بھارت کی بیرون ملک شکستوں کا سلسلہ دراز تر، آکلینڈ میں نیوزی لینڈ کی یادگار جیت

5 1,037

نیوزی لینڈ نے بھارت کی بیرون ملک شکستوں کے سلسلے کو مزید دراز کرتے ہوئے آکلینڈ میں 40 رنز سے شاندار کامیابی سمیٹ لی۔ ابتدائی ڈھائی دنوں تک نیوزی لینڈ کے حق میں رہنے والا مقابلہ بھارت کی شاندار باؤلںگ اور ٹاپ آرڈر کی عمدہ بلے بازی کی بدولت سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہوگیا لیکن نیوزی لینڈ کے تیز باؤلرز نے بھارت کی ایک نہ چلنے دی اور 407 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنے والے بھارتی دستے کو 366 رنز پر آؤٹ کردیا اور سیریز میں ایک-صفر کی ناقابل شکست برتری حاصل کرلی۔ میچ میں بھارت کی تمام وکٹیں تیز مثلث 'نائیل ویگنر-ٹم ساؤتھی-ٹرینٹ بولٹ' کے ہاتھ لگیں۔ ویگنر نے میچ میں 8 اور ساؤتھی اور بولٹ نے 6، 6 وکٹیں حاصل کیں۔ ان کے ساتھ نیوزی لینڈ کی اس یادگار فتح کے ہیرو تھے کپتان برینڈن میک کولم جن کی پہلی اننگز میں ڈبل سنچری نے میزبان کو اتنے بڑے مجموعے تک پہنچایا کہ بھارت دوسری اننگز میں نیوزی لینڈ کو 105 رنز پر ڈھیر کرنے کے بعد بھی ہدف تک نہ پہنچ پایا۔ اس شاندار کارکردگی پر کپتان کو مرد میدا ن بھی قرار دیا گیا۔

میچ میں بھارت کی تمام وکٹیں نیوزی لینڈ کی 'تیز مثلث' نے حاصل کیں (تصویر: Getty Images)
میچ میں بھارت کی تمام وکٹیں نیوزی لینڈ کی 'تیز مثلث' نے حاصل کیں (تصویر: Getty Images)

دوسری جانب بھارت کی بیرون ملک شکستوں کی داستان مزید طویل ہوگئی ہے۔ 2011ء میں ایک روزہ کرکٹ کا عالمی چیمپئن بننے کے بعد سے بھارتی ٹیسٹ کرکٹ تحت الثریٰ میں پہنچ گئی ہے۔ عالمی کپ کے بعد سے اب تک یعنی تقریباً تین سالوں میں بھارت نے بیرون ملک 15 ٹیسٹ کھیلے اور صرف ایک جیتا اور 10 میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس سے ہی بھارت کی بیرون ملک کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن نیوزی لینڈ جیسے حریف کے خلاف اتنی بھیانک کارکردگی کی توقع کسی کو نہ ہوگی۔ بالخصوص اس صورتحال میں کہ سیریز شروع ہونے سے قبل چند بھارتی ماہرین نے یہ بیانات تک دیے کہ نیوزی لینڈ کو ہرگز کمزور حریف نہیں سمجھنا چاہیے۔ اب ان 'ماہرین' سے پوچھا جانا چاہیے کہ اب کیا خیال ہے آپ کا؟

ویسے جس طرح پہلی اننگز میں 301 رنز کے خسارے میں جانے کے باوجود بھارت دوسری اننگز میں شاندار باؤلنگ کے ذریعے مقابلے میں واپس آیا، اس پر ٹیم انڈیا کے لیے داد تو بنتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف داد سے 407 رنز کا ہدف عبور نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے بھارت کو سخت جدوجہد کی ضرورت تھی اور بلاشبہ اس کے بلے بازوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی بھی۔ بس نیوزی لینڈ کے باؤلرز زیادہ قوی ثابت ہوگئے۔

