ڈی ولیئرز جنوبی افریقہ کو سیمی فائنل میں پہنچا گئے، انگلستان باہر

2 1,112

جنوبی افریقہ نے قائم مقام کپتان ابراہم ڈی ولیئرز کی شاندار بلے بازی کی بدولت ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء کے سیمی فائنل میں جگہ پالی اور انگلستان کے خلاف تین رنز کے فتح کے ساتھ ہی ٹورنامنٹ میں انگلش پیشرفت کا بھی خاتمہ کردیا۔ یوں انگلستان ٹی ٹوئنٹی کے عالمی اعزاز کی دوڑ سے باہر ہونے والا پہلا قابل ذکر ملک بن گیا ہے۔

ڈی ولیئرز صرف 28 گیندوں پر 69 رنز بنانے کے بعد ناقابل شکست میدان سے لوٹے (تصویر: Getty Images)
ڈی ولیئرز صرف 28 گیندوں پر 69 رنز بنانے کے بعد ناقابل شکست میدان سے لوٹے (تصویر: Getty Images)

چٹاگانگ کے ظہور احمد چودھری اسٹیڈیم میں ہونے والے مقابلے کا سب سے اہم مرحلہ ابراہم ڈی ولیئرز کی وہ دھواں دار اننگز تھا جس میں انہوں نے 28 گیندوں پر 69 رنز داغ کر انگلش باؤلرز کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا۔ ان کی اس جارحانہ بیٹنگ کی وجہ سے جنوبی افریقہ آخری تین اوورز میں55 رنز لوٹنے میں کامیاب ہوا اور نتیجتاً 196 رنز کا ایسا مجموعہ حاصل کرگیا جو تمام تر کوششوں کے باوجود انگلستان حاصل نہ کر پایا۔

انگلستان کے کپتان اسٹورٹ براڈ نے ٹاس جیتا اورجنوبی افریقہ کو بلے بازی کی دعوت دی۔ حالات کے پیش نظر یہ بالکل درست فیصلہ تھا کیونکہ رات گزرنے کے ساتھ اوس پڑنے کی شدت میں جو اضافہ ہونا تھا اس میں جنوبی افریقہ کے باؤلرز کے لیے ہدف کا تعاقب کرنے والے انگلش بلے بازوں کو روکنا مشکل ہوجاتا لیکن آج کچھ بھی اسٹورٹ براڈ کے حق میں نہیں گیا۔ محض تیسرے اوور میں وکٹ کیپر جوس بٹلر نے ہاشم آملہ کو اسٹمپڈ کرنے کا آسان موقع ضائع کیا، جو اس وقت محض 19 رنز پر کھیل رہے تھے اور بعد ازاں انہوں نے کوئنٹن ڈی کوک کے ساتھ مل کر پہلی وکٹ پر90 رنز جوڑ کر انگلستان کی تمام تر خوش فہمیوں کا خاتمہ کردیا۔ ہاشم آملہ جو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ابتدائی دو مقابلوں میں پیش کردہ کارکردگی کے بعد سخت تنقید کا نشانہ بنے اوریہاں تک کہا گیا کہ ہاشم ٹیسٹ اور ون ڈے کے عظیم بلے باز سہی، لیکن ان میں ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کی اہلیت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ مقابلے میں نیدرلینڈز کے خلاف اور آج انگلستان کے سامنے بہت جارحانہ بیٹنگ کی۔ 37 گیندوں پر 56 رنز کی باری کھیلنے کے بعد وہ اس وقت آؤٹ ہوئے جب گیارہویں اوور میں جنوبی افریقہ کا اسکور 90 رنز کو چھور ہا تھا۔ ہاشم کی اننگز میں دو شاندار چھکے اور 6 چوکے شامل رہے۔ البتہ دوسرے اینڈ پر ان کے ساتھی وکٹ کیپر ڈی کوک آج بھی بجھے بجھے دکھائی دیے۔ 33 گیندوں پر صرف 29 رنز بنانے کے بعد وہ جیمز ٹریڈویل کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے بٹلر کی پھرتی کا نشانہ بن گئے۔

ہاشم اور ڈی کوک کی وکٹیں نکالنے کے بعد انگلستان نے اس وقت مقابلے میں واپسی کی جب ان فارم ژاں-پال دومنی رن آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ گئے۔ اس مرحلے پر جبکہ 15 ویں اوور میں 120 رنز اسکور بورڈ پر موجود تھے، جنوبی افریقہ کی تمام تری امیدیں ڈی ولیئرز سے وابستہ تھیں۔

