کیا دھونی سے ٹیسٹ کپتانی واپس لینےکا وقت آ گیا؟

5 1,018

بھارت ایک مرتبہ پھر 'بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے' کی عملی تصویر بن گیا ہے۔ آسٹریلیا، انگلستان اور جنوبی افریقہ تو سخت حریف تھے لیکن نیوزی لینڈ جیسے ملک کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں شکست تو کسی طور ہضم نہیں ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ پہلی بار انتہائی شدت کے ساتھ مہندر سنگھ دھونی کی قیادت پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔

انگلستان، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف شکست تو ماضی کا بن گئی لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف ہار کسی طرح ہضم نہیں ہورہی (تصویر: Getty Images)
انگلستان، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف شکست تو ماضی کا بن گئی لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف ہار کسی طرح ہضم نہیں ہورہی (تصویر: Getty Images)

محدود طرز کی کرکٹ میں بلاشبہ بھارت ایک اہم مقام پر فائز ہے اور 2011ء میں عالمی کپ جیتنے کے بعد سے اب تک وہ تسلسل کے ساتھ ایک روزہ کرکٹ میں کارکردگی دکھاتا آ رہا ہے لیکن بدقسمتی سے انہیں ایام میں اس کی ٹیسٹ کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے، بالخصوص بیرون ملک میں۔جہاں اس عرصے میں کھیلے گئے 15 میں سے 10 مقابلوں میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں انگلستان اور آسٹریلیا کے خلاف کلین سویپ شکستیں بھی شامل ہیں۔

اب سب سے زیادہ یہ شور مچ رہا ہے کہ ٹیسٹ میں دھونی انتہائی دفاعی کپتان ہیں اور مقابلے پر حاوی پوزیشن پر آنے کے باوجود حتمی وار کرنے میں ہچکچاتے ہیں جس کا فائدہ مخالف ٹیم اٹھا لے جاتی ہے جیسا کہ ویلنگٹن ٹیسٹ میں ہوا۔ بیسن ریزرو میں ہونے والے سیریز کے دوسرے و اہم مقابلے میں نیوزی لینڈ دوسری اننگز میں محض 94 رنز پر آدھی ٹیم گنوا بیٹھا تھا اور اننگز کی شکست سے دوچار تھا لیکن اس وقت دھونی نے نہ صرف اپنے تیز باؤلرز کو کھل کر موقع نہ دیے بلکہ فیلڈ سیٹ کرنے میں بھی دفاعی سوچ ملحوظ خاطر رکھی۔ اس مرحلے پر رویندر جدیجا کو گیند تھما ئی گئی، جو بالکل بے ضرر ثابت ہوئے اور شاذونادر ہی کوئی فیلڈر بلے بازوں کے قریب کھڑا کیا گیا۔ اس کا نتیجہ نیوزی لینڈ کی ناقابل یقین انداز میں واپسی اور پھر سیریز جیتنے کی صورت میں نکلا۔

گزشتہ ڈھائی تین سالوں میں بیرون ملک ہر ٹیسٹ مقابلے کی تقریباً یہی کہانی ہے۔ 2011ء کے دورۂ انگلستان میں دو مرتبہ، دورۂ آسٹریلیا کے ملبورن ٹیسٹ میں، حالیہ دورۂ جنوبی افریقہ میں جوہانسبرگ میں جیتا ہوا مقابلہ ضایع کرنے سے لے کر ویلنگٹن میں حریف کپتان کو تاریخی ٹرپل سنچری بنانے کا موقع دے کر سیریز ہارنے تک، شکستوں کی ایک طویل داستان ہے۔

ایک اہم عنصر دھونی کی تھکاوٹ بھی ہے۔ نومبر 2008ء میں کل وقتی ٹیسٹ کپتان بننے کے بعد انہوں نے کوچ گیری کرسٹن کے ساتھ مل کر ایک سال میں بھارت کو عالمی نمبر ایک بنا دیا لیکن اس کے بعد کم از کم ٹیسٹ میں تو بھارت کارکردگی کے لحاظ سے ہر لمحہ زوال پذیر ہے۔ دھونی ٹیسٹ کے علاوہ بھارت کی قومی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیموں کی اور انڈین پریمیئر لیگ اور چیمپئنز لیگ میں چنئی سپر کنگز کی قیادت کرکے ذہنی و جسمانی طور پر شدید تھکاوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ اتنے اہم عہدوں پر فائز ہونے کے بعد مختلف حالات، افراد، تنازعات اور میڈیا کا بیک وقت سامنا کرنا دشوار کام ہے اور اس وقت تو انتہائی مشکل ہوجاتا ہے جب ٹیم شکست سے دوچار ہو۔

لیکن جس طرح پاکستان میں مصباح الحق کی قیادت پر اعتراض اٹھائے جاتے ہیں تو جواب یہی آتا ہے کہ مصباح کی جگہ کون؟ تو بالکل یہی صورتحال بھارت کو بھی درپیش ہے کہ اگر دھونی کو ٹیسٹ قیادت سے ہٹا دیا جائے تو ان کا جانشیں کون ہوسکتا ہے؟ اور کیا بھارت بھی دیگر ممالک کی طرح مختلف طرز کی کرکٹ میں الگ الگ کپتان مقرر کرے؟

اس سلسلے میں سب سے پہلا نام ویراٹ کوہلی کا آتا ہے۔ جوشیلا ویراٹ اب غالباً گالم گلوچ اور فحش اشاروں کے مرحلے سے باہر نکل چکا ہے اور آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے بعد اب نیوزی لینڈ میں بھی سنچری داغ کر اپنی اہلیت ثابت کرچکا ہے۔ ماضی میں انڈر19 ورلڈ کپ میں بھارت کی قیادت کرنے والا کوہلی نوجوان بھی ہے اور باصلاحیت بھی اور اس میں وہ کرشماتی شخصیت بھی دکھائی دیتی ہے جو بھارت کو آکے لے جا سکتی ہے۔

نئے کپتان کا فوری تقرر ضروری ہے یا نہیں، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ بھارت کو متبادل قیادت پر غور ابھی سے شروع کر دینا چاہیے۔