پاکستان کی شرمناک کارکردگی، ویسٹ انڈیز سیمی فائنل میں

11 1,077

پاکستان کے لیے جتنا بڑا مقابلہ تھا، بیٹنگ میں اس نے اتنی ہی بری کارکردگی دکھائی۔مقابلے کے ابتدائی 15 اوورز تک ویسٹ انڈین بلے بازوں کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد آخری پانچ اوورز میں ڈیوین براوو اور ڈیرن سیمی کی دھواں دار بیٹنگ کے ہاتھوں ایسا باہر ہوا کہ پھر تاریخ کے بدترین بیٹنگ مظاہرے کے ساتھ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ پاکستان نے کوارٹر فائنل نما مقابلے میں 85 رنز پر ویسٹ انڈیز کی 5 وکٹیں حاصل کر ڈالیں اور پھر 'آخری سپاہیوں' ڈیوین براوو اور ڈیرن سیمی کو نہ پچھاڑ سکا جن کے بلّا چارج نے پاکستان کے حوصلوں کو ایسا پست کیا کہ پھر وہ سر نہ اٹھا سکا اور 167 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 82 رنز پر ڈھیر ہوگیا۔ یوں دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کو سیمی فائنل میں پہنچا گیا۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ءمیں گزشتہ چند دنوں سے ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں کا جو حال رہا ہے، کچھ وہی حالت آج شیر بنگلہ میں پاکستان کی تھی۔ چند روز پہلے آسٹریلیا بھارت کے خلاف 86 رنز پر ڈھیر ہوا تھا، اگلے دن انگلستان نیدرلینڈز کے سامنے 88اور پھر گزشتہ روز نیوزی لینڈ کی بساط سری لنکا کے خلاف صرف 60 رنز پر لپٹ گئی اور کچھ یہی کہانی آج دہرائی گئی۔ انگلستان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کھلاڑی جو "داد و تحسین" سمیٹ رہے ہیں، وہ اپنی جگہ لیکن پاکستان کے بلے بازوں نے آج جو شرمناک کارکردگی دکھائی ہے اس نے کروڑوں شائقین کے سر شرم سے جھکا دیے ہوں گے۔

میرپور، ڈھاکہ میں ویسٹ انڈین اننگز کے آخری لمحات میں مقابلے پر گرفت کھونے کے بعد پاکستان کو ضرورت تھی کہ بیٹنگ کے ذریعے بھرپور جواب دیتا لیکن اس کے ایسے ہاتھ پیر پھولے کہ اس کے دونوں اوپنرز صفر پر آؤٹ ہوئے۔ بعد ازاں کپتان، جن کواپنی مثال پیش کرنی چاہیے تھی، 32 گیندوں پر 19 رنز کی مایوس کن باری کھیلنے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ صہیب مقصود اور شاہد آفریدی کی 18، 18 اور سہیل تنویر کی 14 رنز کی مختصر اننگز 'بے وقت کی راگنیاں' تھیں، کیونکہ 11 ویں اوور میں صرف 37 رنز پر پانچ کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کے بعد مقابلہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ رسمی کارروائی کے تحت یہ کھلاڑی کھیلتے رہے اور بالآخر اٹھارہویں اوور میں عمر گل کے ساتھ ہی پاکستان کی اننگز تمام ہوئی۔ 84 رنز کی بدترین شکست، تقریباً وہی رنز جو پاکستان کے باؤلرز نے آخری 5 اوورز میں کھائے۔

ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے مطمع نظر یہی تھا کہ ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی ازلی کمزوری کا فائدہ اٹھایا جائے اور اس ٹورنامنٹ میں تمام مقابلوں میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کی تھی اور اس کے بلے بازوں کا تعاقب میں امتحان نہیں ہوا تھا۔ ڈیرن سیمی کا یہی فیصلہ بعد ازاں بہترین ثابت ہوا گو کہ ویسٹ انڈیز کے ابتدائی بلے باز بری طرح ناکام ہوئے۔ پاکستان نے ابتدائی چار اوورز ہی میں ویسٹ انڈیز کے اوپنرز کرس گیل اور ڈیوین اسمتھ کی قیمتی وکٹیں نکال لی تھیں جو بالترتیب محمد حفیظ اور سہیل تنویر کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ اس مرحلے پر لینڈل سیمنز اور مارلون سیموئلز نے بہت حاضر دماغی سے کھیلا۔ سیمنز ایک اینڈ سے تیز رفتاری سے رنز بناتے جبکہ سیموئلز آہستگی سے صرف ایک، دو رنز لینے پر اکتفا کرتے رہے یہاں تک کہ نصف منزل یعنی 10 اوورز پورے ہوگئے اور اسکور بورڈ پر 61 رنز موجود تھے۔ یعنی حالات کسی حد تک قابو میں ہی تھے۔ پاکستان نے مختصر سے وقفے سیمنز، سیموئلز اور دنیش رامدین کی وکٹیں حاصل کرکے ویسٹ انڈیز کو بالکل ہی پچھلے قدموں پر دھکیل دیا۔ سیمنز 29 گیندوں پر 31 اور سیموئلز 18 گیندوں پر 20 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔

اس مرحلے پر ویسٹ انڈیز کا اسکور 14 ویں اوور میں 81 رنز پر پانچ کھلاڑی آؤٹ تھا اور مستند بلے بازوں کی آخری جوڑی ڈیرن سیمی اور ڈیوین براوو کی صورت میں موجود تھی جنہوں نے ناقابل یقین کو یقینی بنا دیا۔ اننگز کے سولہویں اوور کے آغاز کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستانی باؤلرز کو اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا اور دو اوورز میں 23 رنز سمیٹنے کے بعد عمر گل کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ ڈیوین براوو نے 18 ویں اوور کی پہلی دونوں گیندوں پر شاندار چھکے رسید کیے اور پھر چوتھی گیند کو چوکے کے لیے روانہ کرکے اوور میں مجموعی طور پر 21 رنز سمیٹے۔

رہی سہی کسر اگلے اوور میں دونوں نے سعید اجمل نے پوری کرلی جنہوں نے تین اوورز میں محض 17 رنز دیے تھے لیکن اپنے آخری اوور میں براوو کے ہاتھوں دو چھکے اور سیمی کے ہاتھوں ایک چھکا اور ایک چوکا کھا کر 24 رنز دے بیٹھے۔ آخری اوور میں گو کہ براوو کی وکٹ گرگئی لیکن سیمی کے چھکے نے اسکور کو 166 تک پہنچا دیا۔ 15 اوورز میں اسکوربورڈ 84 رنز ظاہر کررہا تھا اب ایسا مجموعہ دکھا رہا تھا جو پاکستان کے حوصلے توڑنے کے لیے کافی تھا۔ آخری پانچ اوورز میں بالترتیب 11، 12، 21، 24 اور 14 رنز لوٹے گئے، یعنی مجموعی طور پر 82 رنز! جو ٹیسٹ رکنیت رکھنے والے کسی ملک کی جانب سے کھائے جانے والے سب سے زیادہ رنز ہیں۔ پاکستان کی باؤلنگ نااہلیت کو ظاہر کرنے کے لیے یہی کافی ہے، جو 15 اوورز تک چھائی رہی اور پھر ہمت ہار بیٹھی۔

ڈیوین براوو صرف 26 گیندوں پر چار چھکوں اور دو چوکوں کی مدد سے 46 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوئے جبکہ سیمی 20 گیندوں پر 42 رنز کےساتھ ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔ ان کی باری میں دو چھکے اور 5 چوکے شامل تھے۔ دونوں نے صرف 32 گیندوں پر 71 رنز جوڑے۔

پاکستان کی جانب سے عمر گل نے 2 اوورز میں 29 اور سعید اجمل نے 4 اوورز میں 41 رنز کی مار کھائی جبکہ سہیل تنویر اور ذوالفقار بابر نے اپنے حصے کے اوورز میں 27 رنز دے کر ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔ شاہد آفریدی نے 23 رنز کھائے اور محمد حفیظ کی طرح ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔

پاکستان کے چار بلے باز وکٹوں کے پیچھے دنیش رامدین کی اسٹمپنگ کا نشانہ بنے (تصویر: AFP)
پاکستان کے چار بلے باز وکٹوں کے پیچھے دنیش رامدین کی اسٹمپنگ کا نشانہ بنے (تصویر: AFP)

جواب میں پاکستان اسی وقت مقابلہ ہار گیا جب 13 رنز پر اس کے چار کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے۔ کرشمار سنتوکی نے اننگز کی پہلی گیند پر احمد شہزاد کو ایل بی ڈبلیو کیا، اگلے اوور میں سیموئل بدری نے کامران اکمل کو صفر کی ہزیمت سے دوچار کیا پھر عمر اکمل اور شعیب ملک وکٹ کیپر دنیش رامدین کی پھرتی کا نشانہ بن گئے۔ مجموعی طور پر پاکستاین اننگز میں چار کھلاڑی اسٹمپڈ ہوئے جن میں عمر اور شعیب کے علاوہ صہیب اور آفریدی بھی شامل تھے۔

ویسٹ انڈیز کی جانب سے سنیل نرائن اور سیموئل بدری نے تین، تین وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو، دو کھلاڑیوں کو کرشمار سنتوکی اور آندرے رسل نے آؤٹ کیا۔

ڈیوین براوو کو شاندار بیٹنگ پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اس شکست کے ساتھ ہی پاکستان ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی تاریخ میں پہلی بار کم از کم سیمی فائنل تک رسائی میں ناکام رہا ۔ 2007ء اور 2009ء میں فائنل کھیلنے کے بعد پاکستان 2010ء اور 2012ء کے ٹورنامنٹس میں سیمی فائنل تک پہنچا تھا اور اس مرتبہ سپر10 مرحلے ہی سے باہر ہوگیا۔

ویسٹ انڈیز اب بہترین فارم میں دکھائی دیتا ہے بلکہ اپنے اعزاز کے دفاع کے لیے بہترین پوزیشن میں دکھائی دیتا ہے۔ ویسٹ انڈیز سیمی فائنل میں 3 اپریل کو سری لنکا کا سامنا کرے گا جبکہ دوسرا سیمی فائنل 4 اپریل کو بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلا جائے گا۔