کمیٹی نہیں کمٹمنٹ کی ضرورت ہے!

2 1,082

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ ذکا اشرف قومی ٹیم کے لیے خوش بختی کی علامت ثابت ہوتے ہیں۔ جب 28 اکتوبر 2011ء کو پی سی بی کے چیئرمین کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تو اگلے ہی دن پاکستان نے سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتی اور اب جبکہ پی سی بی کے ایوانوں میں ان کی دوبارہ واپسی ہوئی ہے، تو ایک اور یادگار کامیابی پاکستان کی جھولی میں گری ہے۔ ذکا اشرف کو اگرچہ چیئرمین پی سی بی کی حیثیت سے اپنے قدم جمانے کا موقع نہيں ملا لیکن انہوں نے عالمی کپ 2015ء پر نظریں ضرور جما دی ہیں۔ وہ پاکستان کو میگا ایونٹ جیتتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنے اس خواب کو حقیقت کا لبادہ پہنانے کے لیے ایک دو رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے جس کے اراکین انتخاب عالم اور جاویدمیانداد عالمی کپ 1992ء جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے اراکین سے رابطہ کرکے اگلے ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لیے مشورے لیں گے۔

کیا انتخاب اور میانداد پر مشتمل دو رکنی کمیٹی عمران خان سے مشورے لے سکے گی؟ (تصویر: Getty Images)
کیا انتخاب اور میانداد پر مشتمل دو رکنی کمیٹی عمران خان سے مشورے لے سکے گی؟ (تصویر: Getty Images)

اس سلسلے میں سربراہ پی سی بی کا کہنا ہے کہ مشاورت کا مقصد عالمی کپ 2015ء کے لیے ایک وننگ کمبی نیشن تشکیل دینا ہے تاکہ عالمی اعزاز ایک مرتبہ پھر پاکستان لایا جا سکے۔ 1992ء کے عالمی کپ فاتح دستے کے نائب کپتان اور موجودہ ڈائریکٹر جنرل پی سی بی جاوید میانداد کا کہنا ہے کہ مشاورت کا مقصد صرف رائے لینا نہیں، بلکہ اس کی مدد سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت عالمی کپ جیتنے کی تیاری ابھی سے شروع کرنا ہے۔

سمجھ نہیں آتی کہ یہ کمیٹیاں بنانے کا یہ سلسلہ کب ختم ہوگا؟ ہارنے کی تحقیقات کے لیے بھی کمیٹی اور جیت کی منصوبہ بندی کے لیے بھی کمیٹی۔ 2007ء کے عالمی کپ سے قبل رمیز راجہ نے ایک ٹیلی وژن پروگرام کے ذریعے قومی ٹیم میں جیت کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے مہمانوں کے ذریعے کھلاڑیوں کو 1992ء کی تاریخی فتح کے قصے بھی سنایا کرتے تھے۔ مگر میگا ایونٹ میں پاکستان کا جو حشر ہوا، وہ کبھی کوئی نہیں بھول سکتا۔ حالانکہ 1992ء کے عالمی کپ فاتح انضمام الحق اس ٹیم کے کپتان تھے، وہ بھی کھلاڑیوں کو متحرک نہ کرسکے۔

