کرک نامہ ورلڈ الیون

2 1,467

کرکٹ ورلڈ کپ 2011ء اپنی تمام تر رعنائیوں اور جلوہ افروزیوں کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا اور طویل عرصہ بعد یہ اعزاز ایک مرتبہ پھر ایشیا کے سر پر سجا۔ مجموعی طور پر ایشیا سے تعلق رکھنے والی تینوں بڑی ٹیموں پاکستان، سری لنکا اور بھارت کی کارکردگی بہت اعلی رہی جنہوں نے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی اور عالمی کپ کی تاریخ میں پہلی بار فائنل دو ایشیائی ٹیموں کے مابین کھیلا گیا۔ اس عالمی کپ میں کئی ستاروں کی آب و تاب سب سے زیادہ رہی اور یہی وہ کھلاڑی تھے جنہوں نے عالمی کپ کو اک شاندار اور یادگار ایونٹ بنایا۔

"کرک نامہ ورلڈ الیون" دراصل عالمی کپ 2011ء میں سب سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی ایک ٹیم ہے جو حقیقی طور پر ورلڈ بیسٹ الیون کا حصہ بننے کے اہل ہیںک رک نامہ کی نظر میں عالمی کپ میں کارکردگی کے نتیجے میں یہ کھلاڑی ورلڈ الیون میں شامل ہونے کے حقدار ہوں گے۔

ہم نے کارکردگی کی بنیاد پر 6 بلے باز، 1 آل راؤنڈر اور 4 باؤلرز کو اپنے اسکواڈ میں جگہ دی ہے۔ گو کہ ان میں سے دو کھلاڑی ایسے ہیں جو آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں یعنی یووراج سنگھ اور شاہد آفریدی لیکن کرک نامہ نے ان کی حالیہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں بالترتیب بلے باز اور باؤلر کی حیثیت سے اپنی الیون میں شامل کیا ہے۔

(وضاحت: یہ فہرست مکمل طور پر کرک نامہ کا ذاتی انتخاب ہے، اس کا بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے مقرر کردہ پینل کی منتخب کردہ ورلڈ کپ الیون سے کوئی تعلق نہیں ہے)

بلے باز

تلکارتنے دلشان

تلکارتنے دلشان

اس شعلہ فشاں اوپنر اور کارآمد بلے باز کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ دلشان نے ٹورنامنٹ کے دوران 62.50 کے شاندار اوسط 500 رنز بنائے اور اپنی اسپن باؤلنگ کے ذریعے 8 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ انہوں نے کوارٹر فائنل میں انگلستان کے خلاف بھی سنچری داغی اور قبل ازیں گروپ میچ میں زمبابوے کے خلاف بھی 144 رنز کی شاندار اننگ کھیلی اور اپنی ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ دو مرتبہ انہوں نے نصف سنچریاں بھی بنائیں۔ مجموعی طور پر انہوں نے ٹورنامنٹ میں 61 چوکے اور 4 چھکے لگائے۔ اس کے علاوہ ان کی چار رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کرنے کی شاندار کارکردگی بھی شامل ہے۔ وہ ٹورنامنٹ میں دو سنچریاں جڑنے والے بلے بازوں میں شامل رہے۔ کرک نامہ نے اوپنر کی حیثیت سے انہيں ورلڈ الیون میں شامل کیا ہے۔

سچن ٹنڈولکر

سچن ٹنڈولکر

لٹل ماسٹر سچن ٹنڈولکر کرکٹ کے کئی ریکارڈ اپنی جھولی میں رکھتے ہیں اور عالمی کپ کی تاریخ میں سب سے زیادہ 2278 رنز اور سب سے زیادہ یعنی 6 سنچریاں بنانے والے کھلاڑی سچن ان بدقسمت کھلاڑیوں میں شمار ہوتے تھے جو 6 عالمی کپ ٹورنامنٹس کھیلنے کے باوجود ایک مرتبہ بھی ٹرافی کو ہاتھوں میں نہ لے سکے اور ان کی یہ خواہش اپنے آخری میچ میں مکمل ہوئی جب بھارت نے سری لنکا کو شکست دے کر 28 سال بعد عالمی کپ جیتا۔

