عالمی کپ 2011ء اور فیصلوں پر نظرثانی کا نظام

4 1,084

عالمی کپ دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا ایونٹ ہے اور اس میں ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی اہم ترین جدت اختیار کی جاتی ہے۔ 1992ء میں رنگین لباسوں اور مصنوعی روشنی میں کھیلے جانے والے مقابلوں سے لے کر 2007ء میں پہلی مرتبہ پاور پلے کے استعمال تک، ہر جدت اس کھیل کے حسن کو مزید بڑھا رہی ہے۔

عالمی کپ 2011ء میں پہلی مرتبہ امپائرز کے فیصلوں پر نظر ثانی کا نظام "امپائرز ڈسیژن ریویو سسٹم" (UDRS) متعارف کروایا گیا۔ جس کا مقصد امپائرز کے غلط فیصلوں سے میچ کے نتائج پر پڑنے والے اثر کو کم کرنا اور آن فیلڈ امپائرز کو فیصلوں میں بہتری کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت دینا ہے۔ یہ نظام کچھ ہی عرصے میں کرکٹرز اور شائقین کی بڑی تعداد کے دل موہ چکا ہے۔ الٹرا سلو موشن کیمرے، ہاٹ اسپاٹ، اسنکو، ہاک آئی اور دیگر جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے امپائرز کے لیے درست ترین فیصلہ کرنا بہت آسان بنا دیا گیا ہے۔

گو کہ اس نظام کا مقصد میچز کے دوران فیلڈ امپائر کے فیصلے سے پیدا ہونے والے تنازعات کو کم سے کم کرنا تھا لیکن عالمی کپ کے دوران دیکھا گیا ہے کہ کئی مواقع پر یہ نظام تنازع کا باعث بھی بنا۔ اس کی ایک وجہ کھلاڑی کی اس کے قوانین سے عدم واقفیت ہے۔

بھارت و انگلستان کے مابین میچ میں این بیل کا متنازع ایل بی ڈبلیو

پہلی مرتبہ اس نظام سے متعلق تنازع اس وقت سامنے آیا جب بھارت اور انگلستان کے درمیان میچ میں ایک اہم موقع پر انگلش بلے باز این بیل کو ایل بی ڈبلیو نہیں دیا گیا حالانکہ ہاک آئی سے واضح نظر آ رہا تھا کہ گیند وکٹوں سے لگ رہی ہے۔ امپائرز کے فیصلے کا سبب وہ فاصلہ تھا جو گیند کے پیڈ پر لگنے کے مقام اور وکٹوں کے درمیان تھا یعنی 2٫5 میٹر سے زیادہ فاصلہ۔ بین الاقوامی کرکٹ کے قانون کے تحت اگر گیند کے جسم سے ٹکرانے کا مقام وکٹوں سے 2٫5 میٹر سے زیادہ ہو تو وہی فیصلہ مانا جائے گا جو آن فیلڈ امپائر نے دیا ہے۔ کیونکہ امپائر نے این بیل کو ناٹ آؤٹ قرار دیا تھا اس لیے ان کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا جس پر بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں نے اس قانون کو آڑے ہاتھوں لیا۔

ابھی اس تنازع کی گرد ہی نہ بیٹھنے پائی تھی کہ پاکستان اور کینیڈا معرکہ میں اس نظام کا مثبت پہلو سامنے آیا جس نے ثابت کیا کہ امپائرز کے فیصلوں پر نظر ثانی کا نظام کی کیا اہمیت ہے؟ اس مقابلے میں پاکستان کے 184 پر آل آؤٹ ہو جانے کے بعد کینیڈا نے بیٹنگ کا آغاز کیا تو پاکستانی باؤلرز کو دو چیلنجز درپیش تھے ایک کینیڈا کو نسبتاً کم ہدف تک پہنچنے سے روکنا اور دوسرا امپائرز سے اپنے حق میں فیصلے لینا۔ لیکن امپائر ڈیرل ہارپر اور نائجل لونگ سے اپنے حق میں فیصلہ نکلوانا اس دن پاکستانی باؤلرز کے لیے بہت مشکل رہا۔ کئی مرتبہ کھلاڑیوں کو فیلڈ امپائرز کے فیصلے کے خلاف تیسرے امپائر سے رجوع کرنا پڑا۔

آئرش کپتان اشوکا ڈی سلوا اور تیسرے امپائر کی جانب آؤٹ قرار دیئے جانے پر ناخوش

اس نظام کے تحت صرف ڈیرل ہارپر کو اپنے تین فیصلے واپس لے کر پاکستان کے حق میں دینا پڑے اور پاکستان یہ مقابلہ 46 رنز سے جیت گیا۔ اس میچ نے ثابت کیا کہ یو ڈی آر ایس کیوں ضروری ہے ۔ اگر اس عالمی کپ میں یہ نظام متعارف نہ کروایا جاتا تو بہت زیادہ ممکن تھا کہ اس دن میچ کا نتیجہ مختلف ہوتا اور عالمی کپ 2011ء میں ایک اور اپ سیٹ ہونے کے ساتھ اس کا مکمل نقشہ بھی آج کے مقابلے میں کافی تبدیل ہو چکا ہوتا۔

