پاکستان، اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں

4 1,025

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء پہلے مرحلے میں "کمزور" ٹیموں کے شاندار مقابلوں کے بعد بھاری توقعات کے ساتھ 'سپر 10' مرحلے تک پہنچا جس کا آغاز ہی پاکستان و بھارت کی 'جنگ عظیم' سے ہوا لیکن 'کھودا پہاڑ، نکلا چوہا' کے مصداق یہ اب تک ٹورنامنٹ کا سب سے مایوس کن مقابلہ رہا جہاں پاکستان صرف 130 رنز بنا پایا اور بھارت نے بھی ہدف 19 ویں اوور میں جاکر حاصل کیا۔ یوں ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی کے عالمی کپ میں پاکستان کی بھارت کے ہاتھوں شکست کی داستان تو مزید طویل ہو ہی گئی لیکن بقول شخصے ٹورنامنٹ کا سب سے بور مقابلہ بھی دیکھنے کو ملا۔

بڑے مقابلوں کے لیے بڑی کارکردگی دکھانی پڑتی ہے لیکن پاکستان ابتدائی وار لگتے ہی خول میں بند ہوگیا (تصویر: ICC)
بڑے مقابلوں کے لیے بڑی کارکردگی دکھانی پڑتی ہے لیکن پاکستان ابتدائی وار لگتے ہی خول میں بند ہوگیا (تصویر: ICC)

اب جتنے منہ اتنی باتیں ہیں، جو پاکستان کی شکست کے اسباب کو بیان کررہی ہیں لیکن وجوہات بڑی سادہ سی ہیں۔ میچ کی پہلی گیند سے آخر تک یہ واضح نظر آ رہا تھا کہ پاکستان دباؤکو نہیں جھیل پا رہا، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ پاکستان 'پلان بی' کے بغیر میدان میں اترا ہے اور ٹاس ہارنے کے بعد بیٹنگ کرتے ہوئے کچھ ہی دیر میں یہ اندازے حقیقت کا روپ دھار چکے تھے۔ پاکستان چند کھلاڑیوں پر بہت زیادہ انحصار کرکے میدان میں اترا تھا اور ان کے نہ چلنے کی وجہ سے بالآخر شکست بھگتی۔

پاک-بھارت کے مقابلے سے محض چند گھنٹے قبل نیدرلینڈز نے آئرلینڈ کو ناقابل یقین شکست دے کر سپر10 مرحلے تک رسائی حاصل کی۔ 190 رنز کا ہدف، جس کا سوچ کر بھی پاکستان کے بلے بازوں کا پتہ پانی ہوجانا تھا، نیدرلینڈز کے غیر معروف کھلاڑیوں نے محض 13.5 اوورز میں حاصل کرلیا۔ ان کی وکٹیں بھی گریں، لیکن حوصلے پست نہ ہوئے اور اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے درکار نیٹ رن ریٹ کے حصول کے لیے ہدف کو مقررہ 14.2 اوورز سے پہلے ہی جا لیا۔ کم از کم پاکستان کو اس میچ ہی سے سبق سیکھنا چاہیےتھا کہ بڑے مقابلوں کے لیے بڑی کارکردگی دکھانی پڑتی ہے اور کئی مرتبہ ٹیموں کو اپنی اوقات سے بڑھ کر کچھ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان بھارت کے خلاف ابتداء میں وکٹ گرنے کے بعد خول میں ایسا بند ہوا کہ پھر آخر تک نہ نکل پایا۔ اننگز کے اہم ترین آخری پانچ اوورز کا آغاز ہوا تو ابتدائی تین اوورز میں تو صرف 8 رنز ہی بنے اور باقی دو اوورز میں صہیب مقصود کی بدولت 26 رنز حاصل کرنے کے باوجود اسکور صرف 130 رنز تک ہی پہنچ پایا جو بھارت کی طویل بیٹنگ لائن اپ کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ثابت ہوا۔

نفسیاتی دباؤ کے علاوہ ایک دیرینہ مسئلہ ٹیم کے انتخاب میں عوامی توقعات اور ذرائع ابلاغ کا دباؤ بھی ہے۔ مکمل طور پر فٹ نہ ہونے والے ایک اہم کھلاڑی کو نہ کھلانے کی صورت میں یہ خوف ٹیم پر طاری ہوجاتا ہے کہ اگر شکست ہوگئی تو عوام اور میڈیا کے تابڑ توڑ حملوں کا کیا ہوگا جو مذکورہ کھلاڑی کی عدم شمولیت کو شکست کی وجہ ٹھہرائیں گے۔ اس لیے ٹیم انتظامیہ فٹنس سے قطع نظر فائنل الیون کا انتخاب کرتی ہے اور ماضی میں بھی ایسا کئی بار ہوجاتا ہے۔ میگا ایونٹس کے اہم مقابلوں کے لیے بہت ہمت باندھنی پڑتی ہے اور شکست کے خوف کو نکال کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور پاکستان میں دہائیوں سے اس کا فقدان ہے۔ یہ بات پلے سے باندھ لینی چاہیے کہ ٹیم میں کھیلنے کی بنیادی شرط کھلاڑی کا مکمل طور پر فٹ ہونا ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ کھلاڑی کو ٹیم میں جگہ نہیں ملنی چاہیے، چاہے ہو کتنا ہی بڑا نام کیوں نہ ہو۔

پاکستان کو نیدرلینڈز اور بھارت سے سبق سیکھنا چاہیے کہ جنہوں نے بڑے ناموں کی عدم موجودگی میں نوجوان کھلاڑیوں اور بھرپور ٹیم ورک کے ذریعے اہم مقابلے جیتے۔ اب پاکستان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں اور اتوار کو آسٹریلیا کے خلاف مقابلے میں شکست اسے محض دو دنوں میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے اعزاز کی دوڑ سے باہر کردے گی۔ اس لیے غلطیوں کو سمجھنے، ان کے تدارک اور آگے کی حکمت عملی طے کرنا کا یہی وقت ہے۔