[آج کا دن] 22 سال پہلے 22 گز پر بادشاہت!

2 1,074

عالمی کپ میں پاکستان کی جیت کو 22 برس بیت گئے ہیں لیکن ان تاریخی لمحات کی یادیں ذہن میں اس طرح تازہ ہیں جیسے یہ کل کی ہی بات ہو ۔ شاید میری عمر کے لوگوں کے لیے یہ جیت کرکٹ کا جنون بلندیوں تک پہنچانے کے لیے پرفیکٹ تھی کیونکہ ٹین ایج میں قدم رکھتے ہی اپنی ٹیم کو فاتح عالم بنتے ہوئے دیکھنا آج بھی جسم میں سنسنی سی دوڑا دیتا ہے اور بائیس سال پہلے تو یہ جنون عروج کی حدوں کو چھو رہا تھاکیونکہ 87 کے سیمی فائنل کی ہار کے زخم کو 92 کی جیت نے بھرپور انداز مندمل کیا تھا۔

اس فتح کے نتیجے میں منفی سرگرمیوں میں الجھے نوجوان کرکٹ کی طرف راغب ہونے لگے اور ملک پر مثبت اثرات مرتب ہوئے (تصویر: PA Photos)
اس فتح کے نتیجے میں منفی سرگرمیوں میں الجھے نوجوان کرکٹ کی طرف راغب ہونے لگے اور ملک پر مثبت اثرات مرتب ہوئے (تصویر: PA Photos)

ورلڈ کپ 92 کی جیت سے آج ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں کی بہت سی حسین یادیں وابستہ ہیں لیکن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلے گئے اس ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے کچھ بھی پاکستان کے حق میں نہ تھا اور جذبات سے قطع نظر اس ایونٹ میں پاکستان کے سیمی فائنل تک پہنچنے کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ کچھ بھی پاکستان کے حق میں نہ تھا۔آسٹریلیا میں پاکستانی ٹیم کا ریکارڈ کبھی بھی اچھا نہیں رہا تھا۔ وہاں کھیلے گئے تین ملکی ٹورنامنٹس میں پاکستانی ٹیم کبھی بھی فائنل تک رسائی حاصل نہ کرپائی تھی۔ آسٹریلین وکٹیں ہمیشہ سے پاکستانی بیٹسمینوں کے لیے مشکلات کا سبب بنی تھیں اور ورلڈ کپ میں سفید گیند اور ڈے اینڈ نائٹ میچز گرین شرٹس کو مزید جدوجہد میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھے۔

اسکواڈ کی بات کریں تو شاید یہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پاکستان کی کمزور ترین ٹیم تھی۔ وقار یونس جیسا بالرز ان فٹ ہوکر میگا ایونٹ سے باہر ہوچکاتھا۔ عبدالقادر پر اقبال سکندر اور سعید انور پر زاہد فضل کو ترجیح دی گئی۔ توصیف احمد اور سلیم جعفر جیسے تجربہ کار بالرز اسکواڈ میں جگہ نہ بناپائے مگر غیر معروف وسیم حیدر کو ورلڈ کپ کھیلنے کا موقع مل گیا تو اس ایونٹ کے بعد بھی غیر معروف ہی رہے۔جو اسکواڈ میں شامل تھے ان کی فٹنس پر سوالیہ نشان تھے، کپتان عمران خان اور نائب کپتان جاوید میانداد مکمل طور پر فٹ نہ تھے اور ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل پاکستانی ٹیم آسٹریلین ریاستوں کےخلاف سائیڈ میچ تک ہار گئی تھی۔

ورلڈ کپ کا آغاز ویسٹ انڈیز کےخلاف دس وکٹوں کی شکست کے ساتھ ہوا اور اس میچ میں پاکستان کا بالنگ اٹیک بالکل واجبی سا محسوس ہوا۔ اگلے میچ میں زمبابوے کو شکست دینے کے بعد پاکستانی ٹیم جیت کے لیے ترس گئی۔انگلینڈ کےخلاف قومی ٹیم صرف 74 پر ڈھیر ہوگئی مگر بارش نے پاکستان کو یقینی شکست سے بچالیا اور اس میچ میں ملنے والا ایک پوائنٹ پاکستان کو سیمی فائنل تک لے جانے کا سبب بن گیا۔عمران اور میانداد فٹنس مسائل کے سبب تمام میچز نہیں کھیل رہے تھے۔ سلیم ملک جیسا تجربہ کار بیٹسمین مسلسل ناکام ہورہا تھا۔ بالنگ کا سارا بوجھ تین بالرز کے کندھوں پر تھا۔روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست نے پاکستان کا مورال اور گرا دیا اور جب جنوبی افریقہ نے پاکستان کو زیر کیا تو پوائنٹس ٹیبل پر آٹھویں نمبر پر موجود ٹیم کے کھلاڑی جان چکے تھے کہ اب ورلڈ کپ میں پاکستان کا سفر ختم ہوچکا ہے اور وہ گھر واپس جانے کی تاریخ کا انتظار کررہے تھے مگر کپتان کو پورا یقین تھا کہ وہ اس مرتبہ ورلڈ کپ لے کر ہی پاکستان واپس جائے گا۔

