احمد، آفریدی اور فواد شاندار، پاکستان ریکارڈ ہدف کا تعاقب کرکے فائنل میں

6 1,110

عالمی کپ 1999ء میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو شکست دی تھی، اور اس یادگار فتح کی بدولت بنگلہ دیش کو ٹیسٹ درجہ ملا لیکن اس کے بعد سے آج تک وہ پاکستان کے خلاف کوئی ایک روزہ مقابلہ نہیں جیت پایا، یہاں تک کہ اپنی تاریخ کا سب سے بڑا مجموعہ یعنی 326 رنز کھڑا کرنے کے بعد بھی۔ میرپور، ڈھاکہ میں تاریخ کی بہترین بلے بازی، اور میچ کے ابتدائی نصف حصے میں مکمل طور پر غلبہ حاصل کرنے کے باوجود بنگلہ دیش ہدف کے تعاقب میں کمزور پاکستان کو نکیل نہ ڈال سکا جس نے احمد شہزاد کی سنچری اور محمد حفیظ اور فواد عالم کی ذمہ داری نصف سنچریوں اور شاہد آفریدی کی عرصے تک یاد رہنے والی نصف سنچری اننگز کی وجہ سے اپنی تاریخ میں سب سے بڑے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کیا۔

س فتح کے ساتھ طے پا گیا کہ ایشیا کپ کا فائنل 8 مارچ بروز ہفتہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلا جائے گا جبکہ بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان براعظمی اعزاز کے حصول کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں۔

شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم میں ایشیا کپ 2014ء کا آٹھواں مقابلہ بنگلہ دیش کے لیے انتہائی اہم تھا کیونکہ اسے افغانستان کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد اسے ٹورنامنٹ میں زندہ رہنے کے لیے پاکستان اور سری لنکا کے خلاف بقیہ مقابلوں میں بونس پوائنٹ کے ساتھ جیتنے کی ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اپنی پوری جان لڑا دی۔

اوپنرز امر القیس اور انعام الحق نے امپائروں کی مدد اور پاکستانی باؤلرز اور فیلڈرز کی نااہلی کی بدولت 150 رنز کا ایسا ابتدائی آغاز فراہم کیا جس کے بعد بنگلہ دیش کو ایک بڑے مجموعے تک پہنچنے سے روکنے والی کوئی قوت نہ تھی۔ پہلے 10 اوورز میں تو ابھی مقابلے کا رخ ہی متعین نہیں ہوا تھا لیکن جیسے ہی عبد الرحمٰن کو دو بیمر پھینکنے پر باؤلنگ سے ہٹایا گیا، پاکستان کے ہاتھ پیر پھول گئے اور اس کے بعد ایک لمحے کے لیے بھی پاکستان کے باؤلرز مقابلے میں واپس نہ آسکے۔

امر القیس 59 رنز بنانے کے بعد وکٹوں کے پیچھے کیچ دے گئے تو انعام الحق نے مومن الحق کے ساتھ 54 رنز جوڑ ڈالے اور اس دوران اپنے کیریئر کی دوسری سنچری بھی مکمل کی۔ بنگلہ دیش بیٹنگ پاور پلے کے آخری اوور میں انعام کی وکٹ سے محروم ہوا۔ انہوں نے 132 گیندوں پر 4 شاندار چھکوں اور 6 چوکوں کی مدد سے پورے 100 رنز بنائے۔

اب کپتان مشفق الرحیم کے میدان میں اترنے کی باری تھی، جنہوں نے اپنے نام کے برعکس پاکستان کے باؤلرز پر کوئی رحم نہ کھایا۔ جب 51 رنز کی انفرادی اننگز کھیلنے کے بعد مومن الحق گرنے والی تیسری و آخری بنگلہ دیشی وکٹ بنے تو شکیب الحسن کپتان کا ساتھ دینے کے لیے آئے۔ وہ ٹیلی وژن کیمرے کی طرف نازیبا اشارہ کرنے کی وجہ سے بنگلہ دیشی بورڈ کی جانب سے عائد پابندی کے باعث ایشیا کپ میں پہلا مقابلہ کھیل رہے تھے اور آتے ہی پہلی ہی گیند سے انہوں نے بورڈ کا تمام تر غصہ پاکستانی باؤلرز پر اتارنا شروع کردیا۔ ان محض 16 گیندوں پر دو چھکوں اور 6 چوکوں کی مدد سے 44 رنز اور دوسرے اینڈ سے کپتان کے 33 گیندوں پر 51 رنز سے بنگلہ دیش کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے اسکور تک پہنچایا۔ 326 رنز، صرف تین وکٹوں کے نقصان پر۔

پاکستان کے باؤلرز نے آخری 10 اوورز میں 121 رنز کھائے اور انفرادی اعدادوشمار سے بھی اندازہ لگائیں کہ سوائے محمد حفیظ کے کوئی باؤلر بنگال کے جادو کا توڑ نہ کرسکا۔ عمر گل 10 اوورز میں 76، سعید اجمل 61 اور شاہد آفریدی 64 جبکہ محمد طلحہ 7 اوورز میں 68 رنز کھانے کے بعد منہ لٹکائے میدان سے واپس آئے۔ صرف سعید اجمل کو دو اور محمد طلحہ کو ایک وکٹ ملی۔ دوسری جانب پاکستان کی فیلڈنگ بھی بہت بھیانک رہی۔ انہوں نے حریف بلے بازوں کو رنز لینے کے کئی آسان مواقع دیے۔

اب ہدف کے تعاقب میں کمزور پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ 327 رنز کا ایسا ہدف حاصل کرنا تھا، اور بنگلہ دیش کے سامنے ہدف تھا کہ وہ پاکستان کو 260 رنز تک محدود رکھے تاکہ بونس پوائنٹ سے مقابلہ جیت سکے۔ پاکستان نے اپنی ایک روزہ کرکٹ تاریخ میں کبھی 322 رنز سے زیادہ کا ہدف عبور نہیں کیا تھا لیکن اس مرتبہ پاکستان نے جو حکمت عملی اپنائی، وہ بہترین تھی۔ فتح کے لیے طے کردہ اصول نمبر ایک: وکٹ نہیں گنوانی، محمد حفیظ اور احمد شہزاد کو بحیثیت اوپنر یہ ہدف دے کر بھیجا گیا تھا کہ وہ جتنی دیر تک ہوسکے کریز پر قیام کریں اور اسکور بورڈ کو متحرک رکھیں اور دونوں نے ابتدائی 20 اوورز میں 97 رنز جوڑ کر پاکستان کو محتاط لیکن مضبوط بنیاد فراہم کی۔

اگر اس مقام پر تین اوورز میں تین وکٹیں نہ گرتیں تو شاید پاکستان مقابلہ کہیں زیادہ آسانی سے جیتتا، لیکن پاکستان کا مقابلہ ہو اور دلچسپ نہ ہو، ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ چاہے ہدف 127 ہویا 327، سنسنی خیزی نہ ہو تو شاید قومی ٹیم کو مزا نہیں آتا۔ اس مرحلے پر جب پاکستانی اننگز بغیر وکٹ ک نقصان کے تہرے ہندسے میں داخل ہونے والی تھی سب سے پہلے محمد حفیظ، اس کے اگلے اوور میں مصباح اور پھر صہیب مقصود آؤٹ ہو کر پاکستان کو گمبھیر صورتحال سے دوچار کرگئے۔ حفیظ 52 رنز کی قیمتی انںگز کھیل کر پویلین لوٹے جبکہ مصباح الحق کو صرف 4 رنز بنانے کے بعد ایشیا کپ میں ایک اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ صہیب مقصود بدقسمت رہے، مومن الحق کی گیند ان کے بلے کو چھوئے بغیر وکٹ کیپر کے دستانوں میں گئی جن کی زوردار اپیل نے امپائر کو انگلی اٹھانے پر مجبور کردیا۔ بنگلہ دیش کے انعام الحق بیٹنگ کے بعد وکٹوں کے پیچھے بھی متحرک دکھائی دیے اور غیر ضروری اپیلوں کی وجہ سے امپائروں کی نظر میں بھی آئے۔

