کرکٹ ختم ہوگئی، پاکستان کو سخت نقصان ہوگا: سابق سربراہان پی سی بی

9 1,053

تین ممالک کی متنازع سفارشات پر جس طرح ایک، ایک کرکے تمام مہرے گرتے چلے گئے اور بالآخر آج انہیں باضابطہ قانونی شکل دے دی گئی، اس سے کرکٹ سے محبت کرنے والے ہر شخص کو سخت دھچکا پہنچا ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ پاکستان جو پہلے ہی دنیائے کرکٹ میں تنہا ہے، اب مزید تنہائی کا شکار ہوجائے گا بالخصوص مالی لحاظ سے مزید نقصان بھگتے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیف ایگزیکٹو عارف علی خان عباسی نے کہا ہے کہ آج کرکٹ کی تاریخ کا ایک افسوسناک دن ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ کرکٹ بحیثیت کھیل آج ختم ہوگئی۔

پاکستان کو جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، خالد محمود کا ذکا اشرف کو مشورہ (تصویر: AFP)
پاکستان کو جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، خالد محمود کا ذکا اشرف کو مشورہ (تصویر: AFP)

پاکستان اور سری لنکا کے موقف کو جراتمندانہ قرار دیتے ہوئے عارف عباسی نے کہا کہ جس صورتحال میں جنوبی افریقہ جیسا مضبوط ملک بھی نہ ٹک سکا، یہ دونوں مالی لحاظ سے کمزور ممالک اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سری لنکا کے بغیر عالمی کرکٹ پھیکی ہوگی اور ورلڈ کپ سے لے کر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی تک کسی ٹورنامنٹ میں شائقین کرکٹ کو وہ لطف نہیں آئے گا جو ان دونوں ٹیموں کی موجودگی سے آتا ہے۔

عارف عباسی نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی کرکٹ کونسل کا جمہوری دور اپنے اختتام کو پہنچا اور ان تجاویز کی منظوری کے ساتھ یہ بات طے ہوگئی ہے کہ اب دنیا پر صرف بھارت کی چلے گی۔ اس نے آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسے ممالک کو اپنے ساتھ ملا کر آئی سی سی کے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اس لیے اب وہی ہوگا جو بھارت چاہے گا۔

سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ خالد محمود نے کہا کہ کمزور وکالت کی وجہ سے پاکستان کے موقف کو پذیرائی حاصل نہ ہوسکی اور پھر پی سی بی نے ردعمل دکھانے میں تاخیر بھی بہت کی۔ اگر پہلے اجلاس کے فوراً بعد کھل کر مخالفت کی جاتی تو شاید معاملات اس حد تک نہ بگڑتے۔ انہوں نے کہا کہ اب آئی سی سی کے نئے مالیاتی سیٹ اپ سے پاکستان کو مالی طور پر سخت نقصان پہنچے گا اس لیے اب بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا بالخصوص پاکستان اور سری لنکا کو آئی سی سی کے کسی ٹورنامنٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ بہت ٹھنڈے دماغ کے ساتھ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے کہ ان سفارشات میں، جو اب قانون بن چکی ہیں، کیسے ترامیم کروائی جا سکتی ہیں۔