"بھارت" دنیائے کرکٹ کا نیا عالمی چیمپئن؛ سری لنکا ایک بار پھر ناکام

9 1,127

بھارت کی آل راؤنڈ کارکردگی نے اسے 28 سال بعد ایک بار پھر دنیائے کرکٹ کا نیا عالمی چمپیئن بنا دیا۔ اس ناقابل فراموش فتح کے ساتھ بھارت نے عالمی کپ 1996ء کے سیمی فائنل میں سری لنکا سے شکست کا بدلہ چکا یا اور سری لنکن ٹیم کو مسلسل دوسری بار عالمی کپ کے فائنل میں پہنچ کر شکست کا منہ دیکھنا نصیب ہوا۔ بھارت کے ماسٹر بلاسٹر سچن ٹنڈولکر کا عالمی کپ تھامنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا جس کے لیے انہوں نے چھ بار عالمی کپ کھیل مقابلوں میں حصہ لیا۔ جبکہ اپنا آخری میچ کھیلنے والے سری لنکن جادوگر اسپنر مرلی دھرن اپنے کیریئر کا اختتام خوش گوار بنانے کی آرزو لیے میدان سے رخصت ہوئے۔

بھارتی کے سب سے بڑے شہر ممبئی میں کرکٹ کے مرکز وانکھیڑے اسٹیڈیم میں دو میزبان ملکوں کے مقابلے سے عالمی فاتح کا فیصلہ میزبان ملک کے حق میں ہوا۔ گوتم گمبھیر اور کپتان مہندر سنگھ دھونی کی ذمہ دارانہ بلے بازی نے بھارت کو سری لنکا کے خلاف ایک یادگار فتح دلوائی۔ جبکہ سری لنکن ٹیم کے قائد مہیلا جے وردھنے کی شاندار سنچری ان کے گیند بازوں کی ناقص کارکردگی کے باعث رائیگاں چلی گئی۔

بھارتی ٹیم کے ہوم کراؤڈ کی بھرپور سپورٹ اس عالمی کپ میں دوسروں کے لیے زبردست دباؤ کا باعث بنی۔ یہی وجہ ہے کہ فائنل مقابلے میں ٹاس کے وقت میچ ریفری بھی جیفری کروو بھی گڑ بڑا گئے۔ پہلی بار بھارتی کپتان نے سکہ اچھالا تو نتیجہ سری لنکن کپتان کے حق میں آیا جنہوں نے "ہیڈز" کہا تھا۔ تاہم میچ ریفری نے یہ کہہ کر دوبارہ ٹاس کرنے کی ہدایت کی کہ وہ سری لنکن کپتان کا کہا گیا لفظ درست انداز میں سن نہیں سکے۔ بہرحال! دوسری بار بھر سری لنکن کپتان نے ٹاس جیتا اور پہلے بلے بازی کو ترجیح دی لیکن یہ منفرد واقعہ بھی عالمی کپ کے فائنل کو ایک اچھوتا رنگ دے گیا۔

بھارت نے سیمی فائنل میں روایتی حریف پاکستان کو شکست دینے کے بعد فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی ٹیم میں صرف ایک تبدیلی کرتے ہوئے زخمی اشیش نہرا کی جگہ سری سانتھ کو شامل کیا جبکہ نیوزی لینڈ کو شکست دینے والی سری لنکن ٹیم حیرت انگیز طور پر 4 تبدیلیوں کے ساتھ میدان میں اتری جن میں اجنتھا مینڈس، چمارا سلوا، اینجلو میتھیوس، رنگانا ہیراتھ کی جگہ چمارا کاپوگدرا، نوان کاسکرا سوراج رندیو اور تھیسارا پریرا شامل تھے۔

