انڈر19 ورلڈ کپ: پاکستان جنوبی افریقہ سے فائنل ہار گیا

2 1,026

جنوبی افریقہ نے شاندار آل راؤنڈ کارکردگی کے ذریعے انڈر19 ورلڈ کپ جیت لیا اور یوں پاکستان ایک مرتبہ پھر فائنل میں پہنچ کر عالمی اعزاز حاصل کرنے سے محروم ہوگیا۔

کوربن بوش نے 4 وکٹیں حاصل کرکے جنوبی افریقی فتح کی بنیاد رکھ دی (تصویر: ICC)
کوربن بوش نے 4 وکٹیں حاصل کرکے جنوبی افریقی فتح کی بنیاد رکھ دی (تصویر: ICC)

دبئی کے دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں ہونے والے مقابلے میں پاکستان ابتداء ہی سے ایسا خول میں بند ہوا کہ آخر تک برابری کی سطح پر مقابلہ نہ کرسکا۔ اندازہ لگائیں، عالمی کپ کا فائنل اور 131 رنز آل آؤٹ! اب ٹورنامنٹ کی بہترین بیٹنگ لائن اپ جنوبی افریقہ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اس ہدف تک نہیں پہنچ پائے گی، عبث تھا۔ پھر پاکستانی باؤلرز کی سر توڑ کوشش بھی 4 سے زیادہ وکٹیں نہ گراسکیں اور جنوبی افریقہ نے کپتان آئیڈین مارکرم کے شاندار 66 رنز کی بدولت 43 ویں اوور میں ہدف حاصل کرکے تاریخ میں پہلی بار انڈر19 عالمی کپ جیت لیا۔

پاکستان کی شکست کے آثار اسی وقت نمایاں ہوگئے تھے جب ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کے بعد صرف 72 رنز پر 7 وکٹوں سے محروم ہوگیا تھا۔ دراصل پاکستان کو سیمی فائنل میں سخت مقابلے کے بعد جیت کر جو اعتماد ملا تھا، اس اعتماد کو مزید بڑھانے کے لیے کپتان سمیع اسلم اور امام الحق کو ضرورت تھی کہ وہ جراتمندانہ کارکردگی دکھاتے۔ لیکن سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کے کاگیسو رباڈا کی شاندار کارکردگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاید یہ حکمت عملی تیار کی گئی کہ ان کے اوورز کے گزارا جائے لیکن یہ حکمت عملی بیک فائر کرگئی۔ حد درجہ محتاط انداز اختیار کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ جب وکٹیں بھی نہ بچ سکیں تو پوری ٹیم دباؤ میں آ گئیں۔ ٹورنامنٹ میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے امام الحق اور سمیع اسلم جب رباڈا اور جسٹن ڈل کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے تو آنے والے بلے باز اس دباؤ کو نہ جھیل پائے۔ سعود شکیل، کامران غلام، حسن رضا، سیف اللہ خان اور امیر حمزہ سب جلد پویلین جا بیٹھے اور اسکوربورڈ پر 72 رنز 7 آؤٹ کا ہندسہ جگمگا رہا تھا۔

انڈر19 عالمی کپ جیسے اہم ایونٹ کے سب سے اہم ترین مقابلے میں ایسی کارکردگی پیش کرکے یہ توقع رکھنا کہ 2006ء کے عالمی کپ فائنل کی تاریخ دہرائی جائے گی، بچکانہ بات ہے۔ ایسے مقابلے تاریخ میں صرف ایک دو مرتبہ ہوتے ہیں۔ ہر مرتب ہایسا نہیں ہوتا کہ ٹیم معمولی اسکور پر ڈھیر ہوجائیں اور گیندبازوں کو وہ سازگار حالات بھی میسر آئیں، جن میں وہ معجزاتی کارکردگی پیش کرسکیں۔

سیمی فائنل کی طرح فائنل میں بھی واحد مزاحمت عماد بٹ اور ظفر گوہر کی جانب سے آئی جنہوں نے آٹھویں وکٹ پر 45 رنز جوڑے۔ اس شراکت داری کے خاتمے کے بعد عماد دوسرا اینڈ محفوظ نہ کرپائے اور پوری ٹیم 45 ویں اوور میں 131 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ عماد 37 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے جبکہ ظفر گوہر نے 22 رنز بنائے۔

جنوبی افریقہ کی شاندار باؤلنگ کا اندازہ ان اعدادوشمار سے لگائیے: کوربن بوش، 7.3 اوورز، 2 میڈنز، 15 رنز دے کر 4 وکٹیں، جسٹن ڈل 10 اوورز، 2 میڈنز،29 رنز دے کر 2 وکٹیں، یاسین ولی، 7 اوورز، 19 رنز دے کر 2 وکٹیں، جبکہ رباڈا نے 10 اوورز میں 26 اور سگولی نے 40 رنز دے کر ایک، ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔

ایک معمولی ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقی کپتان آئیڈین مارکرم وکٹ کیپر کلائیڈ فورٹوئن کے ساتھ میدان میں اترے۔ پاکستان نے عماد بٹ اور کرامت علی کی بدولت فورٹوئن اور جیسن اسمتھ کی وکٹیں 28 رنز پر ہی حاصل کرلیں اور اس موقع پر کھلاڑی بہت زیادہ پرجوش ہوئے۔ البتہ مارکرم نے گریگ اولڈفیلڈ کے ساتھ اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور وکٹیں بچائے رکھیں۔ انہیں اندازہ تھا کہ ہدف اتنا بڑا نہیں کہ اس کے لیے کسی قسم کی جلدبازی دکھائی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں نے تیسری وکٹ پر 71 رنز جوڑ کر پاکستان کی خوش فہمیوں کا خاتمہ کردیا۔

آخری میں اولڈ فیلڈ اور یاسین ولی کی وکٹیں ضرور پاکستان کو ملیں لیکن اس وقت مقابلہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ جنوبی افریقہ نے 43 ویں اوور کی پہلی گیند پر بریڈلے ڈیال کے چوکے کی بدولت فتح حاصل کرکے پہلی بار انڈر19 ورلڈ کپ جیت لیا۔

پاکستان کی جانب سے اسپنرز ظفر گوہر اور کرامت علی نے عمدہ باؤلنگ کی اپنے مقررہ اوورز میں بالترتیب 21 اور 24 رنز دیے البتہ وکٹیں صرف کرامت کو ملیں جنہوں نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ ایک، ایک وکٹ ضیاء الحق او رعماد بٹ کو ملی۔

یہ 2010ء کے انڈر19 عالمی کپ کے دوسرا موقع ہے کہ پاکستان فائنل میں پہنچ کر شکست کھا گیا ہو۔ پاکستان نے 2004ء اور 2006ء میں انڈر19 ورلڈکپ جیتا تھا اور اس کے بعد سے اب تک عالمی اعزاز حاصل کرنے سے محروم رہا ہے۔