بہرحال، آپ کو مقابلے کا احوال سناتے ہیں جو آخری دن تو اعصاب شکن مرحلے تک پہنچا۔ 407 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے بھارت اس وقت تک بہترین پوزیشن میں تھا جب تک کہ 'رنز بنانے کی مشین' ویراٹ کوہلی کریز پر موجود رہے۔ محض 36 رنز پر مرلی وجے کی وکٹ گنوانے کے بعد شیکھر دھاون اور ویراٹ کوہلی نے بھارت کو وہ بنیاد فراہم کی جس پر وہ فتح کی عمارت تعمیر کر سکتا تھا۔ دونوں نے چیتشور پجارا کے آؤٹ ہونے کے بعد تیسری وکٹ پر 126 قیمتی رنز جوڑے اور معاملہ یہاں تک پہنچا دیا کہ بھارت 222 رنز پر پہنچ گیا تھا اور اس کی محض دو وکٹیں گری تھیں یعنی فتح سے صرف 185 رنز کا فاصلہ اور 8 وکٹیں باقی!

لیکن ایک ناقص شاٹ، ایک ناقص شاٹ نے مقابلے کا پانسہ پلٹ دیا۔ ویراٹ کوہلی نائیل ویگنر کی اٹھتی اور باہر جاتی ہوئی گیند پر غلط شاٹ کا انتخاب کر بیٹھے۔ بجائے اس گیند پر کٹ کھیلنے کے انہوں نے پل کرنے کی کوشش کی اور بری طرح ناکام ہوئے۔ نتیجہ گیند بلے کا نچلا کنارہ لیتی ہوئی وکٹ کیپر بریڈلے-جان واٹلنگ کے ہاتھوں میں چلی گئی اور یہی وہ کامیابی تھی جس کا نیوزی لینڈ منتظر تھا۔ کوہلی 62 رنز بنانے کے بعد بوجھل قدموں سے میدان سے لوٹے اور محض 26 رنز کے اضافے پر بعد سنچورین شیکھر دھاون بھی نائیل ویگنر کے ایک انتہائی خوبصورت باؤنسر کا نشانہ بن کر وکٹوں کے پیچھے کیچ تھما گئے۔

دو سیٹ بلے باز میدان سے جاچکے تھے اور بھارت اب بھی فتح سے 159 رنز کے فاصلے پر تھا۔ گو کہ یہ اتنا مشکل معاملہ نہ تھا لیکن ایسا لگتا تھا کہ نیوزی لینڈ کے باؤلرز کے باؤلرز میں رچرڈ ہیڈلی کی روح در آئی تھی۔ انہوں نے کمال جرات مندی دکھائی۔ ٹرینٹ بولٹ نے اجنکیا راہانے اور ٹم ساؤتھی شرما کو آؤٹ کرکے بھارتی صفوں میں زبردست افراتفری پیدا کردی کیونکہ اب معاملہ بلے بازوں کی آخری مستند جوڑی تک آن پہنچا تھا، مہندر سنگھ دھونی اور رویندر جدیجا اور دونوں کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مزید 137 رنز ناقابل یقین ہدف نہ لگتے تھے۔

دونوں نے کھل کر کھیلنا شروع کیا بالخصوص رویندر اپنے روایتی جارحانہ موڈ میں نظر آئے اور 21 گیندوں پر ایک چھکے اور چار چوکوں کی مدد سے 28 رنز بنانے کے بعد اس طرح وکٹ دے گئے کہ وہ اپنی پوری محنت پر پانی پھیردینے کے مترادف تھی۔ بھارت رویندر کے شاندار چھکے کے بعد اب ہدف سے محض 87 رنز کے فاصلے پر تھا لیکن روی کو نجانے کیا سوجھی کہ مزید ایک مرتبہ گیند کو باہر پھینکنے کی کوشش کرنے لگے اور نتیجہ مڈ آن پر کیچ کی صورت میں نکلا۔ ٹرینٹ بولٹ کی گیند پر آگے بڑھ کر کھیلنے کی بے وقوفانہ کوشش بھارت کو سخت ترین دباؤ میں لے آئی۔ اس مرحلے پر کپتان دھونی نے بہت کوشش کی کہ مقابلے پر گرفت کو کمزور نہ کریں اور ظہیر نے اس کوشش میں ان کا بھرپور ساتھ بھی دیا لیکن نائیل ویگنر ایک مرتبہ پھر نیوزی لینڈ کو اہم موقع پر وکٹ دلانے میں کامیاب ہوئے۔ اس مرتبہ شکار ظہیر خان تھے جو 17 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔

میچ کا فیصلہ کن لمحہ 96 ویں اوور میں آیا جب نائیل ویگنر کی آخری گیند پر مہندر سنگھ دھونی لازمی ایک رن دوڑنا چاہتے تھے۔ اٹھتی ہوئی گیند کو ایک جانب کھیلنے کی کوشش ناکام ہوئی اور گیند بلے کا اندرونی کنارہ لیتی ہوئی وکٹوں میں جا گھسی۔ دھونی کی 39 رنز کی مزاحمت کا خاتمہ ہوا اور اگلے ہی اوور میں ٹرینٹ بولٹ نے ایشانت شرما کو وکٹوں کے پیچھے آؤٹ کرکے مقابلے کا خاتمہ کردیا۔

نائیل ویگنر نے چار قیمتی ترین وکٹیں سمیٹیں اور نیوزی لینڈ کے سب سے نمایاں باؤلر رہے جبکہ ٹرینٹ بولٹ اور ٹم ساؤتھی نے تین، تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

اس طرح بھارت کو بیرون ملک فتح کو ترسے ہوئے 13 ٹیسٹ مقابلے اور تین سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ بھارت نے آخری مرتبہ جون 2011ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کنگسٹن، جمیکا میں ٹیسٹ جیتا تھا۔

قبل ازیں ایک روزہ سیریز میں شکست کھانے کے بعد بھارت نے ٹیسٹ مرحلے کا آغاز ٹاس جیت کر نیوزی لینڈ کو بیٹنگ کی دعوت کے ذریعے کیا اور محض 30 رنز پر میزبان کی 3 وکٹیں حاصل کرکے اس فیصلے کو درست کیا لیکن ان فارم کین ولیم سن اور کپتان برینڈن میک کولم نے بھارت کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیا اور دونوں نے تیسری وکٹ پر 221 رنز جڑ ڈالے۔

بھارت کو پہلی اننگز کی ناقص کارکردگی بہت مہنگی پڑ گئی کہ ناقابل یقین باؤلںگ بھی اسے نہ بچا سکی (تصویر: Getty Images)
بھارت کو پہلی اننگز کی ناقص کارکردگی بہت مہنگی پڑ گئی کہ ناقابل یقین باؤلںگ بھی اسے نہ بچا سکی (تصویر: Getty Images)

کین ولیم سن نے مسلسل پانچ ایک روزہ مقابلوں میں نصف سنچریوں کے بعد اپنی بہترین فارم میں پانچویں ٹیسٹ سنچری کو بھی شامل کرلیا۔ یوں بھارت کے خلاف حالیہ سیریز میں وہ تقریباً 80 کے اوسط سے 474 رنز جڑ چکے ہیں اور ہر مرتبہ کم از کم 50 کا ہندسہ ضرور عبور کیا۔ دوسرے اینڈ سے برینڈن میک کولم اگلی پچھلی تمام کسریں نکالنے کے موڈ میں تھے اور انہوں نے بحیثیت کپتان کیریئر کی بہترین اننگز کھیلی اور ایک یادگار ڈبل سنچری کے ذریعے نیوزی لینڈ کو اوج ثریا تک پہنچا دیا۔ نیوزی لینڈ کی 503 رنز کی اننگز میں ولیم سن کا حصہ 113 رنز کا تھا جبکہ میک کولم نے تقریباً آدھے یعنی 224 رنز بنائے۔ دونوں نے چوتھی وکٹ پر 221 رنز کی شاندار رفاقت قائم کی۔ کوری اینڈرسن 77 رنز کے ساتھ تیسرے نمایاں بلے باز رہے۔

نیوزی لینڈ کے 503 رنز کے مجموعے کو مزید شاندار بناتی ہے رنز بنانے کی رفتار۔ یہ رنز صرف 121.4 اوورز میں بنائے گئے یعنی 4.13 رنز فی اوور کا اوسط وہ بھی ایک ایسی وکٹ پر جس کا اچھال اور رفتار آخری دن تک کم ہونے میں نہیں آئی تھی۔ دوسرے روز نیوزی لینڈ کے کھیل نے مزید تیز رفتاری پکڑی اور تقریباً 32 اوور میں 174 رنز لوٹے۔