سچن نے ٹورنامنٹ کے دوران 53.55 کی اوسط سے 482 رنز بنائے جس میں 2 سنچریاں اور 2 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ انہیں اپنی بین الاقوامی کیریئر کی 100 ویں سنچری بنانے کے لیے ایک مرتبہ 100 کا ہندسہ عبور کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے خلاف سیمی فائنل میں 85 رنز پر آؤٹ ہو گئے اور یوں اس انوکھے اعزاز کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کی شاندار بلے بازی انہیں کسی بھی ورلڈ الیون میں رکھنے کے لیے کافی ہے۔

جوناتھن ٹراٹ

جوناتھن ٹراٹ

جوناتھن ٹراٹ کی ایک خوبی جسے جدید دور کے شائقین خامی قرار دیتے ہیں کہ وہ بہت ناپ تول کر شاٹ کھیلتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے کیریئر میں ابھی تک ایک چھکا بھی شامل نہیں۔ انہوں نے صرف 7 میچز میں 60.28 کی اوسط سے 465 رنز بنا کر کرک نامہ ورلڈ الیون میں جگہ پائی ہے۔ گو کہ اس میں کوئی سنچری شامل نہیں ہے لیکن وہ ایک مرتبہ سنچری کے بہت قریب آ کر یعنی 92 پر آؤٹ ہوئے۔ مجموعی طور پر انہوں نے ٹورنامنٹ میں 5 نصف سنچریاں بنائیں۔ اگر انگلستان عالمی کپ میں اپنا سفر آگے جاری رکھ پاتا تو بلاشبہ ان کا کردار بہت اہم ہوتا۔

کمار سنگاکارا

وکٹ کیپر کا مقام بہت اہم ہے اور وہ بھی ایسا جو اپنی ٹیم کی بیٹنگ لائن اپ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہو تو اس کی حیثیت دو چند ہو جاتی ہے۔ کمار سنگاکارا نہ صرف کیپنگ اور بیٹنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ایک بہت اچھے قائد بھی ہیں۔ انہوں نے عالمی کپ 2011ء کے دوران 93 کے شاندار اوسط کے ساتھ 465 رنز بنائے جس میں 3 نصف سنچریاں اور ایک سنچری بھی شامل ہے۔ وکٹ کیپر کی حیثیت سے کمار سنگاکارا نے عالمی کپ 2011ء میں سب سے زیادہ یعنی 14 کھلاڑیوں کو اپنا شکار بنایا جن میں 10 کو انہیں نے کیچ اور 4 کو اسٹمپ کیا۔

کمار سنگاکارا

اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ ٹیم کو عالمی کپ کے فائنل تک لے کر گئے لیکن بھارت کے ہاتھوں شکست کھا گئے تاہم بحیثیت مجموعی بطور بلے باز، وکٹ کیپر اور کپتان ان کی کارکردگی مثالی رہی۔

اے بی ڈی ولیئرز

جنوبی افریقہ کا یہ شعلہ فشاں بلے باز صرف 5 میچز میں 88,25 کی اوسط سے 353 رنز بنانے میں کامیاب رہا جس میں دو سنچریاں اور ایک نصف سنچری شامل تھی۔ وہ اس عالمی کپ کے ان چند کھلاڑیوں میں ہے ہیں جنہیں ٹورنامنٹ میں دو سنچریاں اسکور کیں۔ اہم مواقع پر کارآمد اننگز کھیلنے کی خاصیت اور شاندار فیلڈنگ کی صلاحیتوں کے باعث انہیں کرک نامہ ورلڈ الیون میں لوئر مڈل آرڈر میں جگہ دی گئی ہے۔

اے بی ڈی ولیئرز

گو کہ جنوبی افریقہ کی عالمی کپ مہم انتہائی افسوسناک انجام سے دوچار ہوئی لیکن اگر جنوبی افریقہ اس ٹورنامنٹ میں مزید آگے بڑھتا تو اس میں اے بی کا کردار سب سے اہم ہوتا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف کوارٹر فائنل کے دوران ان کا رن آؤٹ میچ کا 'ٹرننگ پوائنٹ' ثابت ہوا اور جنوبی افریقہ ایک مرتبہ پھر عالمی کپ سے باہر ہو گیا۔

یووراج سنگھ

یورواج سنگھ اپنی تیز رفتار بلے بازی اور طاقتور ور اسٹروکس کے باعث دنیائے کرکٹ میں معروف حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس عالمی کپ میں ان کا اک نیا پہلو دنیا کے سامنے آیا یعنی ان کی باؤلنگ۔ اس عالمی کپ میں یووراج نے نہ صرف بلے بازی میں اپنے جوہر دکھاتے ہوئے 90.5 کی اوسط سے 362 رنز بنائے بلکہ اپنی اسپن باؤلنگ کا بھی جادو جگایا اور حریف ٹیموں کے 15 کھلاڑیوں کو میدان بدر کرنے میں کامیاب ہوئے۔

یووراج سنگھ

انہیں عالمی کپ کے 4 مقابلوں میں مین آف دی میچ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اسی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں مین آف دی سیریز ٹرافی بھی دی گئی۔ بھارت کے عالمی کپ جیتنے میں بلاشبہ یووراج کا کردار سب سے بڑا اور اہم تھا۔

آل راؤنڈر

ریان ٹین ڈیسکاٹے

بہت سارے کرکٹ شائق اس کھلاڑی کے نام سے واقف نہیں ہوں گے کیونکہ اس کا تعلق ان ٹیموں سے نہیں ہے جو آئی سی سی کی مکمل رکنیت کی حامل ہے اور زیادہ تر ایک دوسرے کے مقابل نظر آتی ہیں۔ ٹین ڈیسکاٹے کا تعلق نیدرلینڈز سے ہے اور اس عالمی کپ کے دوران انہوں نے اپنی شاندار بلے بازی سے ثابت کیا کہ نوآموز ٹیمیں بھی صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں ہیں۔

ریان ٹین ڈیسکاٹے

عالمی کپ 2011ء کے سرفہرست بلے بازوں میں تیرہویں نمبر پر موجود یہ کھلاڑی ورلڈ کپ کے ان 6 بلے بازوں میں شامل ہے جنہوں نے دو مرتبہ سنچریاں اسکور کیں۔ دیگر بلے بازوں میں سچن، دلشان، تھارنگا ، جے وردھنے اور ڈی ولیئرز جیسے عظیم نام شامل ہیں۔ ٹین ڈیسکاٹے نے 6 مقابلوں میں 61.40 کے اوسط سے 307 رنز بنائے۔ ان کا زیادہ سے زیادہ اسکور 119 رہا۔ دو سنچریوں کے علاوہ انہوں نے ایک نصف سنچری بھی اسکور کی۔ عالمی کپ میں انہوں نے انگلستان اور آئرلینڈ جیسے مضبوط حریفوں کے خلاف سنچریاں بنائیں۔ ٹین ڈیسکاٹے 6 مقابلوں میں 46 کی اوسط سے 7 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ کرک نامہ نے انہیں بطور اسپیشلسٹ آل راؤنڈر ورلڈ الیون میں جگہ دی ہے۔

باؤلرز

شاہد آفریدی

شاہد آفریدی

پاکستان کے کپتان شاہد آفریدی جو اپنے بلے کی شعلہ فشانی کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں لیکن وہ بہت اچھے آل راؤنڈر بھی ہیں۔ آل راؤنڈرز کی عالمی درجہ بندی میں وہ عرصۂ دراز سے سرفہرست پانچ کھلاڑیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس عالمی کپ میں گو کہ بلے سے تو وہ کوئی میدان نہ مار سکے لیکن انہوں نے اپنی اسپن گیند بازی کا خوب جادو جگایا اور ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ یعنی 21 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے 12.85 کے شاندار اوسط اور 3.62 رنز فی اوور کے حساب سے صرف 270 رنز دے کر یہ وکٹیں حاصل کیں۔ اس میں دو مرتبہ میچ میں چار اور دو مرتبہ پانچ وکٹیں حاصل کرنے کی شاندار کارکردگی بھی شامل ہے۔ ان کی بہترین کارکردگی 16 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کرنا رہی۔ اسی شاندار کارکردگی کی بدولت انہیں کرک نامہ ورلڈ الیون میں بطور باؤلر شامل کیا گیا ہے۔

ٹم ساؤتھی

نیوزی لینڈ کا یہ نوجوان باؤلر اپنی تیز رفتار گیندوں کے ذریعے عالمی کپ کے 8 مقابلوں میں 18 وکٹیں لینے میں کامیاب رہا۔ ساؤتھی نے 17.33 کی اوسط اور 4.83 رنز فی اوور کے حساب سے 312 رنز دے کر 18 کھلاڑیوں کو اپنا شکار بنایا۔

ٹم ساؤتھی

گو کہ وہ ایک مرتبہ بھی میچ میں 4 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیا ب نہ ہو سکے لیکن یہ ان کی کارکردگی کے تسلسل کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ ان کی بہترین کارکردگی 13 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کرنا رہی۔

ظہیر خان

عالمی کپ 2011ء میں بھارت کی فتح میں اہم ترین کردار تیز گیند باز ظہیر خان نے بھی ادا کیا جنہوں نے شاہد آفریدی کے برابر یعنی 21 وکٹیں حاصل ۔ یہ وکٹیں انہوں نے 18.76 کے اوسط اور 4.83 رنز فی اوور کے حساب سے حاصل کی۔

ظہیر خان

ان کی کارکردگی میں تسلسل رہا اور وہ ایک مرتبہ بھی میچ میں چار وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ انہوں نے شاہد اور ساؤتھی دونوں کے مقابلے میں ایک میچ بھی زیادہ کھیلا۔ ابتدائی بلے بازوں کے خلاف نپی تلی گیند بازی اور آخری اوورز میں میچ بچاؤ کارکردگی انہیں کرک نامہ ورلڈ الیون میں جگہ دی گئی ہے۔

عمران طاہر

پاکستانی نژاد جنوبی افریقی کھلاڑی عمران طاہر نے اپنے کیریئر کا آغاز ہی عالمی کپ سے کیا۔ جنوبی افریقہ کے قائد گریم اسمتھ نے انہیں اپنا خفیہ ہتھیار قرار دیا اور عمران نے آتے ہی جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ کپتان کے اعتماد کا اظہار تھی۔ انہوں نے 5 میچز میں صرف 10 کی اوسط سے 14 وکٹیں حاصل کیں۔ جو کہ عالمی کپ ٹورنامنٹ میں زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلرز میں سب سےکم اوسط ہے۔

عمران طاہر

گو کہ وہ زخمی ہونے کے باعث چند میچز سے بھی باہر رہے لیکن انہوں نے جس میچ میں بھی شرکت کی اپنی اسپن گیند بازی کا جادو ضرور جگایا۔ وہ دو مرتبہ میچ میں چار، چار وکٹیں لینے میں بھی کامیاب رہے۔  بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کے باعث جنوبی افریقہ ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا لیکن بحیثیت مجموعی ان کی کارکردگی جنوبی افریقہ کی ٹیم میں اک لیگ اسپنر کی کمی کو پورا کر کے اسے ایک مکمل ٹیم بناتی ہے۔ کیریئر کے اک شاندار آغاز کے باعث کرک نامہ انہیں اپنی ورلڈ الیون میں جگہ دیتا ہے۔