عمر اکمل، صلاحیت صرف ذمہ داری کی محتاج ہے

3 1,024

عمر اکمل پاکستانی نوجوان بلے بازوں میں سب سے باصلاحیت ہے اور اس امر میں کبھی کسی کو شک نہیں رہا۔ ان سے شکوہ صرف ذمہ دارانہ کردار کا تھا اور آج افغانستان کے خلاف یادگار اننگز کھیل کر عمر نے خود پر ہونے والی تنقید کا بوجھ اتار دیا ہے۔

امید ہے کہ عمر اکمل اگلی سنچری کے لیے 87 مقابلوں کا انتظار نہیں کروائیں گے (تصویر: AFP)
امید ہے کہ عمر اکمل اگلی سنچری کے لیے 87 مقابلوں کا انتظار نہیں کروائیں گے (تصویر: AFP)

جب 30 اوورز گزرنے کے بعد اسکور بورڈ پر صرف 119 رنز ہوں اور ٹیم کے 6 کھلاڑی، یعنی تمام بلے باز، میدان سے واپس جاچکے ہوں تو اس موقع پر دنیا کے بڑے بڑے بلے بازوں کا پتہ پانی ہوجاتا ہے بالخصوص جب مقابلہ افغانستان جیسے کمزور حریف کے ساتھ ہو، جس کے خلاف شکست کا کوئی ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ پھر پاکستان کو تو ایشیا کپ کے افتتاحی مقابلے میں سری لنکا سے شکست کے بعد اپنے وجود کے لالے پڑ گئے تھے۔ اس مرحلے پر کئی طرفہ دباؤ کو جھیلتے ہوئے عمر اکمل نے ایک شاہکار اننگز تراشی۔ انتہائی ناسازگار حالات میں کہ جب وطن عزیز میں عدالت نے ٹریفک وارڈن کے ساتھ الجھنے والے معاملے پر ان کا وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیا تھا، عمر اکمل نے ایسی غیر معمولی اننگز کھیلی، جس نے پاکستان، کپتان مصباح الحق، نئے کوچ معین خان اور بیٹنگ مشیر ظہیر عباس کی لاج رکھ لی۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر عمر اکمل آج بھی تیس، چالیس رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوجاتے تو بیٹنگ لائن اپ کی ناکامی کا تمام تر نزلہ انہی پر گرتا، کہ ٹاپ آرڈر کی غیر ذمہ داری کے بعد آخر عمر اکمل نے کیوں نہ ذمہ داری محسوس کی؟ ابتداء میں محتاط انداز سے کھیلنے کے بعد پاور پلے میں بھی عمر اکمل کے بلے سے صرف دو چوکے نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ 40 اوورز کے اختتام پر 164 رنز کا مجموعہ ہرگز حوصلہ افزا نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن پاکستان کو وکٹ بچانے اور تمام اوورز کھیلنے کی ضرورت تھی۔لیکن جب پاکستان یہ مرحلہ عبور کرگیا اس کے بعد عمر اکمل ایک بے رحم بلے باز کے روپ میں نظر آئے۔ 46 اوورز کی تکمیل پر وہ محض 66 رنز کی اننگز پر کھیل رہے تھے لیکن آخری چار اوورز میں انہوں نے 36 رنز لوٹ کر نہ صرف پاکستا ن کو 248 رنز کے قابل ذکر مجموعے تک پہنچایا بلکہ خود بھی طویل عرصے کے بعد اپنی سنچری مکمل کی۔

آج عمر اکمل نے اپنا ٹمپرامنٹ بھی ثابت کردیا کہ انتہائی دباؤ کے عالم میں اپنے اسٹروکس روکے رکھے اور ٹیم کو مشکلات سے نکالنے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی اور یہ کام کرتے ہی روایتی جارح مزاجی سے پاکستان کو قابل قدر مجموعے تک پہنچایا۔ اس اننگز کے نتیجے میں عمر اکمل پر ہونے والی تنقید میں ضرور کمی آئے گی لیکن اب خود عمر پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ وہ اگلی سنچری کے لیے 87 مقابلوں کا انتظار نہ کروائے بلکہ تسلسل کے ساتھ ایسی مزید اننگز کھیلے کیونکہ عمر کے پاس ایسی صلاحیت ہے جو پاکستان میں کم بیٹسمینوں کے پاس ہے۔ اگر وہ اس کا درست استعمال نہ کرپائے تو ان کا ضیاع پاکستان کرکٹ کا بڑا نقصان ہوگا۔