شکست کا بھوت!!

4 1,086

آج کا پاک-بھارت مقابلہ دیکھ کر تو یہ یقین ہوگیا ہے کہ میگا ایونٹس میں پاکستان کے لیے بھارت کو شکست دینا اب کسی حدتک ناممکن ہی ہوچکا ہے کیونکہ ہر مرتبہ پاکستان اہم میچ سے قبل 'شکست کے بھوت' کو اپنے اعصاب پر سوار کرلیتا ہے جس کے نتیجہ ہار کی صورت میں نکلتا ہے اور اس مرتبہ تو پاکستانی ٹیم نے بھارت کے خلاف شکستوں کی روایت کو بدلنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہ شکست کا خوف ہی تھا جس نے اچھے بھلے کمبی نیشن کے ساتھ کھیلنے والی ٹیم کو افراتفری کا شکار کردیا۔ کیا یہ بھارتی ٹیم اس قابل تھی کہ وہ تجربہ کار کھلاڑیوں سے لیس پاکستانی ٹیم کو شکست دے پاتی؟ بلاشبہ پاکستان ہر لحاظ سے بھارت سے کئی گنا بہتر سائیڈ تھی۔

بھارت نے آج محمد حفیظ کی تمام پروفیسری ہوّا کردی (تصویر: AP)
بھارت نے آج محمد حفیظ کی تمام پروفیسری ہوّا کردی (تصویر: AP)

1992ء کے عالمی کپ میں سڈنی میں کھیلا گیا پاک-بھارت مقابلہ ہو یا 1996ء کےعالمی کپ کا کوارٹر فائنل اور مزید آگے بڑھیں تو تین سال پہلے کھیلے گئے عالمی کپ سیمی فائنل ۔۔۔ ہر مرتبہ خوف کی چادر میں منہ چھپا کر پاکستان نے شکست کو گلے لگایا ہےکہ حالانکہ میگا ایونٹس میں ایسے مواقع بھی آئے جب پاکستان روایتی حریف کو زیر کرسکتا تھا مگر نفسیاتی دباؤ تلے وہ ایسا نہ کرسکا۔ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھارت کے خلاف شکست کا یہ بھوت شعیب ملک، یونس خان اور شاہد آفریدی سے ہوتا ہوا اب میرپور میں محمد حفیظ سے چمٹ گیا ہے کیونکہ میچ کے بعد ’’ٹورنامنٹ ابھی باقی ہے‘‘ جیسے بیان سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے کہ بھارت کے خلاف شکست نے پاکستانی کپتان کے سارے کس بل نکال دیے ہیں۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء کے اس اہم ترین مقابلے میں پاکستانی ٹیم میں منصوبہ بندی کا سخت فقدان دکھائی دیا جو بڑے میچ کا دباؤ برداشت کرنے سے عاری دکھائی دی۔ بحیثیت ٹیم کھیلنے کے بجائے انفرادی کھلاڑیوں پر انحصار کرنے کی کوشش کی گئی جو بری طرح ناکام ہوئی کیونکہ محمد حفیظ، شعیب ملک، سعید اجمل، عمر گل اور شاہد آفریدی میں سے ایک بھی سینئر اپنی انفرادی کارکردگی سے فرق ثابت نہ کرسکا۔ دوسری جان بھارتی ٹیم میں اتنے بڑے نام نہیں تھے لیکن امیت مشرا جیسا عام اور کم معروف کھلاڑي بھی بھارت کے لیے اہم ترین ثابت ہوا۔

امیت مشرا نے میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد کہا کہ کپتان دھونی نے ان پر پورا بھروسہ کیا اور اعتماد کیا جبکہ محمد شامی کو بھی اس اہم مقابلے میں ڈیبیو کروانا دھونی کے نوجوان کھلاڑی پر بھروسے و اعتماد کی مثال ہے۔

اس کے مقابلے میں محمد حفیظ نے نوجوان کھلاڑیوں کو اعتماد نہیں دیا بلکہ انہیں یقین تھا کہ ٹیم میں شامل بڑے نام ہی بڑی کارکردگی دکھائیں گے۔ صہیب مقصود سے ساتویں نمبر پر بیٹنگ کروانا اور بلاول بھٹی کو گیارہویں اوور میں باؤلنگ کے لیے طلب کرنا اس کی مثالیں ہیں کہ پروفیسر نوجوان کھلاڑیوں پر کتنا بھروسہ کرتے ہیں۔

اننگز کے آغاز میں کامران اکمل کی وکٹ گرنے کے بعد پاور پلے میں صرف 34 رنز ہی نے میچ کا نتیجہ واضح کردیا تھا کہ شکست کو خوف کو دل میں بٹھا کر بیٹنگ کرنے والے پاکستان کے لیے اس مرتبہ ہار سے بچنا بہت مشکل ہوگا۔ احمد شہزاد اور محمد حفیظ نے پہلے خو‌فزدہ ہوکر بیٹنگ کی اور پھر غیر ذمہ دارانہ انداز میں وکٹیں گنوا کر پاکستانی ٹیم کو مزید نقصان پہنچایا۔ عمر گل کو ہمیشہ سینئر ہونے کا صلہ دیا جاتا ہے مگر بھارت کے خلاف میگا ایونٹس میں عمر گل کو ہر مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوا۔

لیکن اب اس باب کو یہی بند کرکے پاکستان کو آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اس شکست پر ماتم کرنے کے لیے قومی ٹیم کے پاس بالکل وقت نہیں ہے اور اسے محض ایک دن کے فرق سے آسٹریلیا کا مقابلہ کرنا ہے۔ جہاں ضروری ہے کہ پروفیسرز الیون ٹھوس حکمت عملی اور بہتر ٹیم کمبی نیشن کے ساتھ میدان میں اترے۔