پہلے بلے بازی کرتے ہوئے سری لنکن ٹیم بھارتی گیند بازوں کی نپی تلی بالنگ کے باعث دباؤ میں نظر آئی۔ دونوں اوپنر گزشتہ مقابلوں کی تاریخ نہ دھرا سکے جس کی وجہ سے سری لنکا کو ایک خراب آغاز میسر آیا۔ 15 ویں اوور میں دو پاور پلے ختم ہو جانے کے بعد سری لنکا کا اسکور صرف 60 رنز تھا جبکہ اس کا 1 کھلاڑی بھی پویلین لوٹ چکا تھا۔ اوپنرز کی ناکامی کے بعد مڈل آرڈر کے مستند بلے بازوں نے کسی حد تک اننگ کو سنبھالا جن میں مہیلا جے وردھنے (103) اور بدقسمتی سے نصف سنچری سے محروم رہ جانے والے کپتان کمار سنگاکارا (48) کی ذمہ دارانہ اننگ بھی شامل تھی۔ علاوہ ازیں تھیلا سماراویرا (21) اور نوان کولاسیکرا (32) نے بھی مہیلا جے وردھنے کے ساتھ مل کر اسکور کو آگے بڑھایا۔ آخری دو اوورز میں تھیسرارا پریرا (22) کی برق رفتار اننگ نے بھی سری لنکن مجموعہ کو 274 کے قابل ذکر مجموعہ تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارت کی جانب سے ایک بار پھر ظہیر خان اور یووراج سنگھ نے زبردست گیند بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو، دو کھلاڑی شکار کیے جبکہ ہربھجن سنگھ کے حصہ میں ایک وکٹ آئی۔

سری لنکن بلے بازوں نے خراب آغاز کے باوجود 275 رنز کا ایک قابل دفاع ہدف بھارت کے سامنے رکھا۔ جس کے تعاقب میں بھارتی اننگ کی ابتداء بھی سری لنکا سے ملتی جلتی ہوئی۔ ان کے شعلہ فشاں بلے باز وریندر سہواگ پہلے ہی اوور میں اس وقت لاستھ مالنگا کا شکار بن گئے جب ابھی بھارت کا کھاتہ بھی نہ کھلا تھا۔ بھارتی ٹیم ابھی اسی دھچکے سے سنبھل ہی نہ پایا تھا کہ مالنگا نے سچن ٹنڈولکر (18 رنز) کی سب سے قیمتی وکٹ حاصل کر لی۔ سچن جو اپنے بین الاقوامی کیریئر کی 100 ویں سنچری کی تلاش میں تھے، نامراد لوٹے لیکن ان کے جلد آؤٹ ہونے سے بڑا ہدف خطرے میں پڑ گیا یعنی عالمی کپ کا حصول۔ اس موقع پر گوتم گمبھیر اور ویرات کوہلی (35) جیسے نوجوان کھلاڑیوں نے ذمہ داری سنبھالی اور سری لنکن گیند بازوں کے ہر وار کا مقابلہ کرتے ہوئے تیسری وکٹ پر اسکور میں 83 قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔

114 کے مجموعی اسکور پر 3 وکٹیں گر جانے کے بعد کپتان مہندر سنگھ دھونی نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے خود بیٹنگ کرنے کے لیے میدان میں اترے اور اور گوتم گمبھیر کے ہمراہ ہدف کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ دونوں کھلاڑیوں نے 109 رنز کی شراکت کرتے ہوئے ٹیم کو بہت ایک مستحکم پوزیشن پر پہنچا یا لیکن گوتم گمبھیر (97) بدقسمتی سے اپنی سنچری مکمل نہ کر سکے۔ بعد ازاں کپتان مہندر سنگھ دھونی اور سینئر کھلاڑی یووراج سنگھ کا ہدف بہت آسان ہو چکا تھا۔ دونوں کھلاڑیوں نے سری لنکن باؤلرز کی ناقص باؤلنگ کا خوب فائدہ اٹھایا جنہیں اوس کی وجہ سے گیند کو لائن و لینتھ پر رکھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔

سری لنکن باؤلرز کی آؤٹ آف دی لینتھ اور شارٹ گیندوں پر بھارت کے ان جانے مانے بلے بازوں نے خوب رنز سمیٹے اور ایسا لگتا تھا کہ بھارتی بلے باز کسی کلب ٹیم کے خلاف کھیل رہے ہیں۔ پھر سری لنکا کے بہترین سمجھے جانے والے فیلڈرز نے بھی چند ہاف چانسز ضائع کیے جس کا بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا۔ خصوصاً گوتم گمبھیر کو 30 کے انفرادی اسکور پر ملنے والی زندگی سری لنکا کے لیے بہت مہنگی ثابت ہوئی۔ آخری 5 اوورز میں بیٹنگ پاور پلے نے دھونی اور یووراج (27) کو شاٹس کھیلنے کی مزید آزادی فراہم کی۔ یوں 49 ویں اوور میں دھونی (91) نے نووان کولاسیکرا کو اک دلکش و شاندار چھکا رسید کر کے بھارت کو عالمی کپ میں فتح دلا دی۔