11 مارچ کو عمران خان کے ٹائیگرز نے میزبان آسٹریلیا کو پچھاڑ کر اہم کامیابی حاصل کی اور ٹورنامنٹ میں رہنے کا جواز پیدا کرلیا جس کے بعد سری لنکا اور پھر ناقابل شکست نیوزی لینڈ کو شکست دے کر پاکستان نے سیمی فائنل میں جگہ بنا لی۔ سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو ان کے ہوم گراؤنڈ پر ہرانا آسان نہ تھا مگر پھر ایک معجزہ ہوگیا اور انضمام الحق نے ایک غیر معمولی اننگز کھیل کر پاکستان کو پہلی مرتبہ فائنل کھیلنے کا اعزاز دلوادیا۔فائنل میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان سے زیادہ مضبوط اور مستقل مزاجی سے پرفارم کرتے ہوئے فائنل تک پہنچی تھی۔ اوپنرز ابتدا میں آؤٹ ہوئے تو عمران اور میانداد نے سست روی سے اسکور آگے بڑھانا شروع کیا مگر اننگز کے اختتامی حصے میں انضمام اور وسیم کے لاٹھی چارج نے پاکستان کو 249 کا مجموعہ دلوادیا۔جواب میں انگلینڈ کی ٹیم 4‪/‬141 کے اسکور پر باآسانی ہدف کی طرف بڑھ رہی تھی اور ایلن لیمب جیسا کہنہ مشق بیٹسمین کریز پر موجود تھا۔ اس موقع پر وسیم اکرم کی دو جادوئی گیندیں بھی معجزہ ہی تھیں جس نے انگلینڈ کی بیٹنگ لائن کو تہس نہس کردیا اور اختتامی اوورز میں ذرا سی مہم جوئی کے بعد پاکستانی ٹیم 22 رنز سے میچ جیت کر پہلی مرتبہ عالمی چمپئن بننے کے اعزاز کی حقدار بن گئی۔‬

اگر پاکستان یہ ورلڈ کپ ہار جاتا تو شاید عمران خان کا کینسر ہسپتال بھی نہ بن پاتا جو لاکھوں مستحق مریضوں کو اس موذی مرض سے نجات دلوارہا ہے اور شاید پاکستان میں کرکٹ کا جنون بھی خاتمے کے قریب پہنچ جاتا اور نہ ہی کرکٹ کی اگلی نسل تیار ہوپاتی۔ مجھے یاد ہے کہ اس ورلڈ کپ کی جیت نے پورے ملک کو دیوانہ بنا دیا تھاہر کوئی کرکٹ کھیلنے کے جنون میں مبتلا تھا۔ سیالکوٹ میں کرکٹ کا سامان بنانے والی کمپنیوں کی چاندی ہوگئی جنہوں نے دام اچانک بڑھا دیےمگر اس کے باوجود ہم اپنا جیب خرچ جمع کرکے کرکٹ کا سامان خریدنے پر مجبور تھے۔ ہر گھر میں فاتح عالم کھلاڑیوں کے پوسٹر دکھائی دینے لگے۔ کرکٹ کے میگزینز کی فروخت میں اضافہ ہوگیاہر ٹین ایجر وسیم اکرم، انضمام، مشتاق، عاقب یا معین خان بننے کے جنون میں مبتلا تھا اور اس جیت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ منفی سرگرمیوں میں الجھے نوجوان کرکٹ کی طرف راغب ہونا شروع ہوگئے۔ میدان آباد ہونے لگے، بھارتی فلموں کے ویڈیو کیسٹ کی بجائے نوجوانوں کے ہاتھوں میں کرکٹ میگزینز دکھائی دینے لگے۔یہ سب اس جیت کا ثمر تھا جس نے پورے ملک پر مثبت اثرات مرتب کیے۔

25 مارچ 1992 کو عمران خان کے ٹائیگرز نے میلبورن کی 22 گز کی وکٹ پر جو بادشاہت قائم کی اس نے پاکستان کرکٹ کی سمت تبدیل کردی اور اس ٹائٹل کے بعد پاکستان کو دنیا کی خطرناک ترین ٹیم تصور کیا جانے لگا۔ پچھلے دو عشروں میں ہمیں یہ ورلڈ کپ جیتنے کا موقع دوبارہ نہ مل سکالیکن آج اس جیت کی پاکستان کرکٹ اور وطن عزیز کو شدید ضرورت ہے جو ایک مرتبہ پھر پاکستان کو پروقار مقام دلا سکتی ہے۔ایک برس بعد میلبورن کے اسی تاریخی میدان میں ایک مرتبہ پھر ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا جائے گا اور شاید گرین شرٹس ایک مرتبہ پھر اپنی بادشاہت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے!