[خلق خدا] بات توسچ ہے مگر……!

2 1,188

گھر والوں کویقین تھا کہ میں اتوارکے بجائے ہفتے کو چھٹی کروں گااور اس کی وجہ تو پورے ایشیا کو معلوم تھی …… اسی لیے جب میں صبح دفترجانے کے لیے تیار ہونے لگا تو سب حیرانی کا اظہار کرنے لگے۔ لیکن جب رات دس بجے میں گھر پہنچا تو سب کی حیرت کا سبب یہ تھا کہ مجھے پاکستان کے فائنل میں شکست کا پیشگی علم کیسے ہوگیاتھا؟ کیونکہ ان کے خیال میں اتنے اہم میچ میں میری عدم دل چسپی کی یہی وجہ ہوسکتی تھی۔ جی نہیں دوستو! مجھے فائنل میچ کے نتیجے کاپہلے سے علم نہیں تھا،البتہ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان اورسری لنکاکی ٹیموں کی کارکردگی کا گہرا لیکن غیرجذباتی نظروں سے جائزہ لیاجائے تو میری رائے میں پیشنگوئی اتنی مشکل بھی نہیں تھی۔

فائنل میں ٹاس جیت کر خود بیٹنگ کرنے کا فیصلہ مصباح کی فطری دفاعی سوچ کی عکاس تھا (تصویر: سAFP)
فائنل میں ٹاس جیت کر خود بیٹنگ کرنے کا فیصلہ مصباح کی فطری دفاعی سوچ کی عکاس تھا (تصویر: سAFP)

سب سے پہلا نکتہ تھا پاکستان اور سری لنکا کی فارم کاموازنہ ، جس کافرق ٹورنامنٹ کے پہلے میچ میں دونوں ٹیموں کے آمنے سامنے آتے ہی واضح ہوگیاتھا جب پاکستانی باؤلرز لاہیرو تھریمانے، کمار سنگاکارا اور اینجلو میتھیوزکے سامنے بالکل بے اثر دکھائی دیے۔اپنی باری میں بھی پاکستان محض مصباح الحق اورعمراکمل کی نصف سنچریوں کی بدولت اپنی ہارکوقدرے قابلِ عزت بناسکا، لیکن شکست کے ساتھ قابلِ عزت کالفظ کوئی خاص قابلِ توجہ نہیں لگتا، جبکہ لاستھ ملنگاکے سامنے تمام بلے بازبے بس نظرآئے۔

اپنے اگلے ہی میچ میں پاکستان افغانستان جیسی نووارد ٹیم کے خلاف پورے 50 اوورمیں 8 وکٹیں گنوا کر 250 رنز بھی نہیں بناسکا،جبکہ سامنے والی ٹیم میں کوئی ڈیل اسٹین یامچل جانسن نہیں تھا۔پاکستان کی اس جیت کی وجہ صرف مقابل ٹیم کی ناتجربہ کاری تھی، لیکن ہم نے بونس پوائنٹ حاصل کرنے کواپنابہت بڑا کارنامہ سمجھا۔دوسری طرف سری لنکا نے بھارت کے خلاف میچ میں حریف ٹیم کے ابتدائی بلے بازوں کی زبردست کارکردگی کے باوجود حتمی اسکور 264 رنز تک محدود رکھا اور پھر سنگاکارا کی دلیرانہ بیٹنگ کی بدولت ہارا ہوا میچ جیت کراپنی زبردست فائٹنگ اسپرٹ کاثبوت بھی پیش کردیا۔

دوسری جانب پاکستان بھارت خلاف مقابلے میں حریف کوصرف 245رنزتک محدودکرنے کے باوجودبمشکل ہدف حاصل کرپایا لیکن ہم نے محض روایتی حریف کو ہرانے کے نشے میں اپنی تمام تر کمزوریوں کی طرف سے آنکھیں بندکرلیں۔یہی روش ہم نے بنگلہ دیش کے خلاف اپنائی اور خود سے ہرلحاظ سے کم تر ٹیم کے بلے بازوں کے ہاتھوں تاریخی مارکھائی، لیکن حسب ِ معمول ایک بار پھر ہاراہوامیچ جیتنے کی خوشی میں چُور ہوکر فائنل میں جیتنے کی پکی امیدلگاکربیٹھ گئے۔

فائنل والے روز کام کی مصروفیات کی وجہ سے میں ڈیڑھ بجے ہی میچ کی تازہ صورتِ حال جان سکا اور پاکستانی ٹیم اپنی دیرینہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے محض 19 رنز پر ابتدائی تین کھلاڑیوں سے محروم ہوچکی تھی۔ ایک موقع پر تو ایسا لگ رہا تھا کہ شاید پوری ٹیم لاستھ مالنگا کا شکار بننے کا پروگرام بنا کر آئی ہے لیکن فواد عالم کی 'جاوید میاندادی' اننگز کی بدولت پاکستان کسی نہ کسی طرح ڈھائی سو کی حد تو پار کرگیا لیکن یہ بھول گیا کہ مدمقابل ٹیم افغانستان نہیں۔ قومی ٹیم کا واحد کارگر ہتھیار سعید اجمل اپنے دس اوورز تک ہی سری لنکا کی ناک میں دم کرسکتا تھا لیکن دوسرے اینڈ سے کوئی اس کا ساتھی نہ بن پایا۔

ادھر لاہیرو تھریمانے میں پاکستان کے لیے سچن تنڈولکر، برائن لارا اور سنتھ جے سوریا کا مکسچر بنا ہوا تھا جس نے ٹورنامنٹ کے دونوں مقابلوں میں پاکستان کے خلاف سنچریاں جڑیں۔

ایشیا کپ سے ایک بار پھر یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئی کہ مصباح الحق 'لکیر کا فقیر' کپتان ہے جو موقع کی مناسبت سے حکمت عملی میں تبدیلی لانے اور جدت آمیز تبدیلیوں کے ذریعے میچ کی صورتحال بدلنے کی صلاحیت و جرات سے محروم ہے۔ ٹورنامنٹ کے پہلے مقابلے میں بڑے ہدف کا تعاقب کرنے میں ناکامی کے بعد فائنل میں دوسری باری میں اوس کی وجہ سے سعید اجمل سمیت دیگر باؤلرز کی گیندبازی بے اثر ہونے کے خطرے کے باوجود ٹاس جیت کر خود بیٹنگ کرنا مصباح کی فطری دفاعی سوچ کی عکاس تھا۔

پاکستان کی شکست میں اس کے تیز باؤلرز کی حد درجہ مایوس کن کارکردگی کا کردار بھی مرکزی ہے۔ سری لنکا کی جانب سے مالنگا نے پاکستان کے خلاف دو مقابلوں میں دس کھلاڑیوں کی وکٹیں اڑائیں جبکہ پاکستان کی طرف سے جنید خان، عمر گل، بلاول بھٹی اور محمد طلحہ مل کر بھی پانچ وکٹیں نہ گرا سکے۔ جنید اور طلحہ نے تو بہت زیادہ مایوس کیا ہی لیکن عمر گل کی حالت تو عبرت ناک نظر آتی ہے۔ اس کی موجودہ فارم اور فٹنس کو دیکھ کر نجانے کیوں مجھے وحید مراد مرحوم کا آخری دور آیا آرہا ہے جب وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کےلیے اندھادھند ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔

پاکستان کی طرح ٹیم کے بلے باز بھی تسلسل سے اچھی کارکردگی دکھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ میری رائے میں شاہد آفریدی کا بلے بازی پر اعتماد بحال ہوں اور فوا دعالم کا واپس آ کر خود کو منوانا اس ٹورنامنٹ سے سامنے آنے والے حوصلہ افزاء پہلو ہیں جبکہ ملکی شائقین کے لیے یہی خوشی کافی ہے کہ پاکستان نے بھارت کو شکست دے کر ٹورنامنٹ سے باہر کیا۔