بھارت کے تمام ہی باؤلرز مہنگے ثابت ہوئے۔ ایشانت شرما نے 134 رنز کھا کر 6 وکٹیں ضرور حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں ظہیر خان کو اور ایک، ایک محمد شامی اور رویندر جدیجا کو ملیں۔

بھارت کی باؤلنگ جس قدر مایوس کن تھی، بیٹنگ کا آغاز اس سے بھی زیادہ بھیانک تھا۔ ابتدائی 20 اوورز ہی میں گویا مقابلے کا فیصلہ ہوگیا۔ شیکھر دھاون اور چیتشور پجارا پہلے ہی اوور میں ٹرینٹ بولٹ کے ہتھے چڑھے اور ویراٹ کوہلی ٹم ساؤتھی کے ایک خوبصورت باؤنسر پر جب دوسری سلپ میں کیچ دے گئے تو اسکور بورڈ پر صرف 10 رنز موجود تھے۔

اجنکیا راہانے اور روہیت شرما نے اس موقع پر اننگز کو بچانے کی کوشش کی اور دوسرے روز مزید کوئی وکٹ نہ گرنے دی لیکن تیسرے دن پانی کے پہلے وقفے سے بھی پہلے بھارت راہانے اور روہیت سمیت کپتان مہندر سنگھ دھونی کی قیمتی وکٹ سے بھی محروم کردیا گیا تھا۔ نیوزی لینڈ کی پیس بیٹری اپنا بھرپور کام دکھا رہی تھی اور ان سب کو میدان بدر کرنے کے بعد بھلا کون مزاحمت کرتا؟ صرف 202 رنز پر بھارتی اننگز کی بساط لپیٹی جاچکی تھی۔ صرف روہیت شرما 72 اور رویندر جدیجا 30 رنز کے ساتھ قابل ذکر تھے۔

پہلی اننگز میں نائیل ویگنر نے 4 جبکہ ٹرینٹ بولٹ اور ٹم ساؤتھی نے تین، تین وکٹیں حاصل کیں۔

اس موقع پر نیوزی لینڈ نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو فالو آن پر مجبور نہ کیا۔ یہ سخاوت اس وقت بہت مہنگی ثابت ہوئی جب حد درجہ خود اعتمادی نیوزی لینڈ کو لے ڈوبے اور وہ پہلے اوور سے لے کر اننگز کے اختتام تک ایک لمحے کے لیے بھی وکٹیں نہ بچا سکا۔ محض 25 رنز پر پانچ کھلاڑی آؤٹ اور پھر 105 رنز پر پوری ٹیم ڈھیر۔ بلے بازی کے اس بدترین مظاہرے کے باوجود نیوزی لینڈ کو 406 رنز کی برتری ملی، جس میں کمال پہلی اننگز کی کارکردگی کا تھا۔
بھارت کو مقابلے میں واپس لانے کا کارنامہ محمد شامی نے انجام دیا جنہوں نے نیوزی لینڈ کے دونوں اوپنرز پیٹر فلٹن اور ہمیش ردرفرڈ کے علاوہ کوری اینڈرسن کی قیمتی وکٹ بھی حاصل کیں جبکہ اتنی ہی یعنی تین وکٹیں ایشانت شرما کو بھی ملیں جن کی میچ میں وکٹوں کی تعداد 9 ہوگئی۔ دو کھلاڑیوں کو ظہیر خان نے جبکہ ایک کو رویندر جدیجا نے آؤٹ کیا۔

لیکن 407 رنز کا ہدف بھارت کے لیے بہت حد سے زیادہ ثابت ہوا اور اس کی مزاحمت 366 رنز تک پہنچ کر دم توڑ گئی اور نیوزی لینڈ کو سیریز میں ناقابل شکست برتری دے گئی۔

آکلینڈ میں شاندار فتح نیوزی لینڈ کی فتوحات کا زبردست تسلسل ہے اور اب دیکھنا ہے کہ 14 فروری کو ویلنگٹن میں شروع ہونے والے دوسرے ٹیسٹ سے بھارت بیرون ملک شکستوں کے سلسلے کو توڑتا ہے یا ایک اور مایوس کن سیریز شکست اس کے نصیب میں لکھی جاتی ہے۔