عالمی کپ کی نوآموز ٹیموں میں سے جس ٹیم نے سب سے زیادہ متاثر کن کارکردگی پیش کی وہ آئرلینڈ کی ٹیم تھی۔ جس نے انگلستان کے خلاف اپ سیٹ فتح حاصل کر کے اگلے مرحلے تک پہنچنے کے امکانات روشن کیے اور اس سلسلے میں اس کا اہم ترین میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف تھا جس میں فتح اسے کوارٹر فائنل تک پہنچا دیتی۔ لیکن ویسٹ انڈیز کی جانب سے دیے گئے 276 کے ہدف کے تعاقب میں آئرش ٹیم کے 199 پر پانچ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے اس موقع پر اہم ترین کردار گیری ولسن کا تھا کا ویسٹ انڈین کپتان ڈیرن سیمی کی گیند پر امپائر اشوکا ڈی سلوا نے انتہائی متنازع ایل بی ڈبلیو دیا جس پر غور کے لیے آئرش ٹیم نے تیسرے امپائر سے رجوع کیا۔ ہاک آئی میں واضح طور پر ناٹ آؤٹ ہونے کے باوجود امپائر اشوکا ڈی سلوا نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا اور آئرلینڈ کی امیدوں کا آخری چراغ گل کر دیا۔ میچ کے بعد آئرلینڈ نے علی الاعلان اس فیصلے پر اپنی خفگی کا اظہار کیا اور جس کا نتیجہ انہیں آئی سی سی کی جانب سے تنبیہ کی صورت میں بھی بھگتنا پڑا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس فیصلے نے میچ اور ٹورنامنٹ کے نتیجے پر بہت زیادہ اثرات چھوڑے۔

سعید اجمل کی گیند کا ہاک آئی ویو جس پر سچن ٹنڈولکر کو ناٹ آؤٹ قرار دیا گیا

بعد ازاں پاکستان اور بھارت کے مابین کھیلے جانے والے سیمی فائنل میں بھی اس جدید نظام کے کئی کمزور پہلو سامنے آئے۔ بھارتی اننگ کے گیارہویں اوور میں سعید اجمل نے سچن ٹنڈولکر کو وکٹوں کے سامنے دھر لیا لیکن ٹنڈولکر کے ریویو کی درخواست پر جب ہاک آئی سے دیکھا گیا تو نظر آیا کہ بال وکٹوں کو نہیں چھو رہی جس پر تیسرے امپائر نے فیلڈ امپائر ایان گولڈ کے فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے ٹنڈولکر کو نئی زندگی فراہم کی۔ سعید اجمل نے تیسرے امپائر کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں 110 فیصد یقین ہے کہ ٹنڈولکر ایل بی ڈبلیو ہوگئے تھے کیوں کہ انہوں نے ایک سیدھی آرم بال کرائی تھی جبکہ ہاک آئی میں وہ گیند لیگ اسپن ہوتی دکھائی گئی ہے۔ کئی حلقوں کی جانب سے بھی یہ نقطہ سامنے آیا کہ ہاک آئی بنانے کے لیے خودکار کمپیوٹرائزڈ ٹیکنالوجی استعمال کی جانی چاہیے نا کہ اسے ہاتھ سے بنایا جائے کیوں کہ اس میں غلطی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

عالمی کپ میں اعلی کارکردگی دکھانے والے امپائرز میں پاکستان کے علیم ڈار بھی شامل ہیں۔ علیم ڈار وہ واحد امپائر ہیں کہ جن کا عالمی کپ 2011ء میں ایک بھی فیصلہ UDRS کے تحت تبدیل کیا گیا ہو۔ فائنل میں ان کے ہمراہ فیلڈ امپائرنگ کے فرائض انجام دینے والے آسٹریلوی امپائر سائمن ٹوفل کو بھی یہ اعزاز حاصل تھا لیکن آخری میچ میں ان کا فیصلہ تیسرے امپائر کی جانب سے تبدیل ہوا۔ علیم ڈار کی عقابی نگاہیں گیند اور بلے کے درمیان جنگ میں ہر لمحہ اس جگہ مرکوز رہتی ہیں، جہاں ان کو کوئی اہم فیصلہ لینا ہوتا ہے۔ عالمی کپ سے قبل ایشیز سیریز میں بھی انہوں نے شاندار امپائرنگ کا مظاہرہ کیا اور اب عالمی کپ میں ان کے درست فیصلے انہیں بہترین امپائر کے اعزاز کا حقیقی مستحق قرار دیتی ہیں۔ وہ گزشتہ دو سالوں سے آئی سی سی کا 'سال کے بہترین امپائر' کا اعزاز حاصل کر رہے ہیں۔