اب پاکستان کرکٹ بورڈ نے آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں اگلے سال ہونے والے عالمی کپ کے لیے پھر کمیٹی بنا ڈالی ہے۔ عالمی کپ فاتح کھلاڑیوں سے مشورے جاوید میانداد اور انتخاب عالم لیں گے۔ میانداد کو پاکستان کرکٹ کا سب سے بڑا دماغ کہا جاتا ہے، 1992ء کے عالمی کپ میں وہ ٹیم کے نائب کپتان تھے اور ٹائٹل جیتنے میں ان کا کردار بہت اہم تھا۔ کیا اب اگلے عالمی کپ کی منصوبہ بندی کے لیے انہیں زاہد فضل، اقبال سکندر اور وسیم حیدر کے پاس جانے کی ضرورت ہے؟ جن کے نام سے بھی قارئین کی اکثریت شاید واقف نہ ہو۔ دوسری جانب انتخاب عالم، 1992ء کے عالمی کپ میں ٹیم مینیجر تھے اور ورلڈ کپ کی فتح کے بعد سے لے کر اب تک کسی نہ کسی حیثيت سے وہ قومی کرکٹ کے ساتھ منسلک ہیں لیکن اب وہ ایسے کھلاڑیوں سے مشورے کریں گے کہ جنہوں نے کبھی کسی ٹیم کی قیادت نہیں کی، نہ کسی منصوبہ بندی کا حصہ رہے اور نہ ہی بہت زیادہ کرکٹ کھیلی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دو رکنی کمیٹی 1992ء کے عالمی کپ فاتح کپتان عمران خان سے کسی قسم کا مشورہ لینے میں کامیاب ہو سکے گی، جو شاید پی سی بی کے ایوانوں میں آنا ہی نہ چاہیں۔ اور کیا سلیم ملک جیسے کھلاڑیوں کو قذافی اسٹیڈیم مدعو کیا جا سکے گا جسے پاکستان کرکٹ سے یوں نکال دیا گیا جیسے اس نام کا کوئی کھلاڑی ملک کے لیے کھیلا ہی نہیں تھا۔ پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا اس "مشاورت" میں وقار یونس، عبد القادر، راشد لطیف اور سعید انور جیسے کھلاڑیوں کو اس لیے شامل نہیں کیا جائے گا کہ وہ ورلڈ کپ 1992ء کے فاتح رکن ہونے کی "شرط" پر پورے نہیں اترتے؟

پاکستان کرکٹ بورڈ نے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیموں کے کپتان مصباح الحق اور محمد حفیظ سے تو مشاورت کا عندیہ دیا ہے لیکن کیا یونس خان سے مشاورت کرنا ضروری نہیں کہ جن کی کپتانی میں پاکستان نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء جیتا تھا؟ 1992ء کے فاتح دستے کے اہم اراکین رمیز راجہ، عامر سہیل، انضمام الحق، وسیم اکرم، معین خان، اعجاز احمد، مشتاق احمد اور عاقب جاوید حالیہ برسوں میں کسی نہ کسی حیثیت سے پاکستان کرکٹ سے وابستہ رہے ہیں اور مشاورت کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ سابق کھلاڑی "فاتح عالم" کی شرط کے بغیر بھی قیمتی مشورے دے سکتے ہیں۔

درحقیقت 1992ء کی فتح سے تحریک حاصل کرکے اگلے سال ہونے والا ورلڈ کپ نہیں جیتا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ دو عشرے پہلے کھیلی جانے والی اور موجودہ کرکٹ میں بہت فرق ہے۔ بلکہ 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم تاریخ کی کمزور ترین پاکستانی ٹیم تھی، جس نے عالمی کپ میں حصہ لیا۔ ایونٹ کے دوران اہم کھلاڑی ان فٹ ہوتے رہے، قسمت نے بھی یاوری نہ کی مگر ورلڈ کپ جیتنے کی کنجی وہ اعتماد تھا جو عمران خان کو خود پر اور ٹیم پر تھا کہ یہ ٹیم عالمی کپ جیتے گی۔ یہ عمران خان کا عزم و خود اعتمادی ہی تھی جو آدھا ورلڈ کپ گزر جانے کے بعد بھی فتح کےلیے پرعزم تھے جبکہ ان کی ٹیم پوائنٹس ٹیبل میں آٹھویں نمبر پر تھی۔

عمران خان کا یہ "فارمولا" شاید اب قابل عمل نہ ہو اور 1992ء کے عالمی کپ اراکین سے مشاورت کرنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی بھی سودمند ثابت نہ ہوگی کیونکہ عالمی کپ جیتنے کی منصوبہ بندی کرنا سلیکشن کمیٹی کا کام ہے کہ وہ اہم ٹورنامنٹ کے لیے کن کھلاڑیوں پر بھروسہ کرنا چاہتی ہے۔ کپتان کو اس منصوبہ بندی میں شامل ہونا چاہیے لیکن عالمی کپ میں پاکستان کا کپتان کون ہوگا، یہ ابھی بھی طے نہیں ہوسکا۔

اس قسم کی کمیٹیاں دل بہلانے کا تو اچھا خیال ثابت ہو سکتی ہیں لیکن کسی بھی میچ یا ایونٹ میں کامیابی کے لیے کمیٹیوں کی نہیں بلکہ "کمٹمنٹ" کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا مظاہرہ ابھی چند روز قبل ٹیسٹ ٹیم نے شارجہ میں کیا ہے۔