سری لنکا کی جامع کارکردگی، سیریز میں ناقابل شکست اور ناقابل یقین برتری حاصل

8 1,052

سری لنکا نے ابوظہبی میں پاکستان کے جبڑوں سے فتح چھیننے کے بعد دبئی میں حریف کے رہے سہے حوصلے بھی توڑ دیے اور انتہائی جامع کارکردگی کے ذریعے سیریز میں ایک-صفر کی برتری بھی حاصل کرلی۔ جو ناقابل شکست تو ہے ہی، ساتھ ہی ناقابل یقین بھی!

پاکستان پہلے ہی دن ایسا بے حال ہوا کہ پھر باوجود کوشش کے مقابلے میں واپس نہ آ سکا (تصویر: AFP)
پاکستان پہلے ہی دن ایسا بے حال ہوا کہ پھر باوجود کوشش کے مقابلے میں واپس نہ آ سکا (تصویر: AFP)

پاکستان کو دوسرے ٹیسٹ میں جیسی منصوبہ بندی اور صلاحیتوں کے مظاہرے کی ضرورت تھی، وہ اس کا عشر عشیر بھی پیش نہ کرپایا اور یہی وجہ ہے کہ پہلے ہی دن کے اختتام پر بازی سری لنکا کی گرفت میں ایسی آئی اور پھر آخری دن تک ان کے ہاتھ سے نہ نکل سکی۔

دبئی کی وکٹ پر، جو عموماً اسپنرز کے لیے مددگار ہوتا ہے، سری لنکن کپتان اینجلو میتھیوز نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔ جو شیخ زاید اسٹیڈیم کے ماضی کو دیکھتے ہوئے حیران کن ضرور تھا لیکن سری لنکا کے تیز باؤلرز نے پہلے ہی دن اس حیرانگی کا خاتمہ کردیا۔ گو کہ پاکستان کو پہلے سیشن میں صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 57 رنز ملےلیکن دوسرے سیشن نے مقابلے کو مکمل طور پر سری لنکا کے حق میں جھکا دیا۔ صرف 78 رنز پر ایک وکٹ ظاہر کرنے والے اسکور کارڈ پر تیسرے سیشن میں 165 رنز آل آؤٹ جگمگا رہا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معمولی سے مجموعے میں بھی 73 رنز خرم منظور کے تھے۔ یعنی خرم کے علاوہ پوری ٹیم کو صرف 92 رنز بنانے کی توفیق حاصل ہوئی۔ "دنیا کےبہترین باؤلنگ اٹیک" کے سامنے تو چلیں کوئی بہانہ تھا، یہاں دبئی کی وکٹ پر سری لنکا کے نوجوان باؤلرز کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی تھی؟ یہ ایک معمہ ہے۔

محض 64 اوورز میں مکمل ہونے والی اس باری میں خرم منظور کے علاوہ ٹیم کے صرف تین کھلاڑی ہی دہرے ہندسے میں داخل ہوسکے، بلاول بھٹی ناقابل شکست 24، محمد حفیظ 21 اور یونس خان 13 رنز۔ بقیہ بلے بازوں کو تو یہ "شرف" بھی حاصل نہ ہوا۔ احمد شہزاد 3، مصباح الحق 1، اسد شفیق 6 اور سرفراز احمد نے 7 رنز بنا کر اپنا "حصہ" ڈالا۔

سری لنکا نے دن کے اختتام تک صرف 16 اوورز میں 57 رنز جوڑ کر ثابت کیا کہ وکٹ میں کوئی "بارودی سرنگ" نہیں ہے۔دیموتھ کرونارتنے اور کوشال سلوا جیسے ناتجربہ اوپنرز نے بھی 11 اوورز میں 40 رنز کا آغاز فراہم کیا اور یوں پہلا دن ہی ثابت کرگیا کہ مقابلے پر گرفت سری لنکا کی ہے۔

دوسرے دن گو کہ پاکستان ابتدائی سیشن میں دو مزید وکٹیں گرانے میں کامیاب ہوگیا، وہ بھی کمار سنگاکارا اور دنیش چندیمال کی قیمتی وکٹیں لیکن چوتھی وکٹ پر کوشال سلوا اور مہیلا جے وردھنے کی شراکت داری نے پاکستان کی توقعات، اور پاکستانیوں کی خوش فہمیوں، پر پانی پھیر دیا۔دونوں نے 139 رنز جوڑ کر پاکستان کو ایک سیشن سے بھی زیادہ وقت تک وکٹ حاصل کرنے سے محروم کیے رکھا اور غالباً یہی وہ مرحلہ تھا جب پاکستان کےمقابلے میں واپس آنے کے امکانات ختم ہوئے۔ پانچویں وکٹ پر مہیلا نے کپتان میتھیوز کے ساتھ مل کر اسکور میں مزید 91 رنز کا اضافہ کرڈالا یوں پاکستان دن کے دو سیشنز میں صرف ایک وکٹ حاصل کرسکا اور جب دوسرا دن مکمل ہوا تو سری لنکا کا اسکور صرف 4 وکٹوں پر 318 رنز تھا۔ یعنی پاکستان پورے دن میں 261 رنز دینے کے باوجود صرف 3 وکٹیں حاصل کرپایا۔ اس دوران مہیلا اپنے کیریئر کی 32 ویں سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے جو اس لحاظ سے اہم تھی کہ یہ کئی ناکامیوں کے بعد کھیلی گئی تہرے ہندسے کی پہلی اننگز تھی۔ مہیلا گزشتہ 10 ٹیسٹ میچز میں سنچری بنانے میں ناکام رہے تھے اور یہ سنچری تو پھر فتح گر بھی ثابت ہوگئی۔