سری لنکا کی جانب سے سوائے لاستھ مالنگا کے کوئی قابل ذکر باؤلنگ کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔ مالنگا نے ابتداء ہی میں سہواگ اور ٹنڈولکر کی دو قیمتی وکٹیں حاصل کر کے سری لنکا کو مکمل طور پر میچ پر حاوی کر دیا تھا لیکن دیگر باؤلرز کی ناقص کارکردگی نے انہیں شکست کے گھڑے میں پھینک دیا۔ خصوصاً کولاسیکرا اور پیریرا نے توقعات سے کہیں کمتر کارکردگی پیش کی۔ اسپن ماسٹر مرلی دھرن بھی بھارتی بلے بازی کی دیوار میں کوئی دراڑ ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ایک وکٹ تلکارتنے دلشان کو ملی جنہوں نے اپنی ہی گیند پر ویرات کوہلی کا ایک انتہائی خوبصورت کیچ تھاما۔

عالمی کپ جیتنے کے بعد میدان میں انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ ہربھجن سنگھ، یووراج سنگھ اور سچن ٹنڈولکر سمیت بھارتی کرکٹ ٹیم کے کئی اراکین آبدیدہ نظر آئے۔ کھلاڑیوں نے سچن ٹنڈولکر کو کندھے پر بٹھا کر بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں نے میدان کا ایک چکر بھی لگایا۔

میچ کے اختتام پر مہندر سنگھ دھونی کو فتح گر اننگ کھیلنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ عالمی کپ ٹورنامنٹ میں 4 مرتبہ میچ کے بہترین کھلاڑی قرار دیے جانے والے اور بھارتی کی فتوحات میں کلیدی کردار ادا کرنے والے یووراج سنگھ کو عالمی کپ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ یووراج سنگ کو بہترین بلے بازی، شاندار فیلڈنگ اور بریک تھرو گیند بازی کے باعث تھری بیسٹس ان ون کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

بعد ازاں میچ کے آفیشلز، امپائرز، رنر اپ ٹیم اور جیتنے والی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو میڈلز دیے گئے اور پھر بھارتی ٹیم کو ورلڈ کپ ٹرافی سے نوازا گیا۔ اس موقع پر آتش بازی کا خوب صورت و دیدہ زیب مظاہرہ بھی کیا اور ملک بھر میں جشن کا آغاز ہو گیا۔ اختتامی تقریب میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے سربراہ ہارون لورگاٹ، بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ شرد پوار اور بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے سربراہ مصطفی کمال نے کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کیے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے اس یادگار موقع پر ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے تمام اراکین کو ایک کروڑ روپے فی کس انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔

1983ء میں کپل دیو کی قیادت میں بھارت نے فائنل میں 'ناقابل تسخیر' سمجھی جانے والی ویسٹ انڈین ٹیم کو شکست دے کر پہلی بار عالمی کپ جیتا تھا۔ یہ عالمی کپ کی تاریخ کا تیسرا موقع ہے کہ جب فائنل ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیم نے جیتا۔ اس سے پہلے یہ اعزاز صرف 1996ء میں سری لنکا اور 1999 میں آسٹریلیا کو ملا تھا۔ اس کے علاوہ تمام 7 عالمی مقابلوں میں پہلے بلے بازی کرنے والی ٹیم فتحیاب ہوئی تھی۔

19 فروری سے 2 اپریل تک تین ایشیائی ممالک بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھارت کی میزبانی شروع ہونے والے عالمی کپ کا اختتام بھارت کی یادگار فتح سے ہوا۔ عالمی کپ کی تاریخ میں پہلی بار کسی میزبان ملک نے اپنے ہی ہوم گراؤنڈ پر عالمی کپ کی ٹرافی آئندہ چار سالوں کے لیے اپنے نام کی۔ دنیائے کرکٹ کا یہ مقبول ترین میلہ چار سال بعد یعنی 2015ء میں عالمی کپ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مشترکہ میزبان میں کھیلا جائے گا جس میں ایک بار پھر 10 بہترین ٹیمیں اس عالمی کپ کے حصول کے لیے میدان میں اتریں گی۔