پیسہ بڑا یا پیار؟ فیصلے کے دن آ گئے

2 1,017

گزشتہ کئی روز سے دنیائے کرکٹ میں ایک ہنگامہ بپا ہے۔ بھارت، آسٹریلیا اور انگلستان کی جانب سے بین الاقوامی کرکٹ کی "بہتری" کے لیے پیش کردہ تجاویز نے ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے کہ آیا پیسہ بڑا ہے یا کرکٹ کا کھیل؟

جنوبی افریقہ واحد ملک ہے جس نے واضح الفاظ میں ان سفارشات کی مخالفت کی ہے (تصویر: Getty Images)
جنوبی افریقہ واحد ملک ہے جس نے واضح الفاظ میں ان سفارشات کی مخالفت کی ہے (تصویر: Getty Images)

اس تمام بحث مباحثے کے بعد، کہ جس میں غالب اکثریت سفارشات کے خلاف نظر آئی، حتمی مرحلہ آج یعنی منگل سے دبئی میں شروع ہوگا، جہاں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کا ایگزیکٹو اجلاس منعقد ہورہا ہے جس میں 'تین بڑے' یعنی بھارت، انگلستان اور آسٹریلیا آئی سی سی کےدیگر سات مستقل اراکین کے سامنے یہ سفارشات پیش کریں گے۔

رواں ماہ کے اوائل میں آئی سی سی کی مالیاتی و تجارتی امور کمیٹی کے ورکنگ گروپ کی جانب سے تیار کی گئی یہ تجاویز 21 صفحات پر مشتمل ہیں جن میں انتظامی و آمدنی کے تقسیم کے لحاظ سے بین الاقوامی کرکٹ کے معاملات پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لیکن خبر منظرعام پر آنے کے بعد جتنی تنقید ان تجاویز پر ہوچکی ہے، اس کے بعد پیش کردہ تینوں ممالک نے کچھ تبدیلی کے بعد سفارشات پیش کرنے کی ٹھانی ہے۔

زبردست تنقید کے بعد تینوں ممالک ممکنہ چند تجاویز پر اپنی رائے واپس لیں گے جیسا کہ ٹیسٹ کرکٹ کو دو درجات میں تقسیم کرنے اور درجہ بندی میں آخری دو ٹیموں کو مستقل رکنیت سے محروم کرکے انٹرکانٹی نینٹل کپ میں تنزلی کرنے کی سفارش بھی شامل ہے۔ اب تک جو سفارشات منظرعام پر آئی ہیں، ان سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ کمرشلائزیشن کی زد میں موجود کرکٹ کو پیسہ کمانے کی مزید بڑی مشین بنانے کی کوشش کی جائے گی جیسا کہ کم منافع بخش ٹیسٹ کرکٹ سے نظریں پھیرنے کی سفارشات ہی سے ظاہر ہے۔ اگر یہ سفارشات منظور ہوجاتی ہیں تو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا مستقبل تو مخدوش ہوہی جائے گا، جو پہلے ہی 2013ء کے بجائے 2017ء تک موخر ہوچکی ہے۔

اس کے علاوہ جس تجویز کو تبدیل کرکے پیش کیے جانے کا امکان ہے وہ مجوزہ ایگزیکٹو کمیٹی کے تشکیل کے معاملات اور اس کے اراکین کی تعداد کے حوالے سے ہے۔ یہ مجوزہ کمیٹی درحقیقت کرکٹ کے تمام معاملات کو دیکھے گی اور اس کے تین مستقل اراکین بھارت، آسٹریلیا اور انگلستان ہوں گے اور ابتداءً یہ کہا گیا تھا کہ بقیہ سات میں سے صرف ایک ملک کو منتخب کرکے اس کمیٹی کا حصہ بنایا جائے گا لیکن اب امکان ہے کہ یہ تعداد بڑھا کر دو کردی جائے گی یعنی کمیٹی کل پانچ اراکین پر مشتمل ہوگی، جن میں تین مستقل اور دو غیر مستقل ہوں گے، یعنی کرکٹ میں بھی سلامتی کونسل بنانے کی تجویز ہے جس میں تین ممالک کو ویٹو کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

ان متنازع تجاویز کے سامنے آنے کے بعد سے اب تک مختلف ممالک کی جانب سے مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ پاکستان اور سری لنکا اپنے مالی بحرانوں کی وجہ سے صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اونٹ کے کسی ایک کروٹ پر بیٹھنے کے بعد ہی کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ نیوزی لینڈ کو غالباً یہ اشارہ دیا جاچکا تھا کہ درجہ بندی کے نظام کو بالائی چار اور زیریں چار کے حصوں میں تقسیم کرنے کی سفارش واپس لے لی جائے گی، شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے حیران کن طور پر اس نظام کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ کرکٹ کے وسیع تر مفاد میں ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش بھی، جو گزشتہ کئی دنوں نے نئی سفارشات کا سخت مخالف نظر آیا، اب شدت میں کچھ کمی اختیارکرے کیونکہ اس کا بھی سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ اگر سفارشات منظور کرلی جاتیں تو وہ ٹیسٹ کے بجائے انٹرکانٹی نینٹل کپ کھیل رہا ہوتا۔ ویسٹ انڈیز بھی تذبذب میں مبتلا ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ جو فیصلہ کرے گا وہ ویسٹ انڈین کرکٹ کے مفاد میں ہوگا۔ یوں اب صرف ایک حقیقی مخالف باقی بچ جاتا ہے، ٹیسٹ کا عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ۔ جو اس پورے معاملے میں سب سے زیادہ گھاٹے میں رہے گا۔ دیگر ممالک کی جانب سے جنوبی افریقہ کی طرح واضح موقف نہ اپنانے کا سبب یہی ہے کہ وہ 'تین بڑے' ممالک کی مخالفت کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے اور نہ ہی لے سکتے ہیں۔

'تین بڑوں' کو ان سفارشات کی منظوری کے لیے 10 میں سے 8 ووٹوں کی ضرورت ہے اور اگر باقی ممالک اس 'مثلث' کے جھانسے میں آ گئے تو کچھ بعید نہیں کہ یہ سفارشات منظور بھی ہوجائیں اور کرکٹ کے موت کے پروانے پر خود کھیل کے رکھوالے دستخط کردیں۔ یعنی آج اور کل کا دن کرکٹ، بالخصوص ٹیسٹ، کے مستقل کے حوالے سے بہت اہم ہے۔