی خواہش تاحال مکمل نہیں ہوسکی۔ اب تو 18 سال گزر چکے اور پاکستان کا اگلا دورۂ آسٹریلیا 2016ء کےاواخر میں ہے۔ یعنی کہ اس خواب کی تعبیر کے لیے پاکستان کو مزید تین سال انتظار کرنا ہوگا۔ امید ہے کہ اس وقت تک کامران اکمل تو ریٹائر ہو ہی چکے ہوں گے 🙂