'اے بی' نے ڈیوڈ ملر کے ساتھ مل کر صرف 26 گیندوں پر 54 رنز کا اضافہ کیا جس میں غالب حصہ ڈی ولیئرز کا اپنا تھا۔ بالخصوص اننگز کے اٹھارہویں اوور میں جیڈ ڈرنباخ کے خلاف تو دونوں بلے بازوں نے کمال ہی کر دکھایا۔ ابتدائی دو گیندوں پر ملر کے چوکے اور اس کے بعد ڈی ولیئرز کے دو شاندار چھکوں کی بدولت جنوبی افریقہ نے اس اوور میں 26 رنز لوٹے، جو بعد ازاں فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوا۔ ڈیوڈ ملر کے آؤٹ ہونے کے باوجود جنوبی افریقہ نے آخری دو اوورز میں مزید 29 رنز کا اضافہ کیا اور یوں حتمی تین اوورز میں 55 رنز سمیٹ کر 196 رنز کے بہترین مجموعے تک جا پہنچا۔

ڈی ولیئرز 28 گیندوں پر 69 رنز کی باری کے ساتھ ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔ تین چھکوں اور 9 چوکوں سے مزین اس اننگز کے ابتدائی نصف حصے یعنی 14 گیندوں پر ڈی ولیئرز نے 21 رنز بنائے تھے لیکن آخری 14 پر تو ان کا بلّا چارج 48 رنز حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

انگلستان کا حد سے زیادہ ایلکس ہیلز پر انحصار انہیں لے ڈوبا (تصویر: Getty Images)
انگلستان کا حد سے زیادہ ایلکس ہیلز پر انحصار انہیں لے ڈوبا (تصویر: Getty Images)

انگلستان کے باؤلرز حال سے بے حال ہوگئے۔ جیڈ ڈرنباخ کے تین اوورز میں 44، ٹم بریسن کو 28، کرس جارڈن کو 30 اور جیمز ٹریڈ ویل کو 25 رنز پڑے جبکہ اسٹورٹ براڈ کو 4 اوورز میں 33 رنز کی مار سہنا پڑی۔ آخر الذکر چاروں باؤلرز کو ایک، ایک وکٹ نصیب ہوئی۔

197 رنز کے بہت بڑے ہدف کے تعاقب میں انگلستان کی تمام تر امیدیں ایلکس ہیلز سے وابستہ تھیں اور ایسا محسوس ہوا کہ ان پر حد سے زیادہ انحصار کرلیا گیا تھا کیونکہ جیسے ہی ہیلز آؤٹ ہوئے انگلش غبارے سے وہ تمام ہوا نکل گئی جو سری لنکا کے خلاف شاندار فتح سے بھر گئی تھی۔انہوں نے مائیکل لمب کے ساتھ مل کر 28 گیندوں پر 46 رنز کی بہترین ابتدائی شراکت داری فراہم کی لیکن ٹورنامنٹ میں پہلا مقابلہ کھیلنے والے وین پارنیل نے آج اپنے انتخاب کو درست ثابت کر دکھایا۔ انہوں نے دونوں بلے بازوں کی قیمتی وکٹیں حاصل کرکے انگلستان کو ایسا دھچکا پہنچایا کہ کہ وہ آخر تک تمام تر کوششوں کے باوجود اس صدمے سے نہ نکل سکا۔ ہیلز 22 گیندوں پر 38 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے تو پارنیل اور عمران طاہر نے معین علی، ایون مورگن اور جوس بٹلر کی وکٹیں حاصل کرکے جنوبی افریقہ کو غلبہ عطا کردیا۔

پھر آخری لمحات میں روی بوپارہ کی 18 گیندوں پر 31 اور ٹم بریسنن کی 4 گیندوں پر 17 رنز کی باریاں بھی محض شکست کے مارجن ہی کو کم کر پائیں۔ بریسنن نے اننگز کی آخری تین گیندوں پر دو چھکے اور ایک چوکا لگایا لیکن تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں اور انگلستان تین رنز سے ہار گیا۔

ابراہم ڈی ولیئرز کو فاتحانہ اننگز کھیلنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

جنوبی افریقہ نے جس طرح سپر 10 مرحلے میں سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد جس طرح نیوزی لینڈ اور پھر انگلستان کو محدود کرکے مقابلے جیتے ہیں۔ ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فیصلہ کن لمحات میں اپنے اوسان بحال رکھنے کا گر پروٹیز سے سیکھ لیا ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ سیمی فائنل میں وہ کس طرح تاریخ کا دھارا موڑتے ہیں۔ کیونکہ عالمی کپ ہو یا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی، جب بھی جنوبی افریقہ ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچا ہے، اسے پہلے ہی میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

بہرحال، مجموعی طور پر انگلستان-جنوبی افریقہ مقابلہ بہت یادگار رہا۔ گو کہ دو مرتبہ بجلی چلے جانے کی وجہ سے مقابلہ روکنا پڑا اور اوس نے باؤلرز اور فیلڈرز کو بے حال کر کے رکھا لیکن 40 اوورز میں بننے والے 389 رنز کا میدان میں موجود شائقین نے زبردست لطف اٹھایا۔