سیفی۔۔۔اب نہیں تو کب ؟

3 1,031

2006ء میں جب پاکستان نے انڈر19 عالمی کپ جیتا تھا تو فاتح ٹیم کے دو کھلاڑیوں کے تابناک مستقبل کی نوید سنائی دی۔ ایک انور علی اور دوسرا اس ٹیم کا کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد۔ مگر کراچی سے تعلق رکھنے والے دونوں کھلاڑی طویل عرصے تک قومی ٹیم میں شمولیت کی جنگ ہی لڑتے رہے، بلکہ یہ ابھی تک جاری ہے۔

اب سرفراز کے سامنے نہ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کی 'اجنبی' کنڈیشنز ہیں اور نہ اتنی مضبوط باؤلنگ لائن، اب 'سیفی' کے لیے صورتحال 'مارو یا مر جاؤ' والی ہے (تصویر: Getty Images)
اب سرفراز کے سامنے نہ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کی 'اجنبی' کنڈیشنز ہیں اور نہ اتنی مضبوط باؤلنگ لائن، اب 'سیفی' کے لیے صورتحال 'مارو یا مر جاؤ' والی ہے (تصویر: Getty Images)

2007ء میں کامران اکمل کے نائب کی حیثیت سے دورۂ بھارت پر جانے والے سرفراز کو اگلے سال ایشیا کپ میں بالآخر پاکستان کی نمائندگی کا موقع مل گیا۔ ان کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ کامران کے بعد اگر کوئی وکٹ کیپر پاکستان کی نمائندگی کرے گا تو وہ سرفراز ہی ہوگا اور دوروں پر ساتھ لے جانے کا ایک مقصد کامران اکمل کے ساتھ رکھ کر اسے تجربہ فراہم کرنا بھی تھا۔ دوسری جانب 'اے' ٹیموں کی نمائندگی کے علاوہ فرسٹ کلاس کرکٹ کے ذریعے سرفراز کے کھیل میں بہتری بھی آ رہی تھی اور گاہے بگاہے اسے ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں موقع بھی مل رہا تھا۔ اب تک سرفراز فرسٹ کلاس کرکٹ میں 40 کی اوسط سے 5 ہزار کے لگ بھگ رنز اور وکٹوں کے عقب میں 350 کے قریب شکار کرچکا ہے اور ایسے بھاری بھرکم ریکارڈز کے حامل سرفراز کو ٹیسٹ کرکٹ سے دور رکھنے کی کوئی منطق نہیں دکھائی دیتی۔ مگر سرفراز کی بدقسمتی رہی ہے کہ خود کو ڈومیسٹک کرکٹ کا ہیرو ثابت کرنے کے بعد بھی "سیفی" انٹرنیشنل کرکٹ میں ناکام رہا ہے۔

26 ایک روزہ مقابلوں میں سرفراز محض 27.18 کی اوسط سے ہی رنز بنا پایا ہے جبکہ 4 ٹیسٹ مقابلوں میں بھی سرفراز کا اوسط محض 11.12 ہے جو کسی طرح 'سیفی' کی حقیقی صلاحیتوں کی غمازی نہیں کررہا۔ علاوہ ازیں بین الاقوامی کرکٹ کھیلتے ہوئے وکٹوں کے عقب میں بھی سرفراز کی خامیاں سامنے آئی ہیں۔

حالیہ دورۂ زمبابوے قومی ٹیم کا حصہ بننے کے بعد سرفراز ایک مرتبہ پھر ڈومیسٹک کرکٹ میں جت گیا لیکن سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں عدنان اکمل کے زخمی ہونے نے سرفراز کو اس مرتبہ "سازگار" حالات میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے موقع دیا ہے۔

ماضی میں وکٹ کیپر بیٹسمین کویہ شکایت رہی ہے کہ اسے دنیا کی دو بہترین ٹیموں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف انہی کی کنڈیشنز میں ٹیسٹ میچز کھلائے گئے، جہاں مستند بلے باز بھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ لیکن اب سرفراز کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کے نسبتاً سازگار حالات، بیٹنگ کےلیے بہتر وکٹوں اور جنوبی افریقہ کے مقابلے میں قدرے آسان باؤلنگ لائن کے خلاف ایسی کارکردگی دکھا جائے جو اسے دوبارہ ٹیم سے باہر نہ ہونے دے۔

سرفراز احمد اپنے اعدادوشمار کے لحاظ سے ڈومیسٹک کرکٹ کا بہترین وکٹ کیپر بیٹسمین ہے۔ ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی طرز میں اننگز کا آغاز کرتے ہوئے اتنا ہی موثر ہے جتنا کہ فرسٹ کلاس میں چھٹے یا ساتویں نمبر پر کھیلتے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کپتانی سرفراز احمد کی اضافی صلاحیت ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مختلف ٹیموں کی قیادت کرنے والا وکٹ کیپر کھیل پر گہری نگاہ رکھتا ہے۔ سرفراز کے پاس سب کچھ ہے جو اسے بین الاقوامی کرکٹ میں ابھار سکے اس لیے ماضی کی ناکامیوں کو بھلا کر اب 'سیفی' دونوں ہاتھوں سے اس موقع پر گرفت پانی ہوگی کیونکہ یہ اس کے لیے 'مارو یا مر جاؤ' والی صورتحال ہے۔

اگر ان دو ٹیسٹ مقابلوں میں بھی سرفراز متاثر کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا تو پھر عدنان اکمل کی واپسی اور ابھرتے ہوئے نوجوان وکٹ کیپر محمد رضوان کی موجودگی کے باعث سرفراز کی قومی ٹیم میں واپسی مشکل ہوجائے گی۔