احمد شہزاد کی بدولت پاکستان کی بنگلہ دیش پر بھاری فتح

2 1,014

پاکستان نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کےاہم مقابلے میں جامع کارکردگی دکھاتے ہوئے میزبان بنگلہ دیش کو 50 رنز کے بھاری فر ق سے شکست دے دی اور یوں نہ صرف اپنی سیمی فائنل کھیلنے کی امیدوں کو برقرار رکھا ہے بلکہ بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا کو بھی اعزاز کی دوڑ سے باہر کردیا ہے۔

احمد شہزاد ٹی ٹوئنٹی تاریخ میں سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بلے باز بنے (تصویر: Getty Images)
احمد شہزاد ٹی ٹوئنٹی تاریخ میں سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بلے باز بنے (تصویر: Getty Images)

میرپور، ڈھاکہ کے شیر بنگلہ اسٹیڈیم میں احمد شہزاد نے ہزاروں مقامی تماشائیوں کی موجودگی میں ایک ریکارڈ ساز اننگز کھیلی جس کی بدولت پاکستان بیٹنگ کرتے ہوئے 190 رنز کا بڑا مجموعہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوا۔ احمد شہزاد، جو جاری ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ابتدائی دونوں مقابلوں میں ناکام ہوئے تھے، نے بنگلہ دیش کے خلاف سنچری جڑ کر تمام حساب چکتا کردیا اور ٹی ٹوئنٹی کی تاریخ میں سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بلے باز بن گئے۔ اس فتح کے ساتھ اب پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین گروپ 2 کا آخری مقابلہ کوارٹر فائنل کی صورت اختیار کرچکا ہے جہاں جیتنے والی ٹیم سیمی فائنل میں جگہ پائے گی۔

احمد شہزاد آج ابتداء ہی سے مکمل موڈ میں دکھائی دے رہے تھے اور ساتھی اوپنر کامران اکمل کے ساتھ 43 رنز کی شراکت داری کی تو اس میں کامران کا حصہ محض 9 رنز کا تھا۔ پاکستان کی اننگز اس وقت پٹری سے اترتی دکھائی دی جب پے در پے دو اوورز میں محمد حفیظ اور عمر اکمل آؤٹ ہوئے لیکن اس کے بعد احمد شہزاد نے شعیب ملک کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش کے واپس آنے کی تمام راہیں مسدود کردیں۔ انہوں نے صرف 58 گیندوں پر اپنی سنچری مکمل کی جو ٹی ٹوئنٹی تاریخ میں کسی بھی پاکستانی بلے باز کی جانب سے بنائی گئی تہرے ہندسے کی پہلی اننگز تھی جبکہ بعد ازاں مواقع ملنے کی بدولت وہ 111 رنز کے ساتھ ناقابل شکست میدان سے واپس آئے۔ ان کی 62 گیندوں پر مشتمل اننگز میں 5 چھکے اور 10 چوکے شامل تھے۔

شعیب ملک نے 23 گیندوں پر 26 رنز کے ذریعے ایک اینڈ کو بخوبی سنبھالے رکھا اور احمد کے ساتھ مل کر انہوں نے چوتھی وکٹ پر 83 قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔ آخری لمحات میں شاہد آفریدی کی 9 گیندوں پر 22 رنز کی دھواں دار اننگز نے پاکستان کو 190 تک پہنچا دیا۔

بنگلہ دیش کی جانب سے صرف عبد الرزاق اور شکیب الحسن پاکستانی بلے بازوں کے عتاب سے بچ پائے۔ انہوں نے اپنے چار، چار اوورز میں بالترتیب 20 اور 21 رنز دیے اور دو اور ایک وکٹ بھی حاصل کی۔ البتہ تیز گیند بازوں کے لیےآج مایوس کن دن تھا۔ مشرفی مرتضیٰ کے چار اوورز میں پاکستانی بلے بازوں نے 63 رنز لوٹے جبکہ 37 رنز الامین حسین کو پڑے۔

بنگلہ دیش، جسے بقاء کی جنگ درپیش تھی، نے ابتداء ہی میں ہتھیار ڈال دیے۔ عمر گل اور پھر پاکستانی اسپنرز میزبان بلے بازوں کی وکٹیں وقفے وقفے سے سمیٹتے رہے اور یہ نقصانات اننگز کی درست سمت میں پیشرفت میں رکاوٹ ثابت ہوئے۔ صرف شکیب الحسن اور ناصر حسین 38 اور 23 رنز کی قابل ذکر اننگز کھیل پائے، لیکن اس قابل نہ تھیں کہ 191 رنز کا ہدف حاصل کرنے میں اہم قرار پاتیں۔ آخر میں محمود اللہ اور مشرفی مرتضیٰ کے 17، 17 رنز بھی محض شکست کے فرق کو ہی کم کرپائے۔

پاکستان کی جانب سے عمر گل 30رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کرکے سب سے کامیاب باؤلر رہے۔ دو وکٹیں سعید اجمل نے اور ایک، ایک وکٹ ذوالفقار بابر اور شاہد آفریدی نے حاصل کی۔

فیصلہ کن باری کھیلنے پر احمد شہزاد کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا اور بلاشبہ ان کی اننگز اس اعزاز کی حقدار تھی۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے آغاز میں بھارت کے خلاف ابتدائی مقابلے میں مایوس کن کارکردگی کے بعد کھیلے گئے دونوں مقابلوں میں پاکستان نے بہترین کارکردگی دکھائی ہے اورنہ صرف بلے بازوں نے بڑے مجموعے اکٹھے کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے بلکہ باؤلرز نے بھی اوسان بحال رکھتے ہوئے حریف کو ہدف سے پہلے جا لیا۔

دوسری جانب بنگلہ دیش کی کارکردگی حد درجہ مایوس کن رہی۔ اپنے ہی میدانوں پر، مانوس حالات میں اور حوصلہ افزائی کرنے والے ہزاروں تماشائیوں کے روبرو کھیلنے کے باوجود ایسی کارکردگی نہیں دکھایا پایا، جس کی اس سے توقع تھی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بنگلہ دیش کی کارکردگی نیدرلینڈز بھی مایوس کن رہی جس نے، سوائے سری لنکا کے مقابلے کے، بیٹنگ اور باؤلنگ میں جم کر مقابلہ کیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف تو تقریباً فتح تک پہنچ گئے تھے۔ بہرحال، اب یہ ٹورنامنٹ تو بنگلہ دیش کے لیے تمام ہوا لیکن اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ گیا ہے۔