"بہت بے آبرو ہوکر"، انگلستان کے خلاف ایک اور کلین سویپ

1 1,110

2009ء اور 2010ء میں پاکستان کا دستہ آسٹریلیا پہنچا اور یہ دورہ پاکستان کے بدترین زوال کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ ٹیم تینوں ٹیسٹ مقابلے اور اس کے بعد تمام ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز میں شکست کھانے کے بعد اس حالت میں وطن واپس پہنچی کہ کھلاڑیوں کے خلاف انکوائری کمیشن بٹھایا گیا جس نے شکست کے اسباب پر غور کیا اور چند کھلاڑیوں کو سخت سزاؤں سے بھی نوازا۔ اب 4 سال بعد انگلستان کا حال بھی پاکستان جیسا ہی ہوا ہے۔ پانچ ٹیسٹ، پانچ ون ڈے اور تین ٹی ٹوئنٹی مقابلوں پر محیط اس طویل دورے میں اسے صرف ایک ون ڈے مقابلہ جیتنے کی توفیق نصیب ہوئی ورنہ ہر مقام پر ہر جگہ اسے ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا اور بالکل یہی کہانی سڈنی میں دورے کے آخری مقابلے یعنی تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں بھی دہرائی گئی ۔ 21 نومبر کو برسبین میں جس سیریز کا آغاز انگلستان کی 381 رنز کی بدترین شکست کے ساتھ ہوا تھا، 2 فروری کو اختتام بھی 84 رنز کی ہزیمت کے ساتھ ہوا اور یوں آسٹریلیا نے ٹی ٹوئنٹی مرحلہ تین-صفر سے جیت لیا۔

جیڈ ڈرنباخ کی یہ تصویر ان کی انفرادی کارکردگی اور ساتھ سیریز میں انگلستان کے حال کی بہترین عکاسی کرتی ہے (تصویر: Getty Images)
جیڈ ڈرنباخ کی یہ تصویر ان کی انفرادی کارکردگی اور ساتھ سیریز میں انگلستان کے حال کی بہترین عکاسی کرتی ہے (تصویر: Getty Images)

آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹںگ کرنے کا فیصلہ کیا تو ابتدائی 14 اوورز تک اسے حریف باؤلرز پر وہ غلبہ حاصل نہ ہوسکا جو گزشتہ مقابلوں میں ملا تھا۔ جب ان فارم کیمرون وائٹ 37 گیندوں پر 41 رنز بنا کر میدان سے واپس آئے تو 130 رنز ہی اسکور بورڈ پر موجود تھے اور صرف 6 اوورز کا کھیل باقی تھا۔ اس مقام پر ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں شاندار کارکردگی کے ذریعے ناقدین کے منہ بند کرنے والے آسٹریلوی کپتان جارج بیلی نے اپنی شاندار بیٹنگ صلاحیتیں دکھائیں۔ صرف 20 گیندوں پر 49 رنز کی دھواں دار باری نے بلند حوصلہ آسٹریلیا کو آسمان پر پہنچا دیا۔ بیلی نے جیڈ ڈرنباخ کی جانب سے پھینکے گئے اننگز کے آخری اوور کا آغاز وائیڈ لانگ آن پر چوکے کے ساتھ کیا اور پھر اگلی دونوں گیندیں چھکے کے لیے روانہ کردیں۔ اس افتاد سے بے حال ڈرنباخ نے اگلی دونوں گیندوں پر بھی چوکے کھائے اور جب ان کا 26 رنز کا اوور مکمل ہوا تو اسکور بورڈ پر 195 رنز کا ہندسہ جگمگا رہا تھا یعنی کہ آخری 5 اوورز میں 58 رنز لوٹے گئے۔ بیلی ناقابل شکست میدان سے واپس آئے۔ بیلی اور وائٹ کے علاوہ آرون فنچ نے 30 رنز بنائے اور آسٹریلیا کو 48 رنز کا آغاز بھی فراہم کیا۔ 29 رنز بین کٹنگ نے بنائے۔

جیڈ ڈرنباخ جو گزشتہ ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں مکمل طور پر میزبان بلے بازوں کے رحم و کرم پر تھے، آج بھی جارج بیلی کے ہتھے چڑھے اور 4 اوورز کا کوٹہ 49 رنز دے کر مکمل کیا۔ بین اسٹوکس کے تین اوورز میں 36 جبکہ ٹم بریسنن اور کرس جارڈن کے چار، چار اوورز میں بالترتیب 42 اور 23 رنز بنے۔ واحد مثبت پہلو اسٹورٹ براڈ کی باؤلنگ تھی جنہوں نے 4 اوورز میں 30 رنز دیے اور 3 وکٹیں حاصل کیں۔

پے در پے شکستوں سے بے حال انگلستان ایک لمحے کے لیے بھی ہدف کے تعاقب میں سنجیدہ نہ دکھائی دیا۔ محض 25 رنز پر تین ابتدائی بلے بازوں کے دہرے ہندسے میں پہنچے بغیر آؤٹ ہونے کے بعد ایون مورگن کی 20 گیندوں پر 34 رنز کی اننگز ہی تھی جو قابل ذکر تھی اور بعد ازاں پوری ٹیم 18 ویں اوور میں 111 رنز بنا کر ڈھیر ہوگئی۔

آسٹریلیا کی جانب سے ناتھن کولٹر-نائیل، گلین میکس ویل اور جیمز موئرہیڈ نے دو، دو وکٹیں حاصل کیں جبکہ ایک، ایک وکٹ مچل اسٹارک، بین کٹنگ اور ڈین کرسچن کو ملی۔

آسٹریلیا نے باؤلنگ کے ساتھ فیلڈنگ میں بھی بہت عمدہ کارکردگی دکھائی اور چند شاندار کیچ تھام کر ہر شعبہ کھیل میں انگلستان کا پتہ صاف کیا۔

ٹیسٹ سیریز میں پانچ-صفر، ون ڈے میں چار-ایک اور اب ٹی ٹوئنٹی میں تین-صفر کی ذلت کا طوق لیے اب انگلش دستہ وطن واپس پہنچے گا تو غالباً ویسی ہی تحقیقات اور بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اس کی منتظر ہوں گی جیسی کہ پاکستان نے 2010ء میں بھگتی تھیں۔