شعیب اختر، متنازع و شاندار کیریئر کا اختتام

5 1,046

انتہائی طویل رن اپ، بجلی کی کوند کی طرح وکٹ کی جانب لپکنے والی گیندیں، بلے باز کو زمین چاٹنے پر مجبور کر دینے والے باؤنسرز، وکٹ لینے کے بعد پرواز کا انداز اور بلے بازوں کو زچ کر دینے والی حرکتیں، شاید دنیائے کرکٹ کو اب ایسا باؤلر میسر نہیں آئے گا۔ عالمی کپ 2011ء کے سیمی فائنل میں پاکستان کا سفر تمام ہوتے ہی برق رفتار باؤلر شعیب اختر کے کیریئر کا بھی اختتام ہو گیا۔

شعیب اختر، جنہوں نے عالمی کپ کے دوران اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا، بدقسمتی سے اعلان کے بعد کوئی میچ نہ کھیل سکے اور نیوزی لینڈ کے خلاف گروپ میچ ہی ان کا آخری میچ ثابت ہوا جس میں ناقص کارکردگی نے ان کے یادگار کیریئرکے اختتام کو افسوسناک بنا دیا۔

شعیب اختر اپنی برق رفتار گیندوں، خوبصورت یارکرز، منہ توڑ باؤنسرز اور تنازعات سے بھرے کیریئر کے باعث کرکٹ شائقین کو برسوں یاد رہیں گے۔ وہ کرکٹ کی تاریخ کی سب سے تیز گیند کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں جس میں انہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار کا سنگ میل عبور کیا۔ آج ہم ان کے کیریئر کا ایک اجمالی جائزہ لیں گے اور یادگار لمحات شیئر کریں گے۔

1997ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنے ہوم گراؤنڈ پر بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کرنے والے شعیب اختر نے آخری مرتبہ دسمبر 2007ء میں بھارت کے خلاف پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ مجموعی طور پر انہوں نے 46 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 178 وکٹیں حاصل کیں۔ 11 رنز دے کر حریف کے 6 بلے بازوں کو پویلین لوٹانا ان کی بہترین کارکردگی تھی۔ گو کہ وکٹوں یہ تعداد بظاہر بہت زیادہ نہیں لگتی لیکن شعیب کی خاص بات اہم مواقع پر حریف ٹیم کے اہم بلے بازوں کی وکٹیں حاصل کرنا، انہیں بولڈ یا ایل بی ڈبلیو کرنا اور فتوحات میں اہم کردارادا کرنا ہے۔

انہوں نے کیریئر کی ابتداء ہی میں ماہرین کرکٹ اور شائقین کے دل موہ لیے۔ اپنے پہلے دورے یعنی دورۂ جنوبی افریقہ میں پروٹیز بلے باز ان کی برق رفتاری کو نہ سہہ سکے اور ان کی باؤلنگ ہی کی بدولت پاکستان نے ڈربن میں جنوبی افریقہ کے خلاف پہلی یادگار ٹیسٹ فتح حاصل کی۔ میچ میں تمام پانچ وکٹیں انہوں نے بغیر کسی فیلڈر کی مدد کے حاصل کیں یعنی سب شکار بولڈ یا ایل بی ڈبلیو تھے۔ بلکہ ان کے پورے کیریئر میں ان کی یہ 'سولو فلائٹ' جاری رہی ان کے کل 178 شکاروں میں سے 99 بولڈ یا ایل بی ڈبلیو ہو کر پویلین لوٹے۔

