ٹیسٹ کرکٹ، پاکستان کی یادگار فتوحات (پہلی قسط)

4 1,134

سال 2014ء، مہینہ جنوری، تاریخ 16 اور مقام شارجہ، یہ پاکستان کرکٹ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ پاکستان نے ہدف کے تعاقب میں ایک نئی تاریخ رقم کی اور 300 سے زیادہ رنز کا ہدف محض 58 اوورز میں حاصل کرکے ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ روبہ زوال ٹیسٹ کرکٹ کو اسی طرح کے مقابلے دوبارہ زندہ کریں گے اور بلاشبہ شارجہ ٹیسٹ ابتدائی چار دنوں تک گواہ بناہ رہا کہ ٹیسٹ کرکٹ کیوں ختم ہورہی ہے لیکن آخری دن جس طرح پاکستان نے سری لنکا کو شکست دی، اس سے نہ صرف پاکستان کے بلکہ سری لنکا سمیت دنیا کے تمام شائقین کو ٹیسٹ کرکٹ کا لطف آ گیا۔ حقیقت یہی ہے کہ اس روز صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ٹیسٹ کرکٹ بھی فتحیاب ہوئی۔

شارجہ کی شاندار فتح نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ماضی میں پاکستان کی کئی یادگار فتوحات کی یادوں کو تازہ کریں۔ اس سلسلے کی تمام تحاریر کرک نامہ کی طرف سے پاکستان کے ان ٹیسٹ کرکٹرز کے لیے نذرانہ عقیدت ہیں جنہوں نے بدترین حالات کے باوجود عزم و حوصلے کے ساتھ حریف کا سامنا کیا اور پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان اسی طرح ٹیسٹ کرکٹ کے میدانوں پر کامیابیاں و کامرانیاں سمیٹتا رہا اور نئے سنگ میل عبور کرتا رہے۔ آمین!

اولین بین الاقوامی دورہ اور پہلی یادگار فتح

قیام پاکستان کے محض دس ماہ بعد یکم مئی 1948ء کو کرکٹ کنٹرول بورڈ آف پاکستان اور بعد ازاں بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان پاکستان(بی سی سی پی) کے نام سے پاکستان میں کرکٹ انتظامیہ کا قیام عمل میں آیا۔ (بی سی سی پی کا نام 1994ء میں بدل کر پاکستان کرکٹ بورڈ کیا گیا) لیکن بین الاقوامی کرکٹ کوسل سے باقاعدہ الحاق چار سال بعد جولائی 1952ء میں ہوا اور اسی سال اکتوبر میں پاکستان نے اپنے اولین بین الاقوامی دورے کے لیے روایتی حریف بھارت کا انتخاب کیا۔

اس دورے میں چار روزہ مقابلوں پر مشتمل پانچ ٹیسٹ میچز کھیلنے پر اتفاق کیا گیا اور سیریز کا پہلا مقابلہ ایک اننگز اور 70 رنز کے بھاری مارجن سے میزبان ہندوستان کے نام رہا لیکن دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان نے فضل محمود اور نذر محمد کے شاندار کھیل کی بدولت پہلے بین الاقوامی دورے ہی میں یادگار فتح سمیٹی۔ یہ دن تھا 26 اکتوبر 1952ء کا اور مقام میدان یونیورسٹی گراؤنڈ لکھنؤ۔

لکھنؤ ٹیسٹ میں بھارت کی قیادت لالا امرناتھ اور پاکستان کی کپتانی عبد الحفیظ کاردار کے ہاتھوں میں تھی۔ بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا جو اس کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوا۔ پاکستان کے آنے والے عظیم تیز باؤلرز کے لیے عظمت کا معیار قائم کرنے والے فضل محمود نے ساتھی باؤلرز کی مدد سے بھارت کی پہلی اننگز محض 106 رنز کے مجموعے پر سمیٹ کر حریفوں کے مورچے میں کھلبلی مچا دی۔ فضل محمود نے 24.1 اوورز میں محض 52 رنز دےکر 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور یوں پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار اننگز میں پانچ وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دیا۔ بھارت کی جانب سے پنکج روئے نے 30 رنزکی سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلی۔ ان کے علاوہ صرف تین بلے باز دہرے ہندسے میں پہنچ سکے۔

بلند حوصلوں کے ساتھ نذر محمد اور حنیف محمد کی جوڑی پہلی اننگز کا آغاز کرنے میدان میں اتری اور پاکستان کو 63 رنز کا آغاز فراہم کیا۔ حنیف تو 34 رنز کے بعد آؤٹ ہوگئے لیکن نذر محمد بھارتی گیندبازوں کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہوگئے اور 124 رنز کی شاندار اور ناقابل تسخیر باری کھیلنے کے بعد جب میدان سے لوٹے تو نہ صرف پاکستان کی جانب سے اولین ٹیسٹ سنچری کا اعزاز ان کے نام ہوا بلکہ اولین بیٹ کیری پانے والے بلے باز بھی ٹھہرے۔ نذر کے سامنے دوسرے اینڈ سے پاکستان کی وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی رہیں لیکن نذر محمد نے آخری تین بلےبازوں کے ساتھ مل کر 92 قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔ جس کی بدولت پاکستان پہلی اننگز میں 331 رنز کا مجموعہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہوا اور یوں اسے بھارت پر 225 رنز کی برتری مل گئی، جو بعد ازاں فیصلہ کن ثابت ہوئی۔

اب میزبان بھارت کا پہلا ہدف پاکستان کی 225 رنز کی برتری ختم کرکے اننگز کی شکست سے بچنا تھا لیکن فضل محمود کے ارادے کچھ اور ہی تھے۔ اوپنر پنکج روئے کے محمود حسین کے ہاتھوں آؤٹ ہونے کے بعد بھارت کی بیٹنگ لائن اپ ایک مرتبہ پھر فضل محمود کی طوفانی گیندبازی کے ہتھے چڑھ گئی۔ محض 77 تک پہنچتے پہنچتے آدھی بھارتی ٹیم میدان سے باہر جاچکی تھی، جن میں سے چار کھلاڑی فضل کے ہتھے چڑھے۔ فضل محمود بھارت کے آخری بلے باز شاہ نیالچند کو وکٹوں کے سامنے پھانس کر پاکستان کو ایک اننگز اور 43 رنز کی فتح سے نواز دیا۔ بھارت کی پوری ٹیم دوسری اننگز میں 182 رنز پر ڈھیر ہوئی جس میں لالا امرناتھ 61 رنز کے ساتھ قابل ذکر رہے۔

پاکستان کی جانب سے فضل محمود نے دوسری اننگز میں 27.3 اوورز میں صرف 42 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کیں اور مجموعی طور پر 12 وکٹیں حاصل کرکے میچ میں دس یا زیادہ وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دینے والے پہلے پاکستانی گیندباز بنے۔ ایک ایسا اعزاز، جو ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔

گو کہ پاکستان سیریز کا تیسرا مقابلہ دس وکٹوں سے ہار گیا اور بقیہ دو مقابلوں بھی کسی نتیجے تک پہنچے بغیر ختم ہوئے، اور پاکستان سیریز دو-ایک سے ہار گیا لیکن لکھنؤ میں پاکستان کی اولین ٹیسٹ فتح ایک یادگار لمحہ تھی اور دنیائے کرکٹ میں ایک نئی قوت کی آمد کا اعلان بھی۔