شارجہ فتح، مصباح کا ایک ہی وار میں سب ناقدین کو جواب

8 1,053

دفاعی انداز کے حامل، ڈھیلے کپتان، اپنے خول میں بند، قیادت کے لیے نااہل اور حتمی وار کرنے کی اہلیت نہ رکھنے کے طعنے سننے والے مصباح الحق نے ایک دن، بلکہ چند ہی گھنٹوں میں، اپنے تمام ناقدین کو جواب دے دیا۔

اگر مصباح کی زیر قیادت پاکستان ایشیا کپ کے دفاع میں بھی کامیاب ہوگیا تو عالمی کپ تک قیادت بچنے کے امکانات مزید روشن ہوجائیں گے (تصویر: AFP)
اگر مصباح کی زیر قیادت پاکستان ایشیا کپ کے دفاع میں بھی کامیاب ہوگیا تو عالمی کپ تک قیادت بچنے کے امکانات مزید روشن ہوجائیں گے (تصویر: AFP)

شارجہ کا میدان مصباح الحق کے لیے یادگار بھی ثابت ہوا اور خوش قسمت بھی۔ سری لنکا کے خلاف تیسرے ٹیسٹ کے آخری دن انہوں نے جس چیز کو ہاتھ لگایا وہ سونا بن گئی، جو فیصلہ کیا وہ پاکستان کے حق میں ثابت ہوا۔ ایک ایسے مرحلے پر جب مقابلے کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے تھے، پہلے باؤلرز نے صرف 25 رنز کے اضافے پر سری لنکا کی آخری 5 وکٹیں حاصل کرکے حریف کی اننگز لپیٹ دی اور پھر بلے باز بیٹنگ کے لیے میدان میں اترے تو انہوں نے درکار رن اوسط کے عین مطابق کھیلا ، یہاں تک کہ دن کے بالکل اختتامی لمحات میں منزل کو پا لیا۔

پاکستان کی باؤلنگ اور بیٹنگ میں کارکردگی تو سب کے سامنے ہے لیکن سب سے اہم عنصر مصباح الحق کے قائدانہ فیصلوں کا رہا۔ جب 97 رنز کے اسکور پر یونس خان آؤٹ ہوئے تو پاکستان کی پیشقدمی کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ اس کا ازالہ کرنے، اور پیشرفت کو تیز تر کرنے کے لیے مصباح نے وکٹ کیپر سرفراز احمد کو خصوصی ہدایات دے کر میدان میں بھیجا۔ کارکردگی دکھانے کے زبردست دباؤ تلے دبے سرفراز نے کمال کی اننگز کھیلی اور درحقیقت یہ ان کی 46 گیندوں پر 48 رنز کی باری ہی تھی جس نے مقابلے میں پہلی بار سری لنکا کے اوسان خطا کیے اور پاکستان کو یقین دلایا کہ وہ جیت سکتا ہے۔

پھر مصباح کی اظہر علی کے ساتھ 109 رنز کی فتح گر شراکت دار ی نے بالآخر پاکستان نے دن کے بالکل اختتامی لمحات میں منزل مراد تک پہنچادیا۔ سری لنکا کی مقابلے کو دھیما کرنے کی تمام کوششیں، فیلڈرز کی گیند نظر نہ آنے کی شکایتیں اور امپائروں سے بار بار کے مطالبے سب بیکار گئے اور پاکستان سیریز بچانے میں کامیاب ہوگیا۔

یوں محض 58 ویں اوور میں 302 رنز کا ہدف حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دے کر پاکستان نے شارجہ ٹیسٹ کو تاریخ کے عظیم ترین مقابلوں میں شامل کردیا۔ مصباح کے لیے یہ فتح اس لیے بھی بہت زیادہ اہم ہے کہ چند ہفتے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ کے گزشتہ سیٹ اپ کے دوران یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ عالمی کپ 2015ء تک قیادت مصباح ہی کے پاس رہے گی لیکن عدالت کی جانب سے بحال کیے گئے چیئرمین ذکا اشرف نے آتے ہی اس خیال کی تردید کی اور کہا کہ عالمی کپ میں قیادت کا اہل وہ ہوگا، جو فٹ ہوگا اور کارکردگی دکھائے گا۔

اس سے پہلے کہ نیا سیٹ اپ اس سمت میں کوئی عملی قدم اٹھاتا، 39 سالہ مصباح نے ایک روزہ سیریز جیتنے کے بعد ٹیسٹ سیریز میں بھی اپنی اہلیت ثابت کردی ہے اور یوں اس خطرے کو فی الحال تو کچھ عرصے کے لیے ٹال دیا ہے۔ اگر ان کی زیر قیادت پاکستان اگلے ماہ ایشیا کپ کے اعزاز کا دفاع کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا تو عالمی کپ تک قیادت بچنے کے امکانات مزید روشن ہوجائیں گے۔