[فل لینتھ] چلے ہوئے کارتوس یا باصلاحیت نوجوان، فیصلہ انتظامیہ کے ہاتھ میں

2 1,373

ابوظہبی میں شکست کے دہانے پر پہنچنے کے بعد مقابلے کو پاکستان سے چھین لینے کے بعد سری لنکا کو جو نفسیاتی برتری حاصل ہوئی، اسی سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر پاکستان نے حکمت عملی نہ بدلی تو سیریز سری لنکا کے حق میں پلٹ سکتی ہے۔ اور دبئی میں ایسا ہی ہوا، پاکستان کی حد درجہ دفاعی حکمت عملی اور گزشتہ مقابلے کے نتیجے کے دباؤ کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان پہلے ہی دن مقابلے سے باہر ہوگیا۔ سری لنکا نے ابوظہبی ٹیسٹ میں ناقابل یقین نتیجہ حاصل کرکے جو اعتماد حاصل کیا، اسی کے بل بوتے پر سیریز میں اب ناقابل شکست برتری حاصل کر بیٹھا ہے۔

ایک روزہ سیریز میں کارکردگی کی بنیاد پر ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل ہونے والے محمد حفیظ اور احمد شہزاد کی فی الحال ٹیسٹ ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بنتی(تصویر: AFP)
ایک روزہ سیریز میں کارکردگی کی بنیاد پر ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل ہونے والے محمد حفیظ اور احمد شہزاد کی فی الحال ٹیسٹ ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بنتی(تصویر: AFP)

پہلے ٹیسٹ میں جیتنے میں ناکامی کے بعد دور اندیش نگاہوں نے آنے والے نتائج کا احساس کرلیا تھا، لیکن ٹیم انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ ابوظہبی ہو یا دبئی دونوں مقامات پر باؤلرز تک بے چارگی کی تصویر بنے رہے، یعنی جو ہماری اصل طاقت تھی وہی کام نہ آئی تو پھر کمزوری یعنی بیٹنگ لائن کا کیا رونا؟

گو کہ پاکستان کی طاقت آجکل تیز باؤلنگ نہیں بلکہ اسپن گیندبازی ہے لیکن حیرت اس امر پر ہوئی کہ دبئی کی وکٹ سری لنکا کے تیز باؤلرز کو خوب مدد دے رہی تھی۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جس وکٹ پر سری لنکن باؤلرز پاکستانی بیٹنگ کے پرخچے اڑا رہے تھے، وہ سری لنکا کے بلے بازوں کے لیے بالکل بے ضرر دکھائی دی۔ ہمارا کوئی باؤلر اس وکٹ کا فائدہ نہ اٹھا سکا جبکہ پانچواں ٹیسٹ کھیلنے والے نووان پردیپ نے پاکستان کے بلے بازوں کو پچھلے قدموں پر پھنسائے رکھا۔

ایک روزہ سیریز میں کارکردگی کی بنیاد پر ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل کیے جانے والے احمد شہزاد اور محمد حفیظ کی فی الحال طویل طرز میں جگہ نہیں بنتی۔ گو کہ ابوظہبی میں محمد حفیظ نے دوسری اننگز میں بڑی باری کھیلی لیکن ہمیں ایک کارکردگی کو معیار بنانے کی ریت کو توڑنا ہوگا۔ ہم ہمیشہ مستقل مزاجی کا رونا روتے ہیں، اس لیے کھلاڑیوں کے انتخاب کے معاملے میں بھی اس کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ ایسے کھلاڑیوں کی کم از کم ٹیسٹ ٹیم میں جگہ نہیں ہونی چاہیے جو ایک اننگز کھیل کر اگلے دس مقابلوں کے لیے اپنی جگہ پکی کریں او ران مقابلوں میں قومی ٹیم کی شکست کا باعث بنیں۔

مڈل آرڈر میں پہلے اسد شفیق کا ذکر کرتا چلوں۔ اس کے باصلاحیت ہونے میں تو کوئی شک نہیں لیکن ایسی صلاحیتیں کس کام کی کہ جب بلّا رنز ہی نہ اگلے، ایسی تکنیک کا کیا کریں جو وکٹ پر رکنے میں مدد ہی نہ دے پائے۔ آخر کب تک کوٹہ سسٹم پر کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا جاتا رہے گا؟ یا ہم کب تک پسند کی وجہ سے میرٹ کا گلا کاٹتے رہیں گے؟ دوسری جانب اوپنر خرم منظور نے گو کہ دبئی میں پہلی اننگز میں پاکستان کے بیشتر رنز خود بنائے لیکن انہیں اعتماد کی سخت ضرورت ہے۔

مصباح الحق نے بے شک وکٹ پر قیام کیا، رنز بنائے لیکن وہ پاکستان کو شکست سے نہ بچا سکے۔ پھر ٹیم کے انتخاب میں ان کا اہم کردار ہے، اس لیے وہ بھی شکست کے اہم ذمہ دار ہیں۔ بحیثیت کپتان انہیں چاہیے کہ وہ ہار کو تسلیم کریں اور سارا ملبہ وکٹ پر نہ ڈالیں۔

سعید اجمل کے حوالے سے زیر گردش باتیں کافی حد تک درست ہیں۔ 'جادوگر' اسپنر کی صلاحیتوں سے آخر کس کو انکار ہوسکتا ہے لیکن ان کے حالیہ اعدادوشمار بھی سب کے سامنے ہیں۔ کچھ عرصے سے وہ فتح گر کارکردگی نہیں دکھا پا رہے۔ جس کی ایک وجہ تو ان کو فارمیٹ سے قطع نظر مسلسل استعمال کرنا ہے اور دوسری وجہ یہ کہ پوری ٹیم کی باؤلنگ کا وزن ان کے کاندھوں پر ہے۔ اس صورتحال میں انہیں آرام کی سخت ضرورت ہے ورنہ آنے والے میگا ایونٹ یعنی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ہم اپنے میچ وننگ باؤلر سے محروم ہوسکتے ہیں۔

شارجہ میں تیسرے ٹیسٹ کے لیے میری اور قوم کی دعائیں تو ٹیم کے ساتھ ہیں ہی، لیکن دوا ٹیم انتظامیہ بالخصوص مصباح الحق کے پاس ہے۔ انہيں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ چلے ہوئے کارتوسوں پر دوبارہ اظہار اعتماد کرنا ہے یا نہیں۔