'دیووں کا مقابلہ' شہزادے نے جیت لیا!

6 1,039

ڈھاکہ کے علاقے میرپور میں ہونے والے اس پاک-بھارت مقابلے میں سب کچھ تھا: بہترین باؤلنگ، حیران کن بیٹنگ، ناقص ترین امپائرنگ، بدترین فیلڈنگ، بہترین کیچز، مایوس کن مراحل، خوشی سے سرمست اور مایوسی سے جھکے ہوئے سر! اور ان سب پر بھاری دو وہ گیندیں جن پر شاہد آفریدی نےروی چندر آشون کو ڈھاکہ کی ہواؤں کی سیر کروائی اور پھر بازو پھیلا کر فتح کو گلے لگایا!

روایتی حریفوں کے درمیان مقابلوں میں جو افسانوی حیثیت 1986ء کے آسٹریلیشیا کپ فائنل کو حاصل ہے شاید کہ آنے والے سالوں میں ایشیا کپ 2014ء کے اس پاک-بھارت مقابلے کو بھی مل جائے بلکہ یقیناً یہ مرتبہ اس میچ کو ملے گا کیونکہ یہ ایسا معرکہ تھا جو شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہرگزرتی ہوئی گیند کے ساتھ کسی ایک حریف کے حق میں جھکنے والا مقابلہ اور بالآخر ایک وکٹ کی معمولی فتح پر منتج ہونے والا میچ۔

جب پاکستان کو شاہد آفریدی اور عمر گل کی دھواں دار بیٹنگ کی وجہ سے آخری دو اوورز میں صرف 13 رنزکی ضرورت تھی تو پاکستان کے قنوطیت کی انتہاء کو پہنچے ہوئے شائقین کو بھی یقین ہوچلا تھا کہ اب اس مقام سے پاکستان نہیں ہار سکتا لیکن 'ناقابل یقین' کا خطاب حاصل کرنا اتنا آسان نہیں۔ چند گیندوں کے وقفے سے عمر گل، محمد طلحہ اور سعید اجمل کا آ ؤٹ ہونا معاملے کو اس مقام تک لے گیا کہ محض ایک گیند بھارت کو مقابلہ جتوا سکتی تھی۔ شاہد آفریدی سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ 49 ویں اوور کی آخری گیند پر، جب محمد طلحہ نے فضا میں شاٹ کھیلا تھا اور کیچ آؤٹ ہوئے، اس وقت دوڑ کر انہیں کراس کرلیا یعنی کہ آخری اوور کی پہلی گیند کا سامنا سعید اجمل کو کرنا پڑا جو سویپ شاٹ کھیلنے کی انوکھی کوشش میں کلین بولڈ ہوگئے۔ اس مقام پر جنید خان نے وہی کردار ادا کیا جو 1986ء میں توصیف احمد نے کیا تھا انہوں نے اگلی گیند کو ہوشیاری کے ساتھ کھیل کر شاہد آفریدی کو اسٹرائیک دی جنہوں نے دو شاندار چھکوں کے ذریعے پاکستان کو مقابلہ جتوا دیا۔

جاوید میانداد کے چھکے کی ضرب اتنی شدید تھی کہ بھارت اگلے کئی سالوں تک پاکستان کے مقابلے میں سر تان کر کھڑا نہ ہوسکا۔ اس مقابلے کے بعد اگلے 10 سال تک پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک روزہ 25 مقابلے ہوئے جن میں 19 پاکستان نے جیتے اور بھارت صرف 4 مقابلوں میں فتح حاصل کرپایا۔ روایتی حریف پر ایسی غالب حیثیت اور برتری نہ پاکستان کو پہلے کبھی حاصل ہوئی تھی اور نہ نئی صدی میں مل سکی۔

تو کیا شاہد آفریدی کی یہ اننگز اور تاریخی فتح دوبارہ ویسے ہی امکانات پیدا کرسکے گی؟ یہ تو وقت بتائے گا لیکن اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ان دو چھکوں کے ذریعے شاہد آفریدی نے اپنی افسانوی حیثیت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ 'لالا' کرکٹ چھوڑ جانے کے بعد مدتوں یاد رکھے جائیں گے اور آنے والی نسلیں ان دو چھکوں کو ایسے ہی دہرایا کریں گی جیسے 80ء کی دہائی میں عمر شعور کو پہنچنے والے جاوید میانداد کی باری کو کرتے ہیں۔