1999ء میں بھارت کے خلاف کولکتہ ٹیسٹ میں ان کی کارکردگی بھلا کون بھول سکتا ہے؟ کم از کم بھارتی اور پاکستانی شائقین تو کبھی نہیں۔ ان کی بجلی کی سی تیزی سے آنے والی ان سوئنگنگ یارکرز پر راہول ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکر کے دو مسلسل گیندوں پر بولڈ ہونے کا نظارہ آج بھی ان شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں تازہ ہوگا۔ یہ سچن کی زندگی کا واحد گولڈن ڈک تھا اور یہیں سے شعیب اور سچن کی حریفانہ کشاکش کا سلسلہ شروع ہوا۔ واضح رہے کہ یہ دونوں کاپہلا سامنا تھا جس میں میدان شعیب نے مارا۔

انضباطی مسائل اور انجریز کے باعث قومی ٹیم میں ان کی آوت جاوت ہوتی رہی اور ان کی کارکردگی میں بھی عدم تسلسل تھا جس کی وجہ سے متعدد مواقع پر فٹ ہونے کے باوجود انہیں منتخب نہیں کیا گیا۔ لیکن 2002ء میں وہ بھرپور قوت کے ساتھ کرکٹ میدانوں میں واپس آئے۔ انہوں نے کولمبو میں آسٹریلیا کے خلاف واحد اسپیل میں رکی پونٹنگ، اسٹیو واہ، مارک واہ اور ایڈم گلکرسٹ کو آؤٹ کیا وہ بلاشبہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی بہترین باؤلنگ کارکردگیوں میں سے ایک تھی۔

اسی سال انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں کیریئر بیسٹ باؤلنگ کی۔ محض 11 رنز دے کر انہوں نے بلیک کیپس کے 6 بلے بازوں کو پویلین کا راستہ دکھایا۔ ان میں سے پانچ بلے بازوں کو انہوں نے بولڈ اور ایک کو ایل بی ڈبلیو کیا۔

ان کے علاوہ شعیب اختر کے بجلی کی رفتار سے آنے والے باؤنسرز بھی بلے بازوں کے لیے بڑا خطرہ تھے۔ یہ بات کم از کم جنوبی افریقہ کے گیری کرسٹن تو خوب سمجھ گئے۔ راولپنڈی میں کھیلے گئے ایک ٹیسٹ کے دوران شعیب اختر کا ایک باؤنسر ان کے چہرے پر لگا اور ہیلمٹ ہونے کے باوجود ان کے چہرے پر چھ ٹانکے لگے اورناک کی ہڈی بھی ٹوٹی۔

تاریخ کے بہترین بلے بازوں میں شمار ہونے والے برائن لارا بھی شعیب اختر کا اک شاندار باؤنسر کھا چکے ہیں۔

حتی کہ سچن ٹنڈولکر جو ہمیشہ شعیب کے روایتی حریف تھے ان کے باؤنسرز کو سہہ چکے ہیں۔

شعیب اختر بحیثیت مجموعی ٹیسٹ کرکٹ کے ایک خطرناک باؤلر تھے۔ اگر انجریز کے مسائل اور ڈسپلن کی کمی ان کے آڑے نہ آتی تو آج بلاشبہ دنیا انہیں تاریخ کے بہترین باؤلرز میں شمار کرتی۔

13 سال پر محیط کیریئر کے دوران شعیب اختر نے 163 ایک روزہ مقابلے بھی کھیلے جن میں کل 247 وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی بہترین کارکردگی 16 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کرنا رہی۔

1999ء کے عالمی کپ میں ان کی کارکردگی یادگار رہی۔ انگلستان کی تیز باؤلرز کے لیے مددگار کنڈیشنز میں انہوں نے 10 میچز میں 16 وکٹیں حاصل کیں اور نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں یادگار کارکردگی کا مظاہرہ کر کے میچ کا بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی گیند پر ڈیمین فلیمنگ کا بولڈ ہونے کا منظر اب بھی شائقین کے ذہنوں میں تازہ ہوگا۔ اگر نہیں ہے تو دیکھ لیجیے۔

دونوں طرز کی کرکٹ میں نیوزی لینڈ سے ان کو 'خدا واسطے کا بیر' رہا اور انہوں نے سب سے بہترین کارکردگی بلیک کیپس کے خلاف ہی دکھائی۔