بہرحال، 105 رنز پر تین کھلاڑی آؤٹ ہونے کے بعد پاکستان کو نہ صرف وکٹیں سنبھالنے کی بلکہ تیزی سے رنز بنانے کی بھی ضرورت تھی اور یہ فریضہ احمد شہزاد اور فواد عالم نے بخوبی انجام دیا۔ دونوں نے 94 گیندوں پر 105 رنز جوڑ کر پاکستان کو ایک مرتبہ پھر مقابلے میں واپسی کی راہ دکھائی۔ احمد شہزاد کیریئر کی پانچویں سنچری بنانے کے بعد اسکور کو تیزی سے بڑھانے کی کوشش میں جلد ہی دھر لیے گئے اور عبد الرزاق کی گیند کلین بولڈ ہوگئے۔ 123 گیندوں پر ایک چھکے اور 12 چوکوں سے مزین اننگز 103 رنز پر مکمل ہوئی۔

اس مرحلے پر پاکستان نے باؤلنگ میں ہزیمت اٹھانے والے عبد الرحمٰن کو شاید اس لیے اوپر بھیجا گیا کہ وہ کچھ دیر قبل ملنے والی خفت کا ازالہ کرسکیں لیکن وہ زیادہ دیر درکار رن اوسط کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو نہ جھیل پائے اور صرف 8 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوگئے۔ 225 رنز، 5 آؤٹ، پاکستان اب بھی منزل سے 102 رنز کے فاصلے پر تھا جبکہ 52 گیندوں کا کھیل باقی تھا۔

یہاں شاہد آفریدی نے ایک اور معجزاتی اننگز کھیلی۔ انہوں نے پہلی ہی گیند کو چھکے کی راہ دکھائی اور اپنی پہلی 9 گیندوں میں سے 5 کو میدان سے باہر پھینکا۔ انہوں نے صرف 18 گیندوں پر 50 مکمل کرکے تاریخ کی دوسری تیز ترین نصف سنچری بنائی۔ اگر وہ اپنی ران کی تکلیف کی وجہ سے رن آؤٹ نہ ہوتے تو شاید معاملہ آخری اوور تک جاتا ہی نہیں۔ گو کہ انہیں حریف کپتان مشفق الرحیم کے ہاتھوں ایک زندگی ملی، لیکن اس کیچ ڈراپ سے پہلے ہی وہ 52 رنز جوڑ چکے تھے اور اس کے بعد بھی اسکور میں محض 7 رنز کا اضافہ ہی کرپائے۔ شاہد نے فواد عالم کے ساتھ مل کر صرف 33 گیندوں پر 69 رنز جوڑے جس کے بعد فتح کی ذمہ داری فواد نے اپنے کاندھوں پر لی اور عبد الرزاق کے ایک ہی اوور میں دو چھکے رسید کرکے معاملے کو آسان تر بنا دیا۔ پاکستان کو آخری اوور میں جیتنے کے لیے محض 3 رنز کی ضرورت تھی۔ بائے کا رن لینے کی کوشش میں فواد رن آؤٹ ہوئے تو پانچویں گیند پر عمر اکمل نے مڈ وکٹ پر چوکا لگا کر قصہ تمام کردیا۔

فواد عالم 70 گیندوں پر دو چھکوں اور چار چوکوں کی مدد سے 74 رنز کی بہترین اننگز کھیل کر میدان سے لوٹے اور بلاشبہ فتح میں ان کا کردار بھی کلیدی تھا، جتنا احمد شہزاد، محمد حفیظ اورشاہد آفریدی کاکردار تھا تقریبا اتنا ہی۔ البتہ شاہد آفریدی کو شاندار بیٹنگ پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ وہ اعزاز جو گزشتہ مقابلے میں انہیں نہیں ملا تھا، آج ضرور انہیں بخشا گیا۔

اب ایشیا کپ کے بقیہ تمام مقابلے فائنل کی دوڑ کے لیے نہيں ہوں گے، بلکہ محض خانہ پری کے طور پر کھیلے جائيں گے۔ جن میں کل یعنی بدھ کو بھارت اور افغانستان مدمقابل ہوں گے جبکہ فائنل ہفتے کو میرپور کے اسی میدان میں کھیلا جائے گا۔