مہیلا جے وردھنے نے 10 ٹیسٹ مقابلوں کے بعد پہلی سنچری بنائی اور وہ بھی فاتحانہ اننگز (تصویر: AFP)
مہیلا جے وردھنے نے 10 ٹیسٹ مقابلوں کے بعد پہلی سنچری بنائی اور وہ بھی فاتحانہ اننگز (تصویر: AFP)

تیسرے دن صبح کے سیشن میں پاکستان نے سری لنکا کی آخری 6 وکٹیں صرف 70 رنز کے اضافے پر سمیٹ لیں لیکن کافی دیر ہوچکی تھی۔ پہلی اننگز میں 223 رنز کا خسارہ ظاہر کررہا تھا کہ مقابلےکا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اس مرحلے پر پاکستان کو بالکل اسی صورتحال کا سامنا تھا، جو ابوظہبی میں سری لنکا کودرپیش تھی۔ پاکستان مقابلے کے تین دن حاوی رہا اور پھر اینجلو میتھیوز کی قائدانہ اننگز نے سری لنکا کو یقینی شکست سے بچا لیا۔ لیکن پاکستان کے بلے بازوں کی حالت دیکھتے ہوئے اس طرح کی معجزاتی کارکردگی کی توقع آخر کسے ہوگی؟

درحقیقت، باؤلنگ اور بیٹنگ کی وہ تمام خامیاں جو ابوظہبی میں پاکستان کی فتح میں رکاوٹ بنیں، دبئی میں عود کر سامنے آئیں۔ اتنی بھاری کا دباؤ بھی ویسا ہی تھا، یہی نتیجہ ہے کہ پاکستان دوسری اننگز میں صرف 19 رنز پر اپنے ابتدائی تینوں بلے بازوں سے محروم ہوگیا۔ احمد شہزاد دوسری اننگز میں بھی دہرے ہندسے تک نہ پہنچ پائے جبکہ ایک روزہ میں رنز کے انبار لگانے والے محمد حفیظ تو اس مرتبہ 1 رن سے آگے ہی نہ بڑھے۔ خرم منظور جو گزشتہ اننگز کے بہترین بلے باز تھے، صرف 6 رنز بنانے کے بعد نووان پردیپ کی دوسری وکٹ بن گئے۔

اگر تجربہ کار مصباح الحق اور یونس خان کے درمیان 129 رنز کی شراکت داری قائم نہ ہوتی اور آخر میں وکٹ کیپر سرفراز احمد 74 رنز کی مدافعانہ اننگز نہ کھیلتے تو اننگز کی شکست پاکستان کے سامنے منہ کھولے کھڑی تھی۔ یونس خان تو 77 رنز بنانے کے بعد چوتھے دن صبح صبح واپس لوٹ گئے۔ اسد شفیق کی کارکردگی دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ شامنڈا ایرنگا نے نئی گیند ملتے ہی انہیں دوسری سلپ میں آؤٹ کروا دیا۔

اب مصباح کا ساتھ دینے کے لیے سرفراز احمد "آخری سپاہی" کی حیثیت سے میدان میں آئے۔ پاکستان اب بھی اننگز کی شکست سے 23 رنز پیچھے تھا۔ دونوں نے پاکستان کو اس ہزیمت سے تو بچا لیا لیکن رنگانا ہیراتھ کے ہاتھوں مصباح کے کلین بولڈ نے پاکستان کی رہی سہی توقعات کا بھی خاتمہ کردیا۔ بدقسمتی سے مصباح اس وقت آؤٹ ہوئے جب وہ سنچری سے محض 3 رنز کے فاصلے پر تھے۔ 248 گیندوں پر 97 رنز کی یہ اننگز رائیگاں گئیں۔

سرفراز احمد نے پاکستان کی جانب سے آخری مزاحمت کی اور بلاول بھٹی کے ساتھ مل کر ساتویں وکٹ پر 67 رنز جوڑ کر مقابلے کو پانچویں دن تک لے آئے۔ آخری دن سری لنکا نے پاکستان کو صرف 29 رنز کا اضافہ کرنے دیا۔ سرفراز 142 گیندوں پر 74 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے جبکہ 21 رنز بنانے والے سعید اجمل کے ساتھ پاکستان کی دوسری اننگز 359 رنز پر تمام ہوئی۔

سری لنکا کو جیتنے کے لیے صرف 137 رنز کا ہدف ملا جو اس نے باآسانی ایک وکٹ کے نقصان پر پورا کرلیا۔ اوپنرز کرونارتنے اور کوشال سلوا نے 124 رنز کی شراکت داری جوڑ کو ثابت کیا کہ وکٹ آخری روز بھی بیٹنگ کے لیے بالکل سازگار تھی۔ فتح سے محض 13 رنز کے فاصلے پر سری لنکا کی واحد وکٹ کوشال کی صورت میں گری جنہوں نے 58 رنز بنائے جبکہ کرونارتنے 62 رنز پر ناقابل شکست رہے۔

مہیلا جے وردھنے کو فتح گر سنچری بنانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

سیریز میں ایک-صفر کی ناقابل شکست برتری ملنے کے بعد اب سری لنکا نئے اعتماد اور حوصلوں کے ساتھ 16 جنوری سے شارجہ کے میدان میں اترے گا جہاں پاکستان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ بہرصورت فتح حاصل کرے، بصورت دیگر ڈیو واٹمور کے عہد کا اختتام بھی ایک مایوس کن شکست کے ساتھ ہوگا۔ اگر پاکستان سیریز بچانے میں کامیاب ہوبھی گیا تو یہ بات تو طے شد ہے کہ واٹمور اپنے دو سالہ عہد میں پاکستان کو ایک ٹیسٹ سیریز بھی نہ جتوا سکے، حتیٰ کہ زمبابوے کے خلاف بھی نہیں۔