شعیب اختر نے اپنے کیریئر کا بہترین دور 2002ء اور 2003ء میں گزارا۔ جس میں ٹیسٹ اور ایک روزہ دونوں کرکٹ میں انہوں نے حریف بلے بازوں پر اپنی دہشت بٹھا دی۔ اس عرصے میں ان کا اسٹرائیک ریٹ اور وکٹ اوسط دنیا کے بہترین باؤلرز متیاہ مرلی دھرن اور گلین میک گرا کے قریب قریب ہو گیا۔ شعیب اختر ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کے پانچ باؤلرز میں سے ایک ہیں جنہوں نے 25 سے کم اوسط سے 150 وکٹیں حاصل کیں اور 32 سے کم کا اسٹرائیک ریٹ بھی رکھا۔

ایک روزہ کرکٹ میں ان کی یادگار ترین کارکردگی 2002ء میں برسبین میں آسٹریلیا کے خلاف تھی جس میں انہوں نے رکی پونٹنگ، ڈیمین مارٹن، ڈیرن لیمن اور مائیکل بیون جیسے عظیم بلےبازوں کو پویلین کا راستہ دکھا کر 25 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں۔

خاص بات یہ کہ شعیب اختر کی کارکردگی پاکستان کے لیے فتح گر ثابت ہوتی تھی۔ ان کی کل 247 وکٹوں میں سے 154 وہ ہیں جن میں پاکستان نے فتح حاصل کی۔

انہوں نے 2003ء میں عالمی کپ کے دوران انگلستان کے خلاف 100 میل فی گھنٹے کی رفتار سے تیز گیند پھینک کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ وہ اس سنگ میل کو عبور کرنے والی دنیا کے پہلے باؤلر تھے اور اب بھی تیز رفتار ترین گیند کا ریکارڈ انہی کے پاس ہے۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ تیز گیند باز ہمیشہ جارح مزاج ہوتا ہے اور یہ جارحیت و غصہ اس کی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ حریف بلے باز پر بھی فوقیت حاصل کرتا ہے لیکن شعیب اختر کی جارح مزاجی آف فیلڈ بھی ان کے ساتھ رہتی۔ اسی وجہ سے وہ ڈسپلن کے مسائل کا شکار رہتے۔ کبھی کھلاڑیوں اور کبھی اپنے ہی کوچ سے الجھنا انہیں بہت مہنگا پڑتا۔ اس پر طرہ یہ کہ ایکشن اور فٹ رہنے کے مسائل نے ان کے کیریئر کو بری طرح متاثر کیا۔ انہیں اپنا باؤلنگ ایکشن بھی بدلنا پڑا البتہ اس تبدیلی کے باوجود ان کی رفتار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ 35 سال کی عمر اور فربہ جسم کے ساتھ بھی انہوں نے حالیہ عالمی کپ میں 95 میل فی گھنٹہ سے تیز گیندیں پھینکیں جو اس وقت بھی دنیائے کرکٹ میں صرف ایک یا دو باؤلرز پھینک سکتے ہیں۔

شعیب اختر کے کیریئر کا اختتام اک شاندار باب کا خاتمہ ہے۔ دنیائے کرکٹ کے کئی بلے بازوں نے ان کی ریٹائرمنٹ پر سکھ کا سانس لیا ہوگا۔

ہمارے خیال میں شعیب کے کیریئر کی سب سے شاندار سیریز یہ تھی جس میں ایشیز 2005ء میں عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کو زیر کرنے والے انگلستان کے خلاف پاکستان نے شعیب ہی کی کارکردگی کی بدولت فتح حاصل کی۔ اس سیریز میں ان کی حاصل کردہ وکٹیں ملاحظہ کیجیے اور اس عظیم باؤلر کو کرکٹ میدانوں سے رخصت کیجیے۔