گوروں کے دیس میں سبز ہلالی پرچم

2 1,126

ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی یادگار فتوحات کے سلسلے کی دوسری قسط، پہلی قسط یہاں ملاحظہ کیجیے۔

ہندوستانی سرزمین پر یادگار ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے بعد پاکستان کو ڈھائی سال تک بین الاقوامی کرکٹ کا انتظار کرنا پڑا اور اس عرصے میں پاکستان کے لکھنؤ میں تاریخی فتح کے ہیرو نذر محمد کی خدمات سے محروم ہونا پڑا جو ایک ڈومیسٹک مقابلے میں اپنا بازو زخمی کر بیٹھے اور اس کے ساتھ ہی ان کا ٹیسٹ کیریئر محض پانچ مقابلوں تک ہی محدود رہا۔ یہ بلاشبہ پاکستان کے لیے بڑا نقصان تھا لیکن نذر محمد نے بعد ازاں کوچ اور سلیکٹر کی حیثیت سے پاکستان کرکٹ کے لیے خدمات جاری رکھیں اور تبصرہ کار کی حیثیت سے بھی اپنا نام پیدا کیا۔ یہاں تک کہ یہ ہنر آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوا اور مدثر نذر نے طویل عرصے تک پاکستان کے لیے خدمات انجام دے کر اپنے والد کے مشن کو پورا کیا۔

حنیف محمد کا براہ راست تھرو اور جم میکونن کا رن آؤٹ، پاکستان کی اوول میں تاریخی فتح کا یادگار لمحہ (تصویر: Getty Images)
حنیف محمد کا براہ راست تھرو اور جم میکونن کا رن آؤٹ، پاکستان کی اوول میں تاریخی فتح کا یادگار لمحہ (تصویر: Getty Images)

جون 1954ء میں پاکستان کی ٹیم عبد الحفیظ کاردار کی قیادت میں 'بابائے کرکٹ' انگلستان کے دورے پر روانہ ہوئی۔ "کرکٹ کے گھر" لارڈز میں چار مقابلوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ طے تھا۔ تاریخ کا پہلا پاک-انگلستان مقابلہ ابتدائی تین دنوں تک بارش کی نذر رہا اور دو دن کے ممکنہ کھیل میں کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ جس کے بعد دونوں ٹیمیں ٹرینٹ برج، ناٹنگھم میں آمنے سامنے آئیں جہاں برطانیہ نے ڈینس کومپٹن کی ڈبل سنچری اور ریگ سمپسن کی سنچری کی بدولت پاکستان کو 129 رنز کے مارجن سے شکست دے کر سیریز میں ایک-صفر کی برتری حاصل کرلی۔ اولڈ ٹریفرڈ، مانچسٹر میں ہونے والا سیریز کا تیسرا مقابلہ بھی بارش کی نذر ہوگیا اور یوں پاکستان کے پاس سیریز بچانے کا واحد موقع باقی بچ گیا، اوول میں آخری ٹیسٹ!

اوول کے میدان پر پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے خود بیٹنگ کا فیصلہ کیا، حالانکہ موسم ابر آلود تھا اور حالات تیز باؤلنگ کے لیے انتہائی سازگار تھے۔ اس فیصلے کا خمیازہ پاکستان کو صرف 51 پر سات مستند بلے باز کھو کر بھگتنا پڑا۔ عبد الحفیظ کاردار نے اس فیصلے کی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے وکٹ کیپر امتیاز احمد اور پھر شجاع الدین کے ساتھ مل کر مجموعے کو 77 تک پہنچایا لیکن اس مقام پر وہ خود وکٹوں کے پیچھے شکار ہوگئے۔ یہاں سے شجاع نے پاکستانی علم اپنے ہاتھوں میں تھاما اور ذوالفقار احمد کے ساتھ مل کر پاکستانی اسکور میں 29 اور پھر محمود حسین کے ساتھ مل کر 27 قیمتی رنز جوڑے۔ ان تینوں اختتامی بلے بازوں نے مجموعی طور پر اسکور میں 56 رنز کا اضافہ کیا لیکن اس کے باوجود پاکستان 133 تک ہی پہنچ پایا، جس میں کپتان کے 36 رنز سب سے نمایاں تھے۔

سیریز میں ایک-صفر کی ناقابل شکست برتری کا حامل دنیائے کرکٹ کا سپر انگلستان نووارد پاکستان کو ایک بھاری شکست دینے کے قریب تھا۔ پاکستان کو صرف 133 رنز پر ڈھیر کرنے کے بعد جب برطانوی بلے باز میدان میں اترے ہوں گے، تو ان کی خود اعتمادی کا اندازہ خوب لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ دن پاکستان کے نامور سپوتوں فضل محمود اور محمود حسین کا تھا۔ 26 رنز تک پہنچتے پہنچتے دونوں نے انگلش اوپنرز سے چھٹکارہ پالیا تھا۔ پیٹر مے اور ڈینس کومپٹن کی مزاحمت میں 30 رنز کا اضافہ ہوا او راسکور 56 رنز تک پہنچا۔ اس مقام پر پیٹر مے کے فضل محمود کے ہاتھوں آؤٹ ہوتے ہی انگلستان کے نصیبوں پر سیاہ بادل چھا گئے۔ دونوں باؤلرز نے ڈینس کومپٹن کی مزاحمت کی ایک نہ چلنے دی اور وقفے وقفے سے حریف بلے بازوں کو نشانہ بناتے رہے یہاں تک کہ پوری انگلش ٹیم 130 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ فضل محمود نے 30 اوورز میں 53 رنز دے کر 6 جبکہ محمود حسین نے 21.3 اوورز میں 58 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں۔

پاکستان کو حیرت انگیز باؤلنگ نے ناقابل یقین برتری بھی دلائی اور یوں باؤلرز نے پاکستان کو وہ سنہرا موقع فراہم کیا، جہاں سے وہ مقابلے میں واپس آ سکتا تھا۔ لیکن بلے بازوں نے ایک مرتبہ پھر مایوس کیا۔ جانی وارڈل کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے پاکستانی بلے باز اس مرتبہ بھی کوئی بڑا مجموعہ اکٹھا نہ کرسکے۔ 73 رنز تک 5 وکٹیں گنوانے کے بعد عبد الحفیظ کاردار کی 17 رنز کی مزاحمت کا خاتمہ بھی وارڈل کے ہاتھوں ہوا، جنہوں نے اپنی ہی گیند پر ان کا کیچ تھاما۔ کپتان کی واپسی پاکستان کے لیے بڑا دھچکا تھی۔ دو مزید وکٹیں گرنے کے بعد اسکور 82 رنز پر 8 کھلاڑی آؤٹ ہوچکا تھا اور مجموعی برتری محض 85 رنز کی تھی۔

اس مقام پر وزیر محمد کا ساتھ دینے کے لیے ذوالفقار احمد میدان میں اترے اور یہیں سے اس تاریخی مقابلے نے دوسری مرتبہ پلٹا کھایا۔ وزیر-ذوالفقار نے جانی وارڈل سمیت تمام انگلش باؤلرز کا ڈٹ کر سامنا کیا اور جن کے سامنے مستند بلے باز بے بس تھے، ان کی باؤلنگ کا جراتمندی سے مقابلہ کیا۔ وزیر اور ذوالفقار نے صرف وکٹ پر ٹھہرنے کو ہی ترجیح نہ دی بلکہ مسلسل رنز بنانے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ دونوں نے نویں وکٹ پر 58 قیمتی رنز جوڑے، جس میں ذوالفقار کا حصہ 34 رنز کا تھا جو جانی وارڈل کی چھٹی وکٹ بنے۔ آخری بلے باز محمود حسین کے ساتھ مل کر وزیر محمد نے مزید 24 رنز کا اضافہ کیا اور پاکستان کی برتری کو 167 رنز تک پہنچا دیا۔ محمود حسین 6 رنز بنانے کے بعد جانی وارڈل کے ساتویں شکار بنے اور یوں پاکستان کی دوسری اننگز 164 رنز پر مکمل ہوئی اور انگلستان کو مقابلہ اور سیریز جیتنے کے لیے 168 رنز کا ہدف ملا۔ وزیر محمد 42 رںز کے ساتھ ناقابل شکست میدان سے واپس آئے۔

پاکستان کے اختتامی بلے بازوں کی زبردست مزاحمت نے پاکستان کو ایک ایسا مجموعہ فراہم کردیا تھا، جس کا دفاع باؤلرز گزشتہ اننگز کی کارکردگی دہرا کر کرسکتے تھے۔ لیکن لیونارڈ ہٹن اور ڈینس کومپٹن جیسے تجربہ کار اور پیٹر مے اور ٹام گریونی جیسے نوجوان بلے بازوں کی موجودگی میں انگلستان کو 168 رنز تک پہنچنے سے روکنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرورتھا اور فضل محمود نے اس چیلنج کو قبول کیا۔

سوموار 16 اگست، 1954 ء، اوول ٹیسٹ کا چوتھا دن ، جب انگلش کپتان لیونارڈ ہٹن ساتھی بلے باز ریگ سمپسن کے ساتھ دوسری اننگز کی شروعات کے لیے میدان میں اترے۔ گو کہ فضل محمود نے ہٹن کی وکٹ جلد حاصل کرلی لیکن 66 رنز تک پاکستان صرف یہی ایک وکٹ حاصل کر پای اتھا۔ وقت تیزی سے ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا۔ پیٹر مے اور ریگ سمپسن انگلش اننگز کو مستحکم کررہے تھے۔

آف اسپنر ذوالفقار احمد، جنہوں نے اپنی بلے بازی سے گزشتہ روز انگلستان کو پریشان کا تھا، نے اس موقع پر پاکستان کو اہم ترین کامیابی دلائی۔ انہوں نے سمپسن کو اپنی ہی گیند پر کیچ کے ذریعے میدان بدر کیا لیکن حالات اب بھی انگلستان کے لیے زیادہ پریشان کن نہیں تھے۔ اسے صرف 108 رنز کی ضرورت تھی جبکہ پاکستان کو میچ اور سیریز بچانے کے لیے 8 وکٹیں حاصل کرنا تھیں۔

اس مقام پر پیٹر مے کا ساتھ دینے کے لیے دوسرے ٹیسٹ کے ڈبل سنچورین ڈینس کومپٹن میدان میں اترے اور آتے ہی جم گئے۔ ان دونوں بلے بازوں نے بغیر کسی پریشانی کے مجموعے کو 109 تک پہنچا دیا۔ پیٹر مے اپنی نصف سنچری مکمل کرنے کے بعد اطمینان کے ساتھ 53 رنز پر کھیل رہے تھے اور انگلستان فتح سے محض 59 رنز کے فاصلے پر تھا اور اس کی 8 وکٹیں باقی تھیں۔ کوئی معجزہ ہی انگلستان کو اس مقام تک پہنچنے سے روک سکتا تھا اور اس معجزے کا نام تھا فضل محمود۔ انہوں نے پیٹر مے اور اس کے بعد وکٹ کیپر گوڈفرے ایونز کو ٹھکانے لگایا اور دوسرے اینڈ سے شجاع الدین کے ہاتھوں خطرناک ٹام گریونی کی وکٹ گرگئی۔ انگلستان 116 رنز پر آدھی وکٹیں گنوا بیٹھا تھا اور شاید یہی وہ لمحہ ہوگا جہاں پہلی بار انگلش کھلاڑیوں کے پسینے چھوٹے ہوں گے۔

فضل محمود نے محض 99 رنز دے کر 12 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، اور پاکستان کی یادگار فتح کے معمار بنے (تصویر: Getty Images)
فضل محمود نے محض 99 رنز دے کر 12 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، اور پاکستان کی یادگار فتح کے معمار بنے (تصویر: Getty Images)

فضل محمود کے پے در پے واروں سے سنبھلنے کی کوشش ہی کررہے تھے کہ فضل نے انگلستان کی آخری امید ڈینس کومپٹن کو وکٹوں کے پیچھے امتیاز احمد کے ہاتھوں آؤٹ کرا دیا۔ انگلش بیٹنگ لائن کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ ڈینس کومپٹن کی موجودگی میں انگلستان کے لیے درکار 47 رنز بنانا کچھ مشکل نہ تھا لیکن اس وکٹ کے گرنے سے یہ چند قدم کا فاصلہ بھی اس کے لیے طے کرنا مشکل ہوگیا۔

بہرحال، چوتھے دن کا اختتام پاکستان کے لیے پرامید انداز میں اور انگلستان کے لیے مشکل صورتحال کے ساتھ ہوا۔ جب 17 اگست کو میچ کے پانچویں دن انگلستان 121 رنز 6 کھلاڑی پر دوبارہ کھیلنے کے لیے میدان میں اترا تو کریز پر پچھلی اننگز کے باؤلنگ ہیرو جانی وارڈل اور پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے فرینک ٹائسن موجود تھے۔ دونوں 10 رنز کا اضافہ کرکے ہدف کو محض 37 رںز کے فاصلے پر لے آئے کہ فضل محمود نے اننگز میں پانچواں اور میچ کا دسواں شکار کرلیا۔ اب صرف تین وکٹیں باقی تھیں اور پاکستان کو جانی وارڈل کے خطرے سے بچانے کے لیے بھی فضل محمود کام آئے۔ دوسرے اینڈ سے محمود حسین نے پیٹر لوڈر کو آؤٹ کرکے پاکستان کو صرف ایک وکٹ کے فاصلے پر پہنچا دیا۔

انگلستان صرف ایک وکٹ کے ساتھ 30 رنز کی دوری پر تھا کہ جم میکونن کے حنیف محمد کی براہ راست تھرو پر رن آؤٹ نے پاکستان کی تاریخی فتح پر مہر ثبت کردی۔

پاکستان 24 رنز کی تاریخی فتح سمیٹ کر نہ صرف انگلستان کو شکست دینے میں کامیاب ہوا بلکہ پہلے ہی دورۂ انگلستان میں سیریز بھی ایک-ایک سے برابر کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ فضل محمود نے اپنے مختصر بین الاقوامی کیریئر میں دوسری مرتبہ میچ میں دس یا زیادہ وکٹیں حاصل کیں۔ یہ فضل کی تباہ کن باؤلنگ تھی جس نے پاکستان کے لیے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور تاعمر نیلی آنکھوں والے لڑکے کو 'اوول کا ہیرو' قرار دیا جاتا رہا۔