نیوزی لینڈ 4، بھارت 0

3 1,029

نیوزی لینڈ نے کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے تقریباً اسی طرح بھارت کو شکست دی، جس طرح گزشتہ مقابلوں میں دے کر سیریز اپنے نام کی تھی اور پانچواں و آخری ون ڈے بھی جیت کر سیریز میں فتح کا مارجن چار-صفر کردیا۔

روز ٹیلر کو مسلسل دوسری سنچری میچ کے بہترین کھلاڑی کے اعزاز سے نواز گئی (تصویر: Getty Images)
روز ٹیلر کو مسلسل دوسری سنچری میچ کے بہترین کھلاڑی کے اعزاز سے نواز گئی (تصویر: Getty Images)

جب ٹیم انڈیا دورے کے لیے نیوزی لینڈ پہنچی تھی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ون ڈے کی عالمی نمبر ایک ٹیم درجہ بندی میں آٹھویں نمبر پر موجود میزبان کے ہاتھوں ایک مقابلہ بھی نہ جیت پائے گی۔ لیکن نیوزی لینڈ نے نپی تلی باؤلنگ، بہترین بیٹنگ اور شاندار فیلڈنگ کے ذریعے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے اور آخری مقابلہ بھی 87 رنز کے واضح فرق سے جیتا۔ سیریز کا واحد مقابلہ جہاں بھارت شکست سے تو بچ گیا، لیکن جیت پھر بھی نہ سکا، رویندر جدیجا کی کارکردگی کی بدولت ٹائی ہونے والا تیسرا ون ڈے تھا۔ اس کے علاوہ تمام ہی مقابلوں میں نیوزی لینڈ چھایا رہا اور اس کی کارکردگی نے بھارت کی بیرون ملک اہلیت پر ایک مرتبہ پھر سوالیہ نشان عائد کردیا ہے۔

ویلنگٹن کے ویسٹ پیک اسٹیڈیم میں ہونے والے آخری ون ڈے میں بھارت کی دلچسپی صرف اتنی بچی تھی کہ وہ سیریز میں ہونے والی شکست کے مارجن کو کم کرسکے لیکن ان فارم بلے بازوں روز ٹیلر اور کین ولیم سن نے ایک مشکل وکٹ پر بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کرکے بھارت کے تمام ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ روز ٹیلر نے مسلسل دوسرے ون ڈے میں سنچری اسکور کی اور 106 گیندوں پر 102 رنز بنانے کے بعد بالکل حتمی لمحات میں حریف باؤلرز کی جان چھوڑی۔

دوسرے اینڈ سے کین ولیم سن کی فارم کا سلسلہ جاری رہا جنہوں نے مسلسل پانچویں ون ڈے میں نصف سنچری کے ذریعے عالمی ریکارڈ برابر کیا۔ کسی سیریز 5 ایک روزہ مقابلوں کی سیریز میں نصف سنچریاں بنانے کا اعزاز ان سے قبل ہم وطن اینڈریو جانز کے پاس تھا جنہوں نے 1988-89ء میں پاکستان کے خلاف ہوم سیریز میں مسلسل پانچ مقابلوں میں نصف سنچریاں بنائی تھیں۔ ویسے پاکستان کے یاسر حمید کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے ایک ہی سیریز میں مسلسل پانچ مقابلوں میں چار نصف سنچریاں اور ایک سنچری بنائی۔ ولیم سن نے 91 گیندوں پر 88 رنز بنائے اور سیریز میں 361 رنز بنا کر سب سے زیادہ رنز کا نیا قومی ریکارڈ بھی قائم کیا۔

بہرحال، تیسری وکٹ پر ٹیلر اور ولیم سن کے درمیان 152 رنز کی شاندار رفاقت نے نیوزی لینڈ کی فتح کی بنیاد رکھ دی اور آخری اوورز میں جمی نیشام کے 19 گیندوں پر 38 رنز نے مجموعے کو 300 کی نفسیاتی حد بھی پار کرادی۔

مددگار وکٹ کے باوجود بھارت کے باؤلرز کا حال ایک مرتبہ پھر بہت برا تھا۔ صرف جزوقتی باؤلر ویراٹ کوہلی ہی تھے جنہیں 6 سے کم اوسط سے رنز پڑے باقی سب اس سے آگے آگے ہی رہے۔ محمد شامی اور ورون آرون کے 10 اوورز میں 61 اور 60، بھوونیشور کمار کے 8 اوورز میں 48 رنز پڑے جبکہ اسپنرز روی چندر آشون اور رویندر جدیجا کو بالترتیب 6 اور 9 اوورز میں 37 اور 54 رنز کی مار سہنا پڑی۔ آرون کو دو جبکہ شامی، بھوونیشور اور کوہلی کو ایک، ایک وکٹ ملی۔

ہدف کے تعاقب میں بھارت کا آغاز ہی مقابلے کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ جب دسویں اوور میں شیکھر دھاون کی صورت میں بھارت کی دوسری وکٹ گری تو اس وقت اسکور بورڈ پر محض 20 رنز تھے، جی ہاں! دنیائے کرکٹ کے تین 'مہان' بلے بازوں شیکھردھان ، روہیت شرما اور ویراٹ کوہلی نے اس وقت 2 رنز فی اوور کے اوسط سے رنز بنائے جب بھارت کو ہمہ وقت 6 رنز فی اوور سے زیادہ کا اوسط درکار تھا۔ اس کے بعدجو نتیجہ نکلنا چاہیے تھا، آخر میں وہی نکلا۔

بڑھتے ہوئےدرکار اوسط کے دباؤ تلے بھارت وکٹیں گنواتا چلا گیا اور تقریباً پورے اوور کھیلنے کے باوجوددرکار رن اوسط کے قریب بھی نہ پھٹک سکا۔ ویراٹ کوہلی 82 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں رہے جبکہ مہندر سنگھ دھونی نے 47رنز بنائے۔ البتہ دھونی نے 72 گیندوں کا استعمال کیا اور محض تین چوکے لگائے یعنی رنز کی رفتار کو تیز کرنا ان کے بس کی بات ہی نہ لگتی تھی۔ درحقیقت میچ کا فیصلہ اسی وقت ہوچکا تھا جب 37 ویں اوور کی پہلی گیند پر کوہلی آؤٹ ہوئے تھے۔ اس وقت بھارت نے نصف منزل بھی طے نہ کی تھی۔

نیوزی لینڈ کی جانب سے پہلا ون ڈے کھیلنے والے میٹ ہنری نے 38 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور اپنے ڈیبیو کو یادگار بنایا۔ دو، دو وکٹیں کائل ملز اور کین ولیم سن کو ملیں۔ ایک، ایک کھلاڑی کو جمی نیشام اور ناتھن میک کولم نے آؤٹ کیا۔

اس طرح جنوبی افریقہ اور انگلستان کے خلاف شاندار فتوحات کے بعد نیوزی لینڈ کے تاج میں ایک اور نگینے کا اضافہ ہوا، عالمی نمبر ایک بھارت کے خلاف ایک سیریز فتح، جس کے نتیجے میں بھارت کی نمبر ایک پوزیشن بھی چھن گئی۔ روز ٹیلر کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

بھارت دورۂ نیوزی لینڈ میں پہلے امتحان میں تو بری طرح ناکام ہوا ہے، لیکن اس کی اس کی اگلی آزمائش ٹیسٹ سیریز ہے جو 6 فروری سے آکلینڈ میں شروع ہورہی ہے۔ بھارت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بکھرے ہوئے حوصلوں کو مجتمع کرے اور فتوحات کے ذریعے شکستوں کے داغ دھوئے، کیونکہ آسٹریلیا اور انگلستان تو کجا نیوزی لینڈ جیسے حریف کے خلاف بھی بیرون ملک شکستیں اس کی اہلیت پر سوالیہ نشان اٹھا